کسی معاشرے اور سوسائٹی کے دکھ درد اور خوشحالی و سکون کا اندازہ اس کے گفتگو و تحقیقی کام کے معیار اور اخلاقی اقدار کی پاسداری سے ہوتا ہے،پاکستان اس وقت ایک خطرناک صورتحال سے دوچار ہے اس کی لیڈرشپ کا انداز و اطوار یقینی طور پر احتیاط کے دامن سے کھوسو دور ہے موجودہ حکمران جب سے برسراقتدار آئے ہیں مہنگائی اور بدانتظامی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے جس کی وجہ سے بھرپور غصہ خطرناک حدوں کو چھورہا ہے۔
اپوزیشن کی تحریک میں بڑی سنجیدہ شخصیات اپنی زبان پر اپنے جذبات کے باعث قابو پانے میں ناکام ہی ہیں جس طرح ماضی میں اپوزیشن تحریک میں جناب عمران خان صاحب نے ساری حدیں پار کردیں تھیں۔
اس بار اگرچہ اپوزیشن جماعتوں کے رسمی سربراہ جناب مولانا فضل الرحمان صاحب نے قدرے پختگی کے ساتھ اپنے مخالفین کے لئے اپنے جذبات کو نہیں ا بھارا ہیں مگر کوئٹہ کے جلسے میں کراچی سے تعلق رکھنے والے امام شاہ احمد نورانی صاحب کے صاحب زادے انس نورانی صاحب اپنے ضبط کو قابو نہیں رکھ پائے اور کراچی کے جلسے میں جناب محمود خان اچکزئی صاحب نے اردو زبان ٔ کے خلاف آپنے غصے کا کھلم کھلا اظہار کیا حالانکہ اس وقت وہ اردو زبان میں ہی اظہار خیال فرما رہے تھے اور ابھی لاہور کے نسبتاً کم کامیاب جلسے میں انھوں نے پنجاب کی تاریخ کے نازک اوراق پلٹتے ہوئے اپنے میزبانوں کو پریشانی میں مبتلا کردیا جس طرح پہلے جلسے میں گوجرانولہ کے اندر جناب میاں نواز شریف صاحب نے اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ فوج کے سربراہان کے براہ راست نام لئے تو کراچی میں پیپلز پارٹی کی میزبانی والے جلسے میں جناب میاں نواز شریف صاحب کی تقریر ہی حذف کرنی پڑی۔
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان ابھی تک پہلے راؤنڈ کے تمام جلسوں میں زبان کی پھسلنے اور جذبات میں بہنے سے محفوظ رہے ہیں بلکہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ مشرقی روایات کے مطابق سیاسی اختلاف کو اختلاف ہی رہنے دیں اور اسے دشمنی کی فضاء میں تبدیل نہ کریں حالانکہ وہ فوجی و سول اسٹیبلیشمنٹ اور جناب عمران خان کی حکومت سے سب سے زیادہ محروم اور شکوہ کناں ہیں اور اپنے پارٹی کے بظاہر دو سینئر راہنماؤں جناب حافظ حسین احمد اور مولانا محمد خان شیرانی کے ساتھ بڑے حصے کے زیر عتاب ہیں کیونکہ پی ڈی ایم کا بیانیہ خالص مذہبی اور سماجی انصاف کا بیانیہ نہیں ہے جس پر مذہبی طبقہ اور عوام الناس دونوں شدید نالاں ہیں۔
وجہ کیا ہے کہ جناب میاں نواز شریف صاحب اور پشتون قوم پرست رہنما جناب محمود خان اچکزئی صاحب بے قابو ہو جاتے ہیں عوام الناس کو ان کے مسائل اور مشکلات کا اندازہ کرنا ہوگا اور پھر ان دونوں سینئیر لیڈروں کی اجتماعی اصلاح اور فکری ارتقاء پر پریشر بڑھانے میں مدد کرنی ہوگی چونکہ یہ دونوں لیڈرز اس وقت اپنے نسلی اور اختلافی پس منظر کے باوجود پاکستان میں ایک جمہوری سوسائٹی کی تشکیل نو و تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں اس لئے کہ یہ دونوں حضرات تلخ حقائق اور مشکلات سے گزر چکے ہیں نواز شریف صاحب کا مسلہ یہ ہے کہ ان کی حکومت جاچکی ہے اور وہ خود،ان کا خاندان اور پارٹی کا ایک حصہ مشکل ترین دور سے گزر رہے ہیں جبکہ اس پریشر کے کمی کے لئے بہتر تھا کہ جناب میاں نواز شریف صاحب پاکستان کے اندر جیل میں رہتے لیکن یہ نواز شریف صاحب اور ان کی نازک اور حساس فیملی کے بس کی بات نہیں ہے جبکہ جناب محمود خان اچکزئی صاحب کے دو مسئلے ہیں وہ سابقہ حکومت میں اپنے کمزور کارکردگی کی بنا پر عوامی مینڈیٹ سے محروم ہیں اور ان کی پالیسی انتہائی انتہائی مبہم انداز میں پیش کی جاتی ہیں وہ دل سے پاکستان میں رہنا پسند کرتے ہیں اور پاکستان کے سیاسی و آئینی فریم ورک میں بھرپور کردار ادا کرنا چاہتے ہیں مگر جس طرح ان کی پارٹی میں انتہا ء پسندانہ نظریات رکھنے والے دوست انھیں کھینچ کر پی ٹی ایم والی جوان اور گرم خون والے جذبات و واقعات کا اسیر بناتے ہیں تو ان کا قد چھوٹا ہو کر متنازع بن جاتا ہے۔ تاریخ کے اوراق میں ہمارے خطے کے بے پناہ حقائق پوشیدہ ہیں جنہیں بے موقع عوامی جلسوں میں بیان کرنے سے احتراز کرنا چاہیے بلوچستان کی بلوچ سیاسی اشرافیہ کے دونوں نمائندے سردار اختر جان مینگل اور جناب ڈاکٹر عبدالماک بلوچ دونوں اس مشکل امر سے گلو خلاصی حاصل کر چکے ہیں اور اس کی قیمت ان دونوں بلوچ قوم پرست جماعتوں نے جماعت اسلامی کی طرح بنگلہ دیش میں ادا کی ہیں فرق یہ ہے کہ جماعت اسلامی بنگلہ دیش میں ابھی تک سخت زیر عتاب ہیں اور بلوچستان میں ہمارے دونوں دوست پارٹیاں اور ان کے گرانقدر لیڈرشپ سخت ترین دور سے گزر چکے ہیں۔
طرفہ یہ ہے کہ اس بڑی جمہوری تحریک میں جماعت اسلامی جیسی مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی نسبتاً اندرونی جمہوریت رکھنے والی معرف پارٹی شامل نہیں ہیں جس کے اپنے تحفظات اور بے جاء مثالیت پسندی ہمیشہ اپنے لئے ہی نقصان پہنچانے کا باعث بن جاتی ہے۔ اس اتحاد میں کراچی اور سندھ کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے اور ابھی پنجاب کے عوام کی اکثریت کی دلچسپی پیدا کرنے کے لئے بہت سارے امور پر توجہ کی ضرورت ہے اور اسے صرف مزاحمتی بیانیہ کے بجائے تعمیری مباحث پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی اور پاکستان میں واقع ایک نئے صبح کی روشنی پیدا کرنے کے لئے نئے عمرانی و سماجی بیانیہ و معاہدہ طے کرنے کے لئے بہت کچھ کرنے اور سیکھنے کی ضرورت ہے۔
اسی طرح جناب محمود خان اچکزئی صاحب کی یہ ذہنی سطح اور جناب میاں نواز شریف صاحب کی یہ خواہش کہ عوام الناس ترکی کی طرز پر اسٹیبلیشمنٹ کے خلاف سٹرکوں پر اداروں اور ٹینکوں کے خلاف کھڑے ہو جائیں ابھی بہت زیادہ اعتماد پیدا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سیاستدانوں کی بڑی فصل نے خصوصی طور پر 1979ء کے افغانستان میں انقلاب برپا ہونے اور یکے بعد دیگرے دو بڑے استعمار خطے میں در آئے ہیں تاریخ کی ستم ظریفی دیکھئے کہ ابھی انگریزوں کے خلاف کھڑے رہنے اور ساتھ دینے والوں کی پہچان اور شناخت کے ساتھ منصفانہ طور پر مستقبل بینی سے آگاہ نہیں ہوئے ہیں تو خود برصغیر کی تقسیم اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے ساتھ ساتھ روس اور امریکہ جیسے دو بڑے غارت گروں اور انسانی خون و عزت کے سوداگروں کے متعلق کیسے انصاف کر پائیں گے۔ اس لئے کہ ان دونوں خونخوار جنگوں میں پورے خطے میں اور پختونوں نے بطور خاص اخلاقی و تحقیقی معیار و اصولوں کو توڑ کر برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہیں اس لئے پہلےتو ہمیں برباد کرنے والے انسانی ضمیر و ضابطے کی تجدید کرنی ہوگی تب ہم تاریخ کے نازک معاملات پر انصاف کے ساتھ تجزیہ و تحقیقی معیار کے مطابق استفادے کی راہ ہموار کر سکتے ہیں لمحہ موجود میں پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور فکر مندی کے ساتھ انسانی حقوق اور غربت و افلاس کے ساتھ جنگ و بارود سے نجات حاصل کرنے کی تحریک کی ضرورت ہے جسے پی ڈی ایم جزوی طور پر ایڈریس کرسکتی ہے کیونکہ سیاستدانوں میں اکثریت جاگیرداروں اور انصاف کو قتل کرنے شامل والے ہیں البتہ عوام الناس فوجی ڈکٹیٹر شپ اور سماجی و معاشی گھٹن کے برعکس لوڑی لنگڑی جمھوریت بھی غنیمت شمار کرتے ہیں اس لئے لمحہ موجود کی ضرورت یہ ہے کہ غربت و انتہا پسندی اور بد عنوانی و بد انتظامی کے خلاف عوام الناس کو متحرک کرنے کے لئے یہی کوشیشیں بھی غنیمت شمار کرتے ہیں صاف ستھرے معاشرے کی تشکیل و تعمیر نو اور انصاف و ترقی کے لئے قومی سطح پر ایک نئے علمی و سماجی شعور کے ساتھ شعور نبوت اور رسالت کی روشنی میں بھرپور علمی و فکری مکالمے و ڈائلاگ کی ضرورت ہے تب ہی تاریخ کے اوراق میں نازک معاملات کو چھیڑنے کی سبیل پیدا ہوگی ورنہ پی ڈی ایم کا بیانیہ ناکامی کے ساتھ مایوسی کا اظہار بھی ہوگا۔