رب العالمین کے بابرکت و عظیم نام سے جس نے قلم وقلب اور زبان و بیان کے لئےبے شمار اسباب و ذرائع پیدا فرمائے ہیں،جس نے اقراء بسم ربک الذی خلق
اور
ن والقلم و مایسطرون،،،
کے معنی خیز و فکری لہریں پیدا کرنے اور اسے ثمربار و تازگی دینے کے لئے انسانی محنت شاقہ و فکری مکالمے کی کاوشیں قابل قدر ٹھرایا ہیں،،
جناب صاحب صدر مہمان خصوصی و مہمانان گرامی خواتین و حضرات
THE MISSING IMPRESSION OF JHALAWAN
دھیمے مزاج،درمیانہ قد کے ہنستے مسکراتے براھوئی و بلوچی زبان کے ادیب،دانشور و محقق دوست جناب سلطان احمد شاھوانی صاحب نے کرونا زدہ موسم بقول محمود شام صاحب کے موسم مرگ لیکن رمضان المبارک کے نیک و مبارک لمحات میں جھالاوان کے چھپے اور گمشدہ گوشے و راز اور نقوش و تاثرات قلمبند کرنے والی کتاب تھمائی اور وہ بھی انگریزی زبان میں،جس پر صاحب کتاب و حکمت نے بقلم خود لکھا,,, برائے شرف مطالعہ و تسکین ذوق،،،
تسکین ذوق،، تو کتاب کے عنوان،مقصدیت،ٹائٹل،خوبصورتو نادر تصاویر و آثار اور جناب سلطان احمد شاھوانی اور براھوئی اکیڈمی کے ناموں و تذکرے سے ہوا،،
ہاں بیک ٹائٹل پر لاہور کے سابق ڈپٹی کمشنر اور بلوچستان کے ایڈنیشیل چیف سیکرٹری ترقیات،ماہر علم و ادب اور تاریخ و تہذیب جناب پیر زادہ سجاد احمد بھٹہ کے قیمتی نوٹ و تصویر کو دیکھ کر ہی ہوئی،،براھوئی اکیڈمی کی انگریزی زبان میں خوبصورت کتاب چھاپنے/ پرنٹ کرنے پر مبارکباد پیش کرتے ہیں کیونکہ سال 2020 میں ہمارے پشتون ادیبوں و دانشوروں کے ادارے نے مشرق کے بلند تر ستارے اقبال رحمۃ اللہ علیہ پر کتاب چھاپنے سے اپنے مادری زبان میں نہ ہونے کے باعث معذرت کی گئی مجھے نہیں معلوم کہ براھوئی اکیڈمی کے لف شدہ فہرست میں 162 میں سے پہلی کتاب انگریزی ہے آخری نہیں ہونی چاہئے۔
ظاہر ہے کہ زبان کی اہمیت اور افادیت و صلاحیت کم نہیں ہوتی مگر خیالات کی دینا اور لمحہ موجود یعنی آج کی دوپہر 21 ویں صدی کی ضروریات،احساسات و مسائل کو تاریخ کے نازک لمحات و حقائق کو جو جس زبان میں مخاطب/ ایڈریس کریں گے اسے آپ اور میں نہیں تو نسلیں و زمانے پڑھنے کے لئے محتاج ہونگے_ یہی تاریخ کا سبق ہے اور یہی قوموں،نسلوں ،زبانوں ،تاریخ و تہذیب اور مذہب و نظریات کو محفوظ و مامون منتقل کرنے کا واحد اور دیرپا ذریعہ ہے،ورنہ 21 ویں صدی کے 21 ویں سال میں ٹیکنالوجی،کرونا،معشیت اور تاریخ و تہذیب کے آثار و مطالعاتی افادیت کے ساتھ مذہب و تمدن اور قومی و ریاستی تصورات و نظریات کے ہیئت و نزاکتوں پر بھی سوالات پیش کئے جاتے ہیں کوئٹہ و جھالاوان میں مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے میں انھی جیسے سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی بھرپور و نادر کوشش کا آغاز کیا گیا ہے قابل فخر بات یہ ہے کہ جناب سلطان احمد شاھوانی اس علمی و فکری مکالمے کا حصہ اور روح رواں ہے مسٹر سلطان کو ہمارے سفید ریش نوجوان دوست جناب شیر احمد قمبرانی صاحب نےMY SULTAN کہا اور لکھا ہے اور جناب میر صلاح الدین مینگل صاحب نے خراج تحسین پیش کیا ہے اور ہاں حاضرین کرام خواتین و حضرات! شرف مطالعہ آپ کے حوالے ہیں بعد از مطالعہ تاریخ کے ادراکات اور نزاکتوں کے تیز رفتار طوفانوں کے نرم و ملائم روشنی میں,,حال،، کا ادراک کرنے کی ضرورت ہے وہی حال جس پر بادل ناخواستہ دبیز پردے اور گہرے سائے پڑے ہیں جو سامراج و فکری افلاس کی ناہمواری کے ساتھ تاریکی و کندگی کے ساتھ اپنوں کی بے حسی،بے علمی اور بے وفائی کی المناک داستانوں سے پر ہیں اور ہاں اسی روشنی و توانائی میں مستقبل بینی،مستقبل گیری اور مستقبل کی حکمت عملی ہی کشید کرنی ہے ورنہ بقاء و جواز نہیں رہے گا_ جھالاوان و خاران، مہر گڑھ اور ساحل سمندر و مکران،لورالائی میختر و چمالنگ کوہلو، تھل چویٹالی و ژوب کے کوہ سلیمان،ایران و توران،سیستان و افغانستان،عظیم ہندوستان اور عرب و عجم کا خوبصورت محل وقوع اور تاریخ و تہذیب کے اثرات و مضمرات نہیں رہ سکتے ہیں جناب سلطان احمد شاھوانی نے مستقبل بینی،مستقبل گیری اور مستقبل کی حکمت عملی کے لئے بنیادی تصورات تاریخ و تہذیب اور حال و مستقبل کی روشنی میں لکھی ہے اور اپنے 30 سالہ محنت و عشق کو مجتمع کیا ہے جو موضوع سے متعلقہ 35/ 37 عنوانات و ابواب اورTOPICS کے ساتھ 232 صفحات سے زیادہ ان کے سینے و دل میں محفوظ اور صاحب کتاب کے مثالی روئیے و عشق اور دانش و حکمت عملی سے عیاں ہے ضرورت اس قیمتی عشق و دانش اور تاریخ و تہذیب کا اردو،براھوئی و بلوچی اور پشتو و پنجابی زبانوں کے ساتھ فارسی،ہندی اور چینی میں ترجمہ و تفہیم ہونا چاہیے اور نئے راستوں کی تلاش و جستجو اور تخلیق و تدبیر کی آرزو مندی مسلسل رہنا چاہیے آگر ہمارے معاشرے میں نئی جہتیں و خودی کی پرورش و پرداخت اور بنیادی انسانی ضروریات و مقتضیات پر توجہ مرکوز رکھیں گے تو ممکن العمل ہوسکیں گا کہ ماضی کی سادگی اور خوبصورتی و شادابی کو ہم ٹیکنالوجی و سائنسی بیانیے کے ساتھ ساتھ تہذیبی اور ثقافتی و سماجی شعور کے بناءپر نئے پیراڈایم میں ترقیاتی اپروچ اور منصفانہ سماجی شعور و ادراک و احساس کے ساتھ معاشرے و سماجیات کے ساتھ مستقبل بینی و مستقبل گیری اور مستقبل کی حکمت عملی سے جوڑنے میں کامیاب و کامران رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ
( یہ مختصر گفتگو و مقالہ کوئٹہ پریس کلب میں کتاب ھذا کی تقریب رونمائی و پزیرائی میں پڑھا گیا)