بلوچستان ملک کا سب سے بڑا اور اہم ترین جغرافیائی صوبہ ہے یعنی 44 فیصد رقبے کے اعتبار سے ایران و افغانستان کے ساتھ طویل سرحدیں رکھتے ہیں لیکن اسلام آباد کے حکمران اس صوبے کے مسائل اور سیاسی معاملات کو بہت کم سمجھتے ہیں اور سمجھنے کے لئے زحمت کم ہی کرتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ گورنر ہاؤس کوئٹہ میں جناب وزیراعظم نواز شریف صاحب بطور تیسری مرتبہ منصب سنبھالنے کے بعد تشریف لائے تھے اور گھنٹوں کے بجائے منٹوں کب مجلس پر ہی اکتفا کیا گیا اور جناب عمران خان صاحب نے بطور وزیراعظم ابھی تک صوبے کے عمائدین اور سیاسی و سماجی شخصیات کو نہیں سنا ہے اگرچہ نواز شریف صاحب پچھلی مرتبہ یعنی پرویز مشرف صاحب کی جبری ملک بدری کے بعد پاکستان تشریف لائے تو جنوری کے یخ بستہ موسم میں کوئٹہ سرینا ہوٹل میں پورے دن یعنی 8,10 گھنٹے جم کر عوام و خواص کو سنتے رہے اور جناب عمران خان صاحب نے بھی سالوں پہلے جناب نواب زادہ حاجی لشکری رئیسانی صاحب کی میزبانی میں ساراوان ہاؤس میں قبائلی عمائدین اور سیاسی و سماجی شخصیات کے جرگے میں شرکت کی تھی مگر اقتدار میں آنے کے بعد حکمرانوں کے روئیے اور انسانوں کے ساتھ تعلقات و دانش مندی میں عمومی طور پر کمی آجاتی ہیں۔
اس پس منظر میں جناب ممنون حسین صاحب اور جناب میر ظفر اللہ جمالی صاحب مرحومین کی یاد آتی رہی جب وہ تحمل و بردباری اور دانش مندی و احترام سے تمام لوگوں کی بات سنتے تھے.
قصہ مختصر گورنر ہاؤس کوئٹہ میں جناب گورنر بلوچستان سید ظہور احمد آغا صاحب کے دعوت پر وقت مقررہ پر پہنچے تو پروگرام 30,35 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا گورنر ظہور احمد آغا صاحب عام آدمی ہے اور گورنر بلوچستان بننے کے بعد بھی ان کا رویہ و طریقہ کار عام آدمی کی طرح ہی برقرار ہے تلاوت کلام پاک کی سعادت حاصل ہوئی جس میں سورت حم السجدہ کی ایک ہی آیت مبارکہ تلاوت فرمائی اور ترجمہ بھی کہ انسانوں میں سب سے بہتر وہ ہے جس کا رویہ و عمل نیک ہو یعنی اصولوں پر مبنی ہو اور وہ رب العالمین کی توحید و دانش مندی کی آرزو مندی کے لئے انسانوں کو بلائیں اور تعمیری ماحول کے قیام و فکری مکالمے کے سلسلے میں مفید اور تعمیری مباحث و فیصلوں پر عملدرآمد کرسکیں۔
صدر مملکت جناب ڈاکٹر عارف علوی صاحب کی گفتگو مختصر اور صاف ستھری تھی وہ فرمارہے تھے کہ اسلامی جمہوریہ و خلافت میں حکمران جمعہ مبارکہ اور اوقات نماز میں عوام الناس کے لئے دستیاب ہوتے ہیں اور دروازے بند نہیں کئے جاتے ہیں اور عوامی جذبات و احساسات کو سننے و سمجھنے کے لئے عوامی جرگے و اجتماعات بھی ہمارے ذرین روایات کا حصہ رہا ہیں آج ہم مشکلات و ممکنہ طور پر بندشوں میں گھر چکے ہیں اس لئے اس طرح کے مباحث و جرگے غنیمت ہوتے ہیں انھوں نے تمام شرکاء کی مصروفیات میں سے وقت نکال کر تشریف آوری کا شکریہ ادا کیا اور حالات و بعد از کرونا کی معیشت و معاشرت کے معاملات کی تفصیلات پیش کئے
صدر مملکت نے کہا کہ بلوچستان نہایت اہم اور معدنی وسائل سے مالامال صوبہ ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ طرز حکمرانی کی تبدیلی اور تعمیری ماحول کے قیام پر توجہ دی جائے افغانستان میں امن و سکون کے قیام کے مثبت و ثمر بار اثرات مرتب ہونگے انشاء اللہ تعالیٰ۔
اس موقع پر گذارشات پیش کرتے ہوئے مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے اور اکنامک تھیکنگ فورم کی نمائندگی کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں سرحدی برآمدات و درآمدات میں اضافے اور انسانوں کی عزت و آبرو مندی کے تحفظ پر خصوصی توجہ و شفقت کی ضرورت ہے دینا بھر میں سرحدی علاقوں میں ہمسایہ ممالک اور علاقوں میں مسائل و معاملات میں کشیدگی کے باوجود سرحدی علاقوں میں ضروریات زندگی اور کاروباری مراکز کی تشکیل و تعمیر نو کا انعقاد کیا جاتا ہے گوادر سے لے کر ژوب تک ایران و افغانستان کے ساتھ صوبے کے پشتون بلوچ قبائل کے 13 تا 15 اضلاع کی بنیادی انسانی ضروریات اور پوری معاشی و سماجی انحصار باڈر ٹریڈ پر ہیں،صوبے کے معدنی ذخائر اور وسائل میں عوام کی اکثریت کی شرکت و شمولیت اختیار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ معیار زندگی تبدیل ہو،کوالٹی ایجوکیشن اور ٹکنکل ایجوکیشن میں صوبے کے عوام مرد و خواتین اور بچے و بچیاں اب بھی اپنے ملک میں پیچھے رہ گئے ہیں اور وقت و حالات کی نزاکت کو نہ سمجھنے کے باعث معاشرتی اور معاشی طور پر ہم اقوام عالم سے بھی پیچھے رہ جائے گے۔
صدر مملکت سے ہم نے اپنے تجاویز و دانش مندی کی آرزو مندی کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں فکری اور ذہنی ابہام و مشکلات موجود ہیں بلوچ نوجوانوں کے غم و غصّے کے بعد اب پشتون علاقوں میں بھی نوجوانوں اور طلباء وطالبات میں غم وغصہ پایا جاتا ہیں جسے علمی و فکری مکالمے کے ذریعے ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں۔ روایتی قبائلی پگڑیوں اور دستار بندی کے ساتھ ہی یہ خوبصورت اور دلکش مجلس اختتام پذیر ہوئی۔