مالک ارض و سماء نے کائنات کی وسعتوں میں بیش بہا خوبصورت اور بامقصد چیزوں کی تخلیقات فرمائیں ہیں مگر رب العالمین کے تخلیقات میں سب سے زیادہ حسن ،خوبصورتی اور مقصدیت حضرت انسان کے حصے میں آئی قرآن کریم نے گواہی دی ہے کہ””ھم نے انسان کو بھترین ساخت,٫احسن التقویم بھترین کوالٹی کے طرز پر بنایا ہے۔ اس خوبصورتی اور دلکشی کے ساتھ ساتھ حضرت انسان کو رب العالمین نے اپنے نائب/ معاون کے طور پر خلیفہ مقرر/ تخلیق فرمایا،
واذ قال ربک لمآئکتہ انی جاعل فی الارض خلیفتہ۔ وحی الہٰی اور احادیث مبارکہ میں انسانی ساخت،کوالٹی، بھتری و نشوونما کے راستے و نشانیاں اور اسے منزلوں کے حسین جستجو یعنی تسخیر کائنات کا خوگر بتلایا ہے درحقیقت جس انسان کے پاس مقصد حیات واضح ہو وہ فکر و عمل کا نمونہ بنے اور زمین کے اوپر اپنے مالک و خالق کے بندگی و غلامی پر آمادہ و راضی ہو وہ کائنات کے تمام امور کا امام و قائد بنتا ہے اور انسانیت کے بلندیوں پر پرواز کر کے اپنا کردار ادا کرتا ہے اور بعد از مرگ و وفات بھی اس کی بلند پروازی اور خوبیوں و خوبصورتی یاد رکھی جاتی ہے،
قاضی حسین احمد مقصد حیات سے واقف،بندگی رب العزت کے خوگر اور قیادت و خلافت کے تقاضوں سے آشنا مرد دانا اور ویژنری لیڈر و قائد تھے، پاکستانی سیاست اور عملی زندگی و سماجیات میں وہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد مظلوموں اور نوجوانوں کے لئے سہارا اور آئیڈیل شخصیت بن چکے تھے۔
وہ نوشھرہ کے گاؤں کاکا صاحب میں 1938ء میں مولانا قاضی عبد الرب کے ہاں پیدا ہوئے ان کے والد محترم دارلعلوم دیوبند کے ممتاز عالم اور جمعیت علماء ھند صوبہ سرحد کے امیر تھے انھوں نے ابتدائی تعلیم اپنے علمی و ادبی خاندان اور گاؤں کے پاکیزہ افکار کے ساتھ حاصل کی خاص کر اپنے والد محترم سے ابتدائی تعلیم و تربیت،ذہنی پرورش اور خدمت و محنت ورثے میں پایا،والد محترم نے دیوبند کے افکار و خیالات کی خدمت کے لئے مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے نام مبارک پر ان کا نام تجویز کیا،لیکن گاؤں سے نکل کر ننھا منھا حسین احمد پشاور میں اپنے بڑے بھائیوں کے ساتھ نوجوانوں اور طلباء کے لئے انتہائی مفید اور پاکیزہ خیالات کی حامل گروہ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے،اس طرح وہ اسلامی جمعیت طلبہ کے ذریعے بیسویں صدی کے ممتاز عالم دین اور برصغیر پاک وہند میں نظریاتی سیاست کی بنیاد رکھ کر اسے شریعت و سنت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز پر پروان چڑھانے والے حضرات مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کے افکار کی اسیر بن گئے،اگرچہ جغرافیہ میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے اور گورنمنٹ کالج سیدو شریف سوات میں لیکچر شپ اختیار کرنے اور کاروباری سرگرمیوں کے ساتھ چیمبر آف کامرس کے نائب صدر بننے کے باوجود طبیعت کے اضطراب اور مقصدیت کے جنون نے کارازار سیاست اور تاریخ و دانش کی زندگی میں فعال کردار ادا کرنے کی طرف کھینچ لائے،مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب کا کمال ہے کہ انھوں نے قلم و تحریر کے ذریعے وہ کردار ادا کیا جسے انیسویں اور بیسویں صدی کے نظریاتی و فکری اور علمی و سائنسی انکشافات میں اسلامی دنیا میں ممتاز و منفرد پزیرائی ملی جسے حسد و تعصب اور گستاخی و غلط فہمیوں کی بنیاد پر متنازع بنا کر غیر معمولی روکاوٹیں پیدا کی گئی_
قدرت کی کرم نوازی دیکھیں کہ دارلعلوم دیوبند کی ترجمانی کرنے والے سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب پر سب سے زیادہ قابل اعتراض الزامات کی بوچھاڑ دیوبندی مسلک کے نادان دوستوں نے کی تھی اور ان کے پاکیزہ افکار و نظریات کو غبار آلود کرنے کی کوشش کی گئی مگر خاندان دیوبند کے ہی ایک جری اور بہادر سپوت جناب قاضی حسین احمد صاحب نے کمال حکمت و دانائی سے اس مسئلے کو نرم و گرم حالات میں بھترین اسلوب سے آگے بڑھاتے ہوئے مخالفت و فتویٰ بازی کو گرم جوش دوستی و محبت اور دلائل سننے و قبول کرنے کے مرحلے و اعتماد سازی تک لے آئے جس کے 21 ویں صدی میں تاریخی و حقیقی تجزیے کے لئے اھل علم و قلم کو ضرور متوجہ ہونا چاہئے،جس میں برصغیر پاک وہند اور افغانستان و وسطی ایشیائی ریاستوں کی بھلائی و خیرخواہی پوشیدہ ہیں،
قاضی حسین احمد زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے دور میں قیادت کے بغیر بطور ورکر و کارکن گزر کر عملی زندگی میں داخل ہوئے،ادویات کے خاندانی کاروبار اور ملازمت کے ذریعے جغرافیہ و تاریخ کے پروفیسر بننے کے باوجود آرام و اطمینان نصیب نہیں ہوا بلکہ بے قرار دل اور حساس طبیعت کی وجہ سے جغرافیہ و حالات کے مشاہدے و مطالعے اور خطے کے سنگین مسائل اور نظریاتی و فکری یلغاروں نے نوجوان حسین احمد کو جماعت اسلامی میں شمولیت و کردار ادا کرنے پر آمادہ کیا اور یوں ان کے قیادت کے جوہر سامنے آئے،وہ ایک عام کارکن کے طور پر جماعت اسلامی میں آئے طلبہ سیاست کا ستارہ بھی کندھے پر نہیں لگا تھا طلبہ سیاست کے فوائد و ثمرات کے ساتھ نقصانات اور خرابیاں بھی ہیں جن میں اپنے اپنے نظریات والے جماعتوں و تحریکوں پر حریصانہ و حریفانہ کشاکش و قبضے دینا بھر کی طرح پاکستان میں بھی واقع ہوئے ہیں لیکن مرحوم قاضی حسین احمد صاحب اس سب کچھ کے بغیر جماعت اسلامی پشاور کے امیر،صوبائی امیر اور سیکرٹری جنرل بننے کے بعد 1987 ء میں پاکستان کے سب سے بڑے اور منظم فکری اور نظریاتی گروہ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر منتخب ہوئے وہ حلف برداری کے بعد 18تا 21 دسمبر 1987ء جماعت اسلامی کے پالیسی ساز و با اختیار دستوری ادارے مرکزی مجلس شوریٰ سے اپنے پہلے افتتاحی خطاب میں اپنے اس پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
“” برداران عزیز!!
میں آج ایک ایسے مقام پر کھڑا ہوں جس کا میں نے کبھی تصور کیا تھا نہ خواہش مگر میں اپنی تمام تر کمزوریوں کے باوجود اسے اپنے ربّ العزت کی مشیت سمجھتا ہوں_
مجھ سے قبل اس منصب پر ہمارے دور کی دو عظیم ہستیاں فائز رہیں_
پہلے مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی رحمتہ اللہ علیہ اور پھر مخدومی و محترمی میاں طفیل محمد صاحب مدظلہ العالی_
مجھے احساس ہے کہ میں اپنے مقام و مرتبے سے بلند جگہ پر کھڑا ہوں اس دور میں فتنے بھی بے پناہ ہیں اور مشکلات بھی بے شمار ہیںمیں اپنے اندر ان فتنوں سے نبٹنے کی صلاحیت نہیں پاتا مگر اللہ تعالیٰ کی مشیت خود بخود راستہ نکالے گی اور اللہ تعالیٰ ہی میری راہنمائی کرے گا۔
رب العالمین کی بے پناہ رحمتیں نازل ہوں قاضی حسین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر کہ وہ اپنے مالک ارض و سماء کے ساتھ للہیت اور خشیت الٰہی کے خزانے کے بعد بدولت فتنوں سے محفوظ رہے اگرچہ مشکلات اور مسائل کا سامنا کرتے ہوئے وہ 06 جنوری 2013 ءکو اپنے زخمی دل اور بے آسرا و بے قرار روح کے ساتھ زندگی کی تنگ دامانی سے ابدیت و آفاقیت کی طرف کوچ کر گئے۔
وہ اپنے متعلق خود اسی افتتاحی خطاب میں فرماتے ہیں کہمیں تو جماعت اسلامی میں دریاں بچھانے اور پوسٹر لگانے والا ایک کارکن تھا مگر خالق کائنات کی مشیت نے مجھ ناتواں کے کندھوں پر یہ بوجھ ڈال دیا ہے_ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ میری مدد فرمائے گا اور اس کی مدد ہی سے انسان کوئی کام کرسکتا ہے_ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بعد میرا دوسرا بڑا سہارا میرے ساتھی اور بزرگ ہیں،ہر بزرگ نے جس شفقت کے ساتھ میرے ساتھ تعاون کیا ہے اور ہر نوجوان نے جس محبت کا مظاہرہ کیا ہے اسے میں اپنا سب سے بڑا قیمتی سرمایہ تصور کرتا ہوں،میرے لئے لاکھوں لوگ خلوصِ دل اور محبت سے دعائیں کرتے ہیں تو میرے آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں مجھے یقین ہے کہ یہ قافلہ اپنی منزل سے ہم کنار ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ ۔
زمانہ گواہ ہے کہ قاضی حسین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے ان تھک جدوجھد کی اور درد دل سے دین حق کو سربلند و ممتاز کرنے اور معاشرے کے تکلیف دہ حالات کو بدلنے کے لئے کوشاں رہے وہ تبدیلی کے لئے آخری حد تک جانے والے جرآت مند قائد تھے پاکستانی سیاست کے تغیر و تبدل میں چالیس سال قاضی حسین احمد صاحب کا بہت بنیادی کردار و فعال کوششیں رہے ہیں جس کے باعث معاشرے میں جماعت اسلامی اور بحثیت مجموعی دینی و نظریاتی سیاست بھی اپنے روایت کے ساتھ ساتھ نئے انداز سے متعارف ہوئی،،
جماعت اسلامی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ اپنے بانی امیر مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرح اپنے پانچواں امراء و لیڈرز کارکن سے چل کر لیڈر و قائد بنے میاں طفیل محمد رح،قاضی حسین احمد رح،سید منور حسن رح اور اب جناب سراج الحق صاحب_
پانچووں عام افراد ہیں اور وراثتی سیاست و گندگی سے پاک ہیں،،
2009ء سے 2020 ء کے دس گیارہ سالوں میں جماعت اسلامی کے تین مرکزی امیر جناب میاں طفیل محمد صاحب،جناب قاضی حسین احمد صاحب اور جناب سید منور حسن صاحب،تینوں بڑے فعال اور متحرک قائدین رہے ہیں جماعت اسلامی بھلے شخصیت پرستی اور وراثت کے سیاست سے دور رہنے میں عافیت سمجھیں مگر ان خوبصورت اور قیمتی ترین قائدین کے زندگیوں کو ممکنہ طور پر محفوظ کرنے اور نئے نسلوں کی راہنمائی و دانش مندی میں اضافے کے لئے بنیادی توجہ دہی کی ضرورت ہے
میاں طفیل محمد،
قاضی حسین احمد اور جناب سید منور حسن کی نجی زندگی بہت خوبصورت اور قابل رشک رہی ہے جس کے مختلف گوشوں کی نوجوان نسل اور سیاسی و سماجی شخصیات کے لئے ضرور آشکارا کرنے کی ضرورت ہیں مگر سردست اس موقع پر قاضی حسین احمد صاحب کے سیاسی پالیسیوں اور اقدامات کے جائزے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں، انھوں نے جماعت اسلامی کی پوری تنظیم اور نصف صدی سے زائد عرصے کے بھرپور جدوجھد و اثاثے کو عام آدمی کی زندگی میں تبدیلی و انقلاب کے لئے استعمال کیا،قاضی صاحب کے 22 سالہ دور قیادت میں مسلسل پیہم جدوجھد کی گئی اور جماعت اسلامی خواص و پڑھے لکھے افراد و شخصیات کے ساتھ عوام الناس کی پارٹی بنی جسے آج 21 ویں صدی کے ضروریات کے مطابق 22 کروڑ انسانوں کے لئے مزید وسعت اور عام آدمی کے لئے شرکت و شمولیت کے احساس وماحول تشکیل دینے کی ضرورت ہے قاضی حسین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے جماعت اسلامی کو عام آدمی کے لئے محبوب و مقبول پارٹی بنانے کے لئے مسلسل کوشاں رہے یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ مخلص باصلاحیت اور قوم کے لئے جانثار قیادت اور مضبوط تنظیم رکھنے کے باوجود عام آدمی جماعت اسلامی کے قریب ہونے اور اس کو اپنی پارٹی سمجھنے سے کوسوں دور ہیں جماعت اسلامی کا موجودہ قائد جناب سراج الحق صاحب جو انتہائی سادہ طرز زندگی گزارتے ہیں اور عام آدمی کے مشکلات و احساسات بخوبی سمجھتے ہیں کو آگے بڑھ کر اس خلاء کو پر کرنے کے لئے عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے،
قاضی حسین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا خواب تھا کہ جماعت اسلامی کے گرد پوری قوم خاص کر خواص اور عوام الناس کو اکھٹا کرکے وطن عزیز کے حالات سدھارنے کی سبیل پیدا کی جائے ان کا یہ ارمان و خواب جماعت اسلامی کی پوری تنظیم اور ہر سطح کی قیادت و کارکنان پر قرض ہیں اس قرض کو چکانے میں عوام کی بھلائی اور معاشرتی تبدیلی و ترقی کا راز پوشیدہ ہیں اس راز کو آشکارا کرنے اور قاضی صاحب مرحوم کے قرض کو چکانے کے لئے عوامی سیاست کے زبان و طرزِ عمل سیکھنے اور اختیار کرنے کی ضرورت ہے،،
قاضی حسین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ کا ورلڈ ویو (امت کا عالمی تصور) بہت بھترین تھا انہوں نے اپنے دور قیادت میں دینا بھر میں بھرپور رابطے رکھے وہ پاکستان کو ایک مثالی اسلامی مملکت اور سماجی و فلاحی تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتے تھے پاکستانی سیاست اور آئین میں بنیادی انسانی حقوق اور سماجی و معاشرتی تبدیلی کو وہ بہت اہمیت دیتے تھے اس لئے قاضی صاحب نے بطور سیکریٹری جنرل اور پھر امیر جماعت اسلامی پاکستان کے تیس چالیس سال مسلسل و بھرپور آئینی جدوجھد کی کریپشن کے خلاف موثر آواز اٹھایا اور ملکی سیاست میں پہلی بار دھرنے کا لفظ متعارف کرایا 1996ء میں پہلا دھرنا یادگار،باوقار اور تاریخ ساز تھا بعد کے دھرنے عوام کے سامنے ہیں،،جس کے اختتام حکومتوں کے خاتمے کے بجائے اندرونی طور پر خفیہ معاہدوں اور حصہ داری طئے کرنے کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں،،
قاضی حسین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ عالم انسانیت اور امت مسلمہ کے لئے دردمند دل ❤️💓 رکھتے تھے وہ عالم اسلام کے اتحاد کے لئے عالمی سطح پر کوشاں رہے،
پاکستان میں جمہوری و مثبت سیاستدانوں اور پارٹیوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب رہے آئی جی آئی اور ایم ایم اے اور اے پی ڈی ایم پاکستان کے قریبی ادوار میں بڑے اور فعال اتحاد رہے ہیں متحدہ مجلس عمل کی تشکیل اور اسے ثمربار بنانے میں میں محترم قاضی حسین احمد کا بنیادی کردار رہا اور پوری قوم نے فرقہ پرستی کے جھگڑوں اور فتووں کے بجائے اتحاد امت کے مثبت و خوشگوار تجربے کو بھرپور انداز میں سراہا اور قاضی حسین احمد کی خدمات کو سراہا ملی یکجہتی کونسل کے احیاء میں قاضی حسین احمد نے بھرپور محنت کی
قاضی حسین احمد اپنے عالمی تصور امت و انسانیت کے تحت عالمی لیڈر تھے اس لیے وہ افغانستان کے امور ہو یا دوردراز بویثنیاء، فلسطین ہو یا کشمیر تمام مظلوم و حریت پسند قائدین و تحریکوں سے بھرپور رابطہ رکھتے اور ہر مشکل گھڑی میں پہنچ جاتے وہ مظلوموں اور نوجوانوں کے آئیڈیل شخصیت تھے نوجوانوں کی ان سے محبت قابل دید ہوتی تھی قاضی حسین احمد جغرافیہ کے پروفیسر تھے اور عملی طور پر اسلامی تاریخ کے ترجمان ڈاکٹر علامہ محمد اقبال لاہوری کی طرح خود بھی شاندار مسلم تاریخ کے مرکز سپین و اندلس کے ایک روداد سفر کو یوں بیان کرتے ہیں ،
“” انیس سو اسی1980ء میں غرناطہ کے دفتر سیاحت میں مسلمانوں کے مرکز کا پتہ دریافت کرنے گیا ایک بوسیدہ سے رجسٹر کی الٹ پلٹ کے بعد کاؤنٹر پر کھڑے شخص نے مجھے ایک پتا لکھوایا یہ پتہ میں نے ایک ٹیکسی والے کو دکھایا اور وہ مجھے بہت سی در پیچ گلیوں سے گزار کر ایک گلی میں واقع پرانے مکان پر لے گیا یا مکان کے اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ایک بڑے تھال کے گرد دنیا کے مختلف ممالک کے تقریبا پندرہ افراد روایتی اسلامی لباس جبے اور قبے پہنے کھانے کے لئے بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے کسی تعارف کے بغیر ہاتھ کے اشارے سے مجھے کھانے میں شریک ہونے کی دعوت دی اس میں برطانیہ کے انگریز ،مراکش کے عرب اور خود غرناطہ کے نومسلم شامل تھے مجھے اس وقت سخت حیرت ہوئی جب تعارف کے بعد ایک شریک محفل نے میرے ساتھ پشتو میں گفتگو شروع کی یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان میں مکمل امن تھا اور دنیا بھر کے سیاحوں کے لئے سوات، پشاور اور افغانستان ایک جنت نظیر بنا ہوا تھا کھانے سے فارغ ہونے کے بعد غرناطہ کے ایک نو مسلم ساتھی نے مجھے غرناطہ کی سیر کے لئے دعوت دی تو میں نے اس مہربان نو سے کہا،غرناطہ کی گلی کوچوں میں پیدل چل کر مجھے زیادہ خوشی ہوگی انہوں نے مجھے غرناطہ کی ایک خصوصیت تو یہ بتائی کہ “”
جن مکانات پر باہر سے سفیدی کرائی گئی ہے یہ اسلامی دور کی یادگار ہے،،
دوسری خصوصیت انھوں نے یہ بتائی کہ جن مکانات کی کھڑکیوں کی اونچائی قد آدم سے اوپر ہے ان مکانات میں روایتی پردے کا اہتمام کیا جاتا ہے ،،،
ھم غرناطہ کے گلی کوچوں سے ہوتے ہوئے کھلی شاہراہ پر پہنچے یہاں کئی جگہ میرے ساتھی نے راستے میں کچھ لوگوں سے دعا سلام کی جس سے مجھے یوں لگا کہ میں مسلم اندلس میں گھوم رہا ہوں جہاں مسلمان اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں
میرے ساتھی نے بتایا کہ غرناطہ میں اندلسی مسلمانوں کی تعداد 300 ہے لیکن رات کے وقت جب ہم سڑکوں پر گھومتے پھرتے آپس میں ملتے اور دعا و سلام کرتے ہیں تو اجنبیوں کو یوں لگتا ہے جیسے پورا شہر مسلم آبادی سے بھرا ہوا ہے،،،
آپس میں گفتگو کرتے ہوئے ہوئے ہم کھانے کے ایک ریستوران میں بیٹھ گئے اندلسیوں کی سرزمین غرناطہ میں ایک مسلمان نوجوان کی رفاقت سے میرا دل جذبات مسرت سے لبریز تھا ، میرا ساتھی بڑی سنجیدگی سے مجھے بتا رہا تھا “” اسلام پتھر کی طرح جامد نہیں بلکہ یہ ایک ہرے بھرے درخت کی طرح زندہ وجود ہے اگر اسے نچلے تنے سے بھی کاٹا جائے تو اس کی جڑوں سے نئی کونپلیں پھوٹتی ہیں ،، اس اندلسی نوجوان کو یقین تھا اندلس کی سرزمین پر اسلام کے جس تناور درخت کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی گئی تھی وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکے گی اس درخت کی جڑیں اندلس کی سر زمین میں بہت گہرائی تک پہلی ہوئی ہیں اس میں سے انشاء اللہ نئی شاخیں پھوٹیں گی اور برگ و بار لائیں گی،،،
اندلسی نوجوان کا یقین تھا کہ مجھے علامہ محمد اقبال لاہوری کا فارسی شعر یاد آنے لگا ترجمہ “”
وہ دانہ جو ابھی زمین کے اندر چھپا ہوا ہے میں اسے جوان شاخ در شاخ اور پھل دار دیکھ رہا ہوں،،،( حوالہ نمبر 05)
قاضی حسین احمد کا کوئٹہ اور بلوچستان کے حوالے سے بھی ذہن اور رویہ بھی بہت بھرپور اور مثالی رہا اور انہوں نے طویل و سخت ادوار میں دور دراز علاقوں کے سفر کرکے قبائلی زعماء، علماء کرام اور جمہوری و سیاسی شخصیات کے ساتھ رابطے رکھے،
قاضی حسین احمد کوئٹہ کے تاریخی و جغرافیائی اہمیّت اور یہاں کے باسیوں کے مشکلات و مسائل سے بخوبی واقف تھے
قاضی حسین احمد نے 2000 کے عشرے کے آغاز میں کوئٹہ میں ایک بھر پور پریس کانفرنس صرف ایک نقطے پر کی کہ پانی کا مسئلہ حل نہیں کیا گیا اور چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر نہیں کیے گے تو کوئٹہ صحرا میں تبدیل ہو کر لاکھوں انسانوں کو ہجرت کرنا ہوگا اگرچہ اربوں روپے خرچ کرنے اپنے اور بڑے بڑے دعووں کے باوجود کوئٹہ کے باسی آج بھی پینے کے صاف پانی کے لیے ترستے ہیں ،
قاضی حسین احمد د نے ایم اے کے دور میں مولانا شاہ احمد نورانی صاحب اور پوری قیادت کو گوادر لائے اور بڑے جلسہ عام میں ملا فاضل چوک گوادر میں اعلان کیا گیا کہ ہم گوادر کے عوام کے حقوق کے تحفظ اور ساحل و پورٹ کی آباد کاری میں مکران کے عوام کے ساتھ ہے قاضی حسین احمد نے لورالائی میں ایک بڑے قبائلی جرگے میں علاقے کے مسائل اور چمالنگ کے معدنی ذخائر کو فعال کرانے میں کردار ادا کر چکے ہیں، صوبے میں طویل خشک سالی کے دوران قاضی حسین احمد مرحوم نوشکی تشریف لائے اور لق دق صحرا میں فرمانے لگے کہ مالداروں کی جمع پونجی مال و مویشی چارہ والے علاقے میں منتقل کرنا چاہیے
قاضی حسین احمد چمن ،زیارت،ہرنائی،سنجاوی ژوب اور تربت و حب تشریف لائے اور ایک مرتبہ رمضان المبارک کے نیک لمحات میں جناب حافظ حسین احمد صاحب کی دعوت پر سرحدی علاقوں میں فورسز کے ناروا سلوک کے خلاف آواز اٹھانے کے لئے نوشکی وچاغی اور دالبندین میں عوامی جلسوں میں شرکت کے لئے دورہ کیا،،
قاضی حسین احمد مرحوم اس امر پر ایک سو رہے کہ معدنی دولت اور جغرافیائی اہمیّت کے حامل پشتونوں و بلوچوں کے اس قیمتی خطے کو بنیادی سہولیات اور شرکتِ و مشاورت کا احساس دینا لازمی امر ہے ، وہ بلوچ نوجوانوں کے جذبات و گلے شکوے کو بخوبی سمجھتے تھے آج قاضی حسین احمد زندہ ہوتے تو پختونوں کے لروبر کے جذبات کو خوبصورت انداز میں ایڈریس کرتے ، قاضی حسین احمد مرحوم
کا سویت یونین کے سرخ و ناروا افکار اور ٹینکوں کے خلاف افغان قوم کے ساتھ مزاحمت میں کمر بستہ رہے وہ مذہبی رجعت پسند نہیں تھے کہ مذہبی تعصب اور تنگ نظری کے بنیاد پر جنگ و جدل کے شوقین ہوں بلکہ وہ انسانیت کے بنیادی صفت عدل و احترام اور آزادی و باہمی رواداری ، عزت و آبرو مندی اور برابری کے اصولوں پر زندہ رہنے کے آرزو مند تھے سویت یونین کے مذہب بیزاری اور خدا سے جنگ کے اعلان بغاوت نے مسلم دنیا کو سنگین صدموں اور نہ ختم ہونے والے جنگوں سے دوچار کیا سوویت یونین کے زیر قبضہ 14 تاریخی مسلمان ممالک و ریاستوں میں بخارا و سمرقند کی ذہنی و عملی غلامی سے بچنے کے لئے افغانوں کو آمادہ جنگ بنا دیا ، افغانوں اور پشتونوں کو کھلے دل سے اپنے غموں ،دکھ درد اور اندھیروں سے نکلنے کے لئے مکالمے و جرگے کی راہ اختیار کرنی ہوگی گی افغانستان کی روس نواز تنظیموں خلق اور پرچم کے دھڑوں اور نادان دوستوں کے بیانیہ اور بے احتیاطی نے افغانوں کو سرخ نظریات اور بارود کے کے ڈھیر میں تبدیل کرنا تھا اور پھر امریکہ و نیٹو اور ایساف کے 41 ممالک کے افواج کے انسانیت دشمن اقدامات کی بربادی اور اندھیروں سے نکلنے کے لئے وسیع البنیاد مکالمے اور جرگہ کی راہ اختیار کرنی ہوگی ،، اگرچہ قاضی حسین احمد عدم تشدد اور عدم مداخلت کے ساتھ عزت و آبرو کے ساتھ زندہ رہنے کے آرزو مند تھے اس لئے نظریاتی جنگ میں بھی اصولوں و عزت داری کا خیال رکھا جاتا ہے وہی قاضی حسین احمد جو سوویت یونین کے خلاف افغانوں کے ساتھ کمربستہ جنگ رہے وہ جاپان کے دورے پر گئے اور خصوصی طور پر امریکی استعمار کے تباہ کردہ شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی کی حالتِ زار دیکھنے کے لئے وہ چائنا حکومت اور کمونیست پارٹی آف چین کے دعوت پر چین تشریف لے گئے اور سید منور حسن سراج الحق لیاقت بلوچ عبدالغفارعزیز اور ڈاکٹر حسن صہیب مراد کے ہمراہ جماعت اسلامی پاکستان اور کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے درمیان عدم مداخلت اور عزت و آبرو کے ساتھ اس دینا میں رہنے و جینے کے معاہدے پر دستخط کرکے آئے ،قاضی حسین احمد انتہائی سنگین اختلافات اور زخمی دل کے ساتھ امریکہ پہنچے اور امریکی قیادت اور تھینک ٹینک سے تفصیلاً ملے اور دنیا کے اور دنیا کے اقوام کے ساتھ امن، رواداری، عزت و محبت اور اعتماد و آبرومند ی کے ساتھ رہنے و جینے کی ضرورت پر زور دیا ،،
قاضی حسین احمد مرحوم بنیادی انسانی احترام، آزادی کے ساتھ رہنے اور انسانوں کی عزت و آبرو کے بے پناہ قائل تھے،جب خلیج میں صدام حسین نے اپنے فوجی قوت کے بل بوتے پر ناسمجھی کے باعث کویت پر چڑھ دوڑے تو قاضی حسین احمد پاکستان سے جمہوری پارٹیوں اور اسلامی ممالک سے مسلم پارلیمانی لیڈروں کے بڑے وفد کو لے کر بغداد پہنچے اور صدام حسین سے کہا کہ ہمسائے کا احترام بنیادی قدر ہے اور آپ کا رویہ بیرونی مداخلت کا راستہ کھول دیگی وہی خدشہ درست ثابت ہوا ہفتوں اور مہینوں کے اندر امریکہ خلیج میں در آیا فوجی اڈے قائم کیے اور آج تک کشت و خون کا بازار گرم کئے رکھا ہے ،
عراق، لبنان، شام، لیبیا، یمن ،مصر، الجزائر اور فلسطین عرصے سے امریکی شیطانی آنت اور یہودی خطروں و فتنوں سے در بدر سر اور خاک پہ سر ہو گئے ہیں ،
قاضی حسین احمد نے 1990 میں امریکی مداخلت کے خلاف “”یوم مذمت امریکہ,,,
منایا تو
جماعت اسلامی کے عرب دوستوں نے بہت برا منایا ، یہ تاریخ کے نازک لمحات اور اہم صفات ہیں جن کا تجزیہ اور اظہار آج کے نسلوں اور سیاسی کارکنان کے لیے ضروری ہے ، قاضی حسین احمد کا کردارو موقف ہر موڑ پر نمایاں اور بنیادی انسانی اقدار، عزت و احترام، احسان اور رواداری پر مشتمل رہا
قاضی حسین احمد نے بھارتی زیر قبضہ لاکھوں کشمیریوں کی آزادی اور مظلوم انسانوں کی بنیادی حقوق و آزادی کے لیے نمایاں کردار ادا کیا کیا قاضی حسین احمد کا قبائلی علاقوں رواں کشت و خون اور ایف سی آر کے تاریکی و جبر کے زیر اثر قبائل کی آزادی اور حریت اور سیاسی سرگرمیوں کے آغاز اور ایف سی آر کے خاتمے کے لیے مسلسل آواز اٹھاتے رہے اور بار بار قید و بند سے دوچار رہے ہیں اور زندگی میں پہلا اور آخری خودکش حملہ قاضی حسین احمد مرحوم پر قبائلی علاقوں کے دورے کے دوران ان انتہا پسند نوجوانوں اور استعماری ایجنٹوں کی طرف سے ہوا،، کشمیر آج ہندوستان کے آہنی آڑ کے زیر نگین ہے 5 فروری 1990 کا یومِ یکجہتی کشمیر کا آغاز کرنے والا حریت پسند قاضی حسین احمد آج زندہ ہوتے تو یقنی طور پر وہ پوری قوم کو کو آمادہ جدوجھد کرتے،،
قاضی حسین احمد زندہ و توانا آواز ،حسین جذبات اور بھرپور تمناؤں و آرزوؤں پر مشتمل خوبصورت شخصیت اسلام کامل پر عملی و نظریاتی یقین رکھنے والے اور انسانیت کے درد و خیرخواہی رکھنے والے ویژنری لیڈرو قائد اب ہم میں نہیں رہے اور جسمانی طور پر 06 جنوری 2013 کو اپنے خاندان اپنے جماعت اور امت و انسانیت سے سے جدا ہوئے , مگر ان کے کردار کی خوشبو و افکار کی طاقت اور جیتے جاگتے خیالات و آرزوئیں ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے ،
قاضی حسین احمد کا وارث پاکستان کا ہر مظلوم و لاچار انسان ہے جب بھی حقیقی تبدیلی اور عملی خوشحالی کی روشنی پھوٹی گی تو قاضی حسین احمد کے محنت و جدوجہد کی یاد آئے گی،،
قاضی حسین احمد کا وارث امت مسلمہ کا ہر وہ سیاسی کارکن اور علمی و فکری محاذ پر لڑنے والا جانثار ہے جو آزادی،حریت، عزت اور آسودگی دنیا و جنت کی حسین نعمتوں کا متلاشی ہیں اور قاضی حسین احمد کے افکار و خیالات کا وارث دنیا کے آٹھ ارب انسان ہیں جو اس وقت کرونا کے فساد زدہ و تکلیف زدہ حالات میں بے قراری میں مبتلا ہیں جب بھی عالمی سطح پر مسلم امہ کے کردار کے ذریعے امن انسانی عزت کی بحالی اور سکون خوشحالی کے نعرے گونجیں گے تو عالمی لیڈروں کی فہرست میں قاضی حسین احمد مرحوم کا نام جگمگاتے ستارے کی مانند شامل رہے گا،،
قاضی حسین احمد کی
تاریخی و زندہ دل شخصیت بہت مدتوں یاد رہے گی پاکستانی سیاست کے اتارچڑھاؤ ہو، عام آدمی کے لئے باعزت زندگی ہو عام آدمی کے لئے باعزت زندگی ہو یا میرٹ کی پامالی ہو یا کریپشن کے خلاف دھرنے ہو یا مظلوم امت کی داستانیں ،
قا ضی حسین احمد کا واضح کردار ، جراتمندانہ شخصیت اور پیار و محبت والی ہستی انکھوں کے سامنے رہے گی،،
مظلوم عوام کی آسودگی، زندگی کا سکون اور امن و ترقی، ان کا درینہ خواب و آرزو تھا جسے پورا کرنا معاشرے کے ہر زندہ دل اور بیدار مغز فرد مرد و خاتون اور بچوں و نوجوانوں کی بنیادی ذمہ داری ہیں