اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام اُردو کے عہد ساز شاعر فیض احمد فیض کی 110ویں سالگرہ کی مناسبت سے فیض احمد فیض قومی ادبی سیمینارمنعقد ہوا۔ شفقت محمود، وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت ، قومی ورثہ و ثقافت ،مہمان خصوصی تھے۔ مجلس صدارت میں پروفیسر فتح محمد ملک اورافتخار عار ف شامل تھے۔ منیزہ ہاشمی مہمان اعزاز تھیں۔ ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین ، اکادمی ادبیات پاکستان ،نے ابتدائیہ پیش کیا۔ احمد سلیم، نعیم بخاری، خواجہ نجم الحسن، حارث خلیق، ڈاکٹر صوفیہ یوسف، حسن عباس رضا اور ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے اظہار خیال کیا۔ فیض احمد فیض کاکلام ساز و آواز کے ساتھ پیش کیا گیا۔ نظامت محبوب ظفر نے کی۔شفقت محمود، وفاقی وزیر برائے تعلیم و پیشہ ورانہ تربیت ، قومی ورثہ و ثقافت، نے کہا کہ فیض احمد فیض کی یاد میں منعقد ہونے والا یہ سیمینار اس بات کا اعادہ ہے کہ فیض احمد فیض اگرچہ آج جسمانی طور پر ہمارے ساتھ موجود نہیں لیکن ان کا ہر ہر شعر اور ہر ہر لفظ ہمارے دل کی دھڑکن ہے۔ فیض احمد فیض نے سار ی زندگی جدوجہد میں گزاری اور صحیح معنوں میں اپنے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کی۔ انہوں نے کہا کہ فیض احمد فیض ہمیشہ جبر کے خلاف سینہ سپر رہے ۔ انہوں نے نہ صرف اپنی شاعری کے ذرےعے ناانصافی کے خلاف آواز اٹھائی بلکہ عملی طور پر بھی عوام کے ساتھ احتجاج میں شریک رہے ۔ انہوں نے کہا کہ آج اگر ہم ایک جمہوری معاشرے میں آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں تو اس میں فیض احمدفیض ، احمد فراز، حبیب جالب اور ان جیسے دیگر شاعروں کی شاعری کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ میرے نزدیک اگر ہم نے اس ملک کی حقیقی تاریخ سے آگاہ ہونا ہے تو ہمیں فیض احمد فیض جیسے ادیبوں اور شاعروں کی تخلیقات سے استفادہ کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ آج ہمیں مذہبی بنیاد پرستی، لسانی عصبیت، دہشت گردی اور عدم رواداری جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔ عدم برداشت ایک ایسی دیمک ہے جو ہمارے معاشرے کو کھوکھلا کر رہی ہے ان مسائل کا پائیدار حل تب ہی ممکن ہوگا جب ہم اقبال اور فیض جیسے شاعرو ں کے شعروں سے رہنمائی حاصل کریں گے۔ ڈاکٹر یوسف خشک، چیئرمین، اکادمی ادبیا ت پاکستان نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے کہاکہ فیض احمد فیض ایک عہد ساز شاعر تھے انہوں نے اپنی شاعری سے نہ صرف اردو ادب پر گہرے اثرات ثبت کےے بلکہ معاشرے کے تمام شعبہ ہائے زندگی کو بھی متاثر کیا۔ اُن کی شاعری ہمہ گیر انسانی سوچ اور سچائی کے جذبے سے عبارت ہے۔ انہوں نے شاعری کے ساتھ ساتھ صحافتی سطح پر بھی سامراجی قوتوں کے خلاف قلم کے ذرےعے جہاد کیا۔انہوں نے کہا کہ بیسیویں صدی کے اردو شعراءمیں اقبال کے بعد جس شاعر نے ہمارے معاشرے اور سماج پر زیادہ اثر ڈالا، وہ بلاشبہ فیض احمد فیض ہیں۔ وہ مزدوروں ، کسانوں اور جبرکی چکی میں پسنے والے مظلوم لوگوں کی آواز تھے۔ فیض کی شاعری کا اختصاص یہ ہے کہ انہوں نے اپنی مزاحمتی شاعری میں فکر و فن اور جمالیاتی سطح پر خوبصورت تشبیہات ، تلمیحات اور غنائیت سے لوگوں کے دلوں کو سرشار کیا۔ ان کی شاعری انسان کی فطری جذبوں کا خوبصورت اظہار یہ ہے ۔ بلاشبہ فیض آفاقی سوچ کے حامل باکمال شاعر تھے۔ پروفیسر فتح محمد ملک نے کہا کہ اقبال کے بعد فیض سب سے بڑے شاعر ہیں۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے مظلوم انسانوں کی ترجمانی کی۔ انہو ں نے ہمیشہ نادار لوگوں کی فلاح وبہبود کے لےے جدوجہد کی۔ اُن کی شاعری اور جدوجہد ہماری ادبی تاریخ کا روشن باب ہے۔ افتخار عارف نے کہا کہ فیض احمدفیض کا شمار نہ صرف پاکستان میں اردو کے عظیم شعراءمیں ہوتاہے بلکہ وہ ساری دنیا میں اپنی ادبی حیثیت اور عظیم ترقی پسندشاعر کے طورپر جانے جاتے ہیں ۔ اُن کی شاعری اور ان کی زندگی محروم طبقوں ، مظلوم قوموں اور مجبور انسانوں کی آزادی کی جدوجہد میںگزری ۔ وہ جنوبی ایشیامیں روشن خیال فکرکے فروغ و ترویج کے لیے ایک علامت کے طور پر یاد کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے مختلف زمانوں میں قیدو بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ جلاوطنی کے دن بھی گزارے مگر وہ زندگی کی آخری سانس تک اپنے عوام کے وفادار ترجمان رہے۔ منیزہ ہاشمی نے کہا کہ فیض صاحب بہت بڑے شاعر، اچھے انسان اور میرے شفیق والد تھے۔ یوں تو ہم ہر سال اُن کی سالگرہ مناتے رہتے ہیں لیکن آج اکادمی کے زیر اہتمام 110ویں سالگرہ یادگار رہے گا۔ انہوں نے اپنے والد کے ساتھ بیتے ہوئے لمحات کا تذکرہ کیا۔خواجہ نجم الحسن نے فیض کے خوبصورت گیتوں کی ریکارڈنگ کے حوالے سے یادوںکو تازہ کیا۔ حارث خلیق نے کہاکہ فیض زندگی اور روشنی کے شاعر ہیں۔
ڈاکٹر صوفیہ یوسف نے کہا کہ فیض کی شاعری اور فن کا فیض آج بھی رواں دواں ہے۔ حسن عباس رضانے کہا کہ فیض کی نظمو ں اور غزلوں میں رومانیت کے ساتھ غنائیت کا عنصر بھی نمایاں ہے۔
ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے کہا کہ فیض احمد فیض کی تہذیب اور کلچر کے حوالے سے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔