شاہراہیں اور مواصلات کے متعلق یہ کہنا درست ہوگا کہ اب یہی بنیادی اسباب و عوامل ترقی و خوشحالی کے لئے نئے تصورات سامنے لانے کے علاوہ عملی زندگی میں اطمینان پیدا کرتے ہیں مگر مجال ہے کہ 21 ویں صدی میں بھی ریاست اور مملکت کی مقتدرہ اور اشرافیہ عوام کی اکثریت کی اس بنیادی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے سنجیدہ اور آبرو مندانہ اقدام و منصوبے تشکیل دیں۔ بلوچستان ملک کے 44 فیصد وسیع رقبے اور جغرافیائی اہمیّت کے حامل خطے میں واقع ہے۔ ایران و ترکی کے اسٹرکچر اور مواصلات و تعمیرات کے ساتھ شاہراہوں اور تجارت میں آسانیاں پیدا کرنے میں کامیابی حاصل کر چکے ہیں۔
افغانستان میں امن و سکون کی تلاش و جستجو کے مراحل سنجیدگی سے طے کرنے کے ساتھ منتشر و متنازع قیادتوں نے بھی شاہراہوں اور ملک کے بنیادی اسٹرکچر میں بہتری اور تبدیلی لانے کی کوششیں جاری رکھیں ہوئے ہے جبکہ چین و ہندوستان بھی خوشحالی اور ترقی کے جانب توجہ مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان میں طویل عرصے کی سماجی افراتفری اور بنیادی نوعیت کے اسٹرکچر پر توجہ نہ دینے کے باعث مسائل گمبھیر ہوچکے ہیں۔
پرویز مشرف صاحب نے آمرانہ اقدامات کے ذریعے کوسٹل ہائی وے عوام کی اکثریت کی پروا کیے بغیر کراچی سے گوادر تعمیر کروایا اور جناب نواز شریف کی ساری اچھائیوں کے باوجود ملتان سے لورالائی اور کوئٹہ مین نیشنل ھائے وے موٹر وے نہیں بن پاتا ہے اور نہ ہی ڈیرہ اسماعیل خان سے ژوب و کوئٹہ سی پیک مغربی روٹ کی صورت میں تبدیلی و ترقی کے سفر کا آغاز ہوا۔
کراچی سے کوئٹہ و چمن یعنی افغان باڈر تک طویل شاہراہ ایک زمانے میں عرصہ پہلے آر سی ڈی کونسل کے ذریعے یعنی ایران و ترکی کے مدد سے تعمیر ہوا تھا مگر کئی عشرے گزرنے اور امریکہ افغان جنگ میں سالوں نیٹو اور ایساف فورسز کے لئے اسلحے و خوراک اور بارود و سامان ظلم و غنڈہ گردی سپلائی ہونے کے باعث یہ طویل اور خوبصورت شاہراہ جا بجا انتہائی خستہ حال اور انسانوں کے مستقبل پر خونی وابستگی سے مشہور ہوچکا ہے۔ کوئی ہفتہ ایسا سلامت نہیں گزرا ہے کہ چمن قلات اور سوراب لسبیلہ شاہراہ پر مظلوموں کی خون کے سرخ ذرات نہ بہے ہوں۔ اس لئے بالآخر سیاسی جماعتوں و کارکنان اور میڈیا و سول سوسائٹی کے پراسرار خاموشی و ایک لحاظ سے بے بسی کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب جناب جام کمال خان عالیانی صاحب نے کمال مہارت سے بھرپور خط جناب وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب کو ارسال کیا ہے۔
دیکتھے ہیں وزیراعظم پاکستان عمران خان صاحب اس پر کب اور کیسے عملدرآمد کا میکنزم بنانے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں اور خود جناب جام کمال خان صاحب کی مہارت و توجہ کب تک اور کیسے عملدرآمد کے مراحل سنجیدگی سے ایڈریس کرنے پر آمادہ رہتے ہیں تاکہ کرونا وائرس کی ہولناکیوں اور معاشی طور پر مشکل ترین چیلنج سے نمٹنے کے لئے باڈر ٹریڈ اور ایران و افغانستان تک رسائی حاصل کرنے کے لئے بڑے شاہراؤں اور انسانوں کی عزت و آبرو مندی کے لئے بنیادی انسانی احترام و حقوق پر سمجھوتے نہیں کرنے چاہئیں۔ اقتصادی ترقی و خوشحالی کے لیے مثبت بحث و مباحثہ اور بھرپور ورکنگ و سنجیدگی کی ضرورت ہے تاکہ بروقت اور برمحل استدلال و دانش سے استفادہ کرتے ہوئے عوام کی تقدیر و قسمت بدلنے کے لئے تیز رفتار ترقی و خوشحالی کے لیے پیش قدمی ممکن ہو سکے