ملک کی منظم ترین دینی اور سیاسی جماعت؛ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر کا انتخاب ہو چک جس کے نتائج کے مطابق حافظ نعیم الرحمان امیر منتخب ہو چکے ہیں۔ جماعت کی قیادت سنبھالنے کے بعد انھیں کیا چیلنج درپیش ہوں گے، اب یہ موضوع زیر بحث آنا چاہئے۔ لہذا اس سلسلے میں ہم اپنی گزارات پیش کرتے ہیں۔
سیاست و بصیرت کے لئے منظم اور مربوط سیاسی جماعتوں کا وجود انتہائی اہم بلکہ بنیادی عمل ہیں بدقسمتی سے برصغیر اور جنوبی ایشیا میں بہت زیادہ مربوط اور انسانی نفسیات کے مطابق بامقصد و نتیجہ خیز پالیسیاں تشکیل دینے والی جماعتوں کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ جماعت اسلامی،قیام پاکستان سے پہلے 1941 میں بنی اور آج اس کا شمار پاکستان کے سنئیر اور منظم جماعتوں میں پہلے نمبر پر ہے لیکن بدقسمتی سے بانی جماعت اسلامی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کے بعد زیادہ ویثنری اور بھرپور لیڈر شپ نہیں ملی، جماعت اسلامی کو قاضی حسین احمد مرحوم کے استنا کے علاوہ۔
قاضی حسین احمد مرحوم کا مسئلہ بھی یہ تھا کہ وہ انتہائی شاندار و احساس دردمندی سے بھرپور شخصیت و بصیرت افروز قائد تھے مگر وہ جماعت اسلامی کے سٹرکچر کی بنیاد پر عوامی تبدیلی برپا نہیں کرسکے۔ ویسے پاکستانی سوسائٹی میں اب تک صرف دو افراد عوامی لیڈر شپ کی بنیاد پر عوامی تبدیلی کی علامت بنے ہیں ذوالفقار علی بھٹو اور جناب عمران خان ۔ان دونوں شخصیات کے نظریات اور خیالات سے جماعت اسلامی کی نہیں بنتی۔ قاضی حسین احمد مرحوم کے ذہن میں یہی نقشہ کار تھا جس کی بنیاد پر عمران خان نے اپنا نیٹیو بنا کر عوام کے ایک طبقے کو متاثر کیا ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
کرکٹ کپتانی، رضوان کا راستہ کس نے روکا؟
جناب قاضی حسین احمد مرحوم کے بعد جماعت اسلامی کے دونوں امراء سید منور حسن مرحوم اور جناب سراج الحق صاحب محترم بیانیہ تشکیل دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ یوں پندرہ سال پلک جھپکنے میں گزر گئے۔ سید منور حسن مرحوم کا دورانیہ صرف ایک ٹرم یعنی پانچ سال رہا اور سراج الحق نے دس سال گزارے اب کراچی کے ہر دلعزیز شخصیت و بصیرت افروز عوامی جدوجھد و خیالات رکھنے والے انجینئر حافظ نعیم الرحمن صاحب کے لئے سب سے اہم چیلنج عوامی بیانیہ کی تشکیل و تعبیر نو ہو گا۔ اس بیانیے کا خدو خال کیا ہو اور اسے کامیابی کے منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ضروری کردار و اقدامات کیا درکار ہیں یہی آج کا سب سے اہم ترین چیلنج و سوال ہے۔