پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے اور جغرافیائی و معدنی ذخائر ووسائل کے سے مال مال صوبہ بلوچستان کا بجٹ آج جون کے مہینے کی شدید گرمی میں اپوزیشن جماعتوں اور حکمران جماعتوں کے درمیان پے تین پچھلے دنوں سے شدید ردعمل اور انتہائی کشیدگی میں پیش کیا گیا ہے، جون کے مہینے میں آم کی لبریز فصل اور بجٹ سازی کے خشک ترین مقدمے کی سماعت و بصارت دیکھا جاتا ہے گرمی کی شدت و سختی کے ساتھ آموں کی اقسام اور انکی خوبصورت و لبریز مٹھاس چکنا چور ہو جاتی ہیں جب پاکستان کے عوام الناس بجٹ سازی کے گورکھ دھندے کی سرپرستی اور انسانوں کی عزت و آبرو مندی کی آرزو مندی پورا نہ ہونے دینے کے لئے بجٹ جیسے وسیع و لاحاصل کوشش میں جان ہلکان کرتے ہیں۔
قومی بجٹ میں مہنگائی اور بدانتظامی و بد اصولی کے ساتھ 2021ء میں قومی اسمبلی و معززین کی دینا میں جو غلط و شرمناک حرکتیں اور تماشے کئے گئے وہ ناقابل برداشت اور ناقابلِ معافی ہیں اقوام عالم کے سامنے 22کروڑ انسانوں کی عزت و آبرو مندی اور تکریم و تعظیم کو تار تار کرنے والے ممبران اسمبلی و معززین اب کسی وقار اور اعتبار کے لائق نہیں رہے۔ آج انتہائی سنگین نوعیت میں وہی عمل بلوچستان میں حکومت و اپوزیشن دونوں نے دہرایا اپوزیشن جماعتوں نے اسمبلی چھوڑ کر روڈ پر احتجاج کے لئے بیٹھے رہے جو غیر پارلیمانی رویے کے باوجود ان کا جمہوری حق تھا مگر اس پر مستزاد کہ وہ اسمبلی کو یرغمال بناتے اور صوفی وزیر اعلیٰ بلوچستان پر جوتے پھینکتے، پولیس نے طیش میں آکر اپوزیشن ارکان پر بکتر بند گاڑیاں چڑھانے کی ناکام کوشش کی جس میں جے یو آئی کے رکن اسمبلی و سابق وزیر تعلیم جناب عبدالواحد صدیقی و دیگر ارکان کچلنے سے بال بال بچ گئے۔ جناب عبدالواحد صدیقی صاحب کی دستار مبارک خاک آلود ہو گئی جس طرح جام کمال خان عالیانی صاحب پر جوتا پھینکنے کا قبائلی حساب کتاب ہے اسی طرح عبدالواحد صدیقی پر چڑھ دوڑنے اور ان کی عزت و آبرو مندی کی علامت پگڑی خاک میں ملانے کا حساب بھی وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب جام کمال خان عالیانی صاحب اور بلوچستان پولیس کے آفیسران کو ضرور دینا ہوگا۔
سیاسی اسٹیس کو کو برقرار رکھنے میں عافیت و عزت اور احترام و دانش مندی سب غارت گری کی سامانیوں میں منتقل ہونے والا ہے اس لئے ہمیں اسٹیس کو توڑ کر نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور منصفانہ سماجی شعور و ادراک کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے مواقع ضائع ہو جاتے ہیں اور سائنسی و فکری اور نظریاتی و جغرافیائی اعتبار کھو کر کوئی قوم آگے نہیں بڑھ سکتی ہے۔
بات بجٹ سازی کے مراحل سنجیدگی سے ایڈریس کرنے اور نئے عمرانی معاہدے و دانش مندی کی آرزو مندی تشکیل و تعبیر نو کی طرف گامزن ہیں بلوچستان بجٹ 18 جون کے سہ پہر صوبائی اسمبلی کے خوبصورت اور دلکش ھال میں پیش کیاے جانے کے بجائے گملوں کی توڑ پھوڑ اور پولیس و اپوزیشن ممبران اسمبلی کی جنگ و جدل کے دوران جناب ظہور احمد بلیدی صاحب صوبائی وزیر خزانہ حکومت بلوچستان تبدیلی سرکار اور باپ پارٹی کے مرکزی صدر و وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب جام کمال خان عالیانی صاحب کے وژن و منصوبے کے مطابق تیسرا بجٹ پیش کیا گیا۔
اپوزیشن جماعتوں و کارکنان نے پچھلے تین دنوں میں گرمی و مہنگائی کے باوجود عوام کے تحفظ کے نام پر عوام کا جینا دوبھر کردیا گیا ہے اپوزیشن کے حلقوں میں شئیر نہ دینے اور غیر منتخب باپی لیڈروں کے ذریعے فنڈز کی تقسیم و استعمال خود اپوزیشن جماعتوں میں شامل جمعیت علمائے اسلام کے وزرائے کرام پیچلھے تیس سالوں سے کرتے رہے یہاں تک کہ ایک موقع پر جمعیت علمائے اسلام کے مرکزی سیکرٹری جنرل جناب مولانا عبدالغفور حیدری صاحب نے ببانگ دہل عوامی جلسے میں قلعہ سیف اللہ اور جے یو آئی کے موجودہ صوبائی امیر مولانا عبدالواسع کاکڑ صاحب پر فنڈز صرف اپنے حلقوں اور غیر منتخب نمائندوں کے ذریعہ خرچ کرنے کی داستان سنائی تھی۔ قوم پرستوں اور سرداروں کا حال بلوچستان میں ملاؤں سے بھی زیادہ گیا گزرا ہے ، اس لئے عوام الناس کو تکلیف دینے کے بجائے اپوزیشن جماعتیں اپنا قبلہ و رویہ درست فرمائیں تو ہمارے نسلوں کے بقاء اور استحکام و ترقی کے لئے نیک قدم تصور ہوگا اگرچہ آج پیش آنے والے واقعات اور پولیس گردی پر وزیر اعلیٰ بلوچستان اور صوبائی وزیر داخلہ و اعلیٰ پولیس افسران کو فوری طور پر معافی مانگ کر ماحول کو مثبت و قابل قبول بنانے کی کوشش کرنا چاہیے ورنہ حالات بے قابو بھی ہوسکتےہیں۔
مجلس فکر و دانش اور اکنامک تھیکنگ فورم کے پلیٹ فارم سے بجٹ سازی اور معاشی ترقی و خوشحالی کے لئے مسلسل سیمنار و ڈائلاگ کا انعقاد کیا گیا ہے اور تجزیے و سفارشات پیش کیں ہیں جسے کوئٹہ کے اخبارات و رسائل اور سوشل میڈیا سمیت آوازہ ویب سائٹ اسلام آباد نے خصوصی توجہ دی ہے اور جلد ہی ہم بجٹ کا پوسٹ مارٹم پیش کرنے والے ہیں ، فی الحال بجٹ پیش ہونے کے موقع پر شدید نقصان اور غلطیوں کی اصلاح و بہتری کی طرف قدم اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ پھر اصلاح و ترامیم کے ساتھ ساتھ دم دمست قلندر کے ہونے کا بھی امکان و انتظام کیا جاسکتا ہے ،،
بلوچستان اور کوئٹہ اپوزیشن جماعتوں اور حکمران جماعتوں کے درمیان مکالمے و ڈائلاگ کے بجائے جھگڑے اور خون ریزی کا شکار ہو جانے کے ساتھ ایک دوسرے بڑے المیے سے دوچار ہیں پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدر و سابق سینیٹر ممتاز سماجی شخصیت و کردار رکھنے والے سیاستدان جناب عثمان خان کاکڑ صاحب گزشتہ کل سے اپنے گھر میں المناک حادثے کے شکار ہوئے ہیں جس کے باعث ان کی حالت تشویشناک ہے اور وہ موت و حیات کے کشمکش میں مبتلا ہیں اپنے سخت گیر موقف رکھنے کے باوجود جناب عثمان خان کاکڑ صاحب ذاتی زندگی اور معاملات میں نرم خو اور میل ملاپ میں انتہائی باوقار اور خوبصورت شخصیت کے مالک ہیں ہم کوئٹہ کے پرائیویٹ سٹی انٹرنیشنل ہاسپٹل میں عیادت کے لئے حاضر ہوئے جہاں ڈاکٹروں کی مستعد ٹیم کے ساتھ پارٹی راہنمائوں اور کارکنوں کی جم غفیر غمزدہ حالت میں دست بدعا اور مالک ارض و سماء کے رو برو التجا میں مصروف تھے ضرورت اس امر کی ہے کہ کوئٹہ کے شہریوں اور مرد و خواتین اور بچوں و بچیوں کو سکون اور اطمینان کا پیغام دیا جائے نہ کہ تشدد اور ٹارچر و خوف و ہراس کا جس معاشرے تباہ ہی ہوتے ہیں