سرخ و سفید، چہرہ، سیاہ داڑھی اور اونچا لمبا قد، یہ تھے عبدالغفار عزیز۔ وہ کبھی نہ تھکنے والے قاضی حسین احمد کا زمانہ تھا، قاضی صاحب نے پاکستان اسلامک فرنٹ بنایا اور انتخابی مہم چلاتے ہوئے اندرون سندھ پہنچ گئے۔ جماعت اسلامی کی تاریخ میں یہ ایک منفرد واقعہ تھا۔ اس دورے کو بہت سے دیگر صحافیوں کے ساتھ مجھے بھی کور کرنے کا موقع ملا، عبد الغفار عزیز سے ملاقات اور گپ شپ اس سفر کی ایک بہترین یاد ہے۔
قاضی صاحب کی خواہش شاید یہ تھی کہ فرنٹ کو سائیکل کا انتخابی نشان ملے لیکن ایسا نہ ہو سکا اور گاڑی کا نشان مل گیا، یہ اطلاع قاضی صاحب تک پہنچی تو وہ اس وقت کنڈیارو کے آس پاس کہیں تھے۔ عبدالغفار عزیز نے یہ خبر سنی تو چہرے پر مایوسی کا ایک سایہ لہرایا لیکن فوراً ہی سنبھل گئے اور مسکراتے ہوئے ہم لوگوں سے کہا، یار،کچھ اس قسم کی خبر بناؤ کہ قاضی صاحب پوری قوم کو گاڑی پر سوار کرا دیں گے۔ سیاسی کارکن کو اسی طرح حوصلہ مند اور پر امید ہونا چاہئے، میں نے سوچا۔
عبدالغفار عزیز اس زمانے میں جماعت کے شعبے دارالعروبہ یعنی شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ نہیں بلکہ قاضی صاحب کے ذاتی معاون تھے۔ کم و بیش ہفتے بھر تک جاری رہنے والے اس سفر کے دوران میں انھیں میں نے یہ زمہ داری بڑی جانفشانی سے ادا کرتے دیکھا۔ قاضی صاحب ان پر حقیقی بیٹے کی طرح اعتماد کرتے اور انھوں نے بھی اعتماد، محبت اور عقیدت کے اس رشتے کو نبھانے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی۔ اس عہد میں خال خال بچے ہی ہوں گے جو اب اپنے بڑوں کے ہاتھ پاؤں دبا کر ان کی راحت کا سامان کرتے ہوں گے، عبدالغفار عزیز کو میں اپنی آنکھوں سے اپنے اس بزرگ کی خدمت میں مصروف دیکھا۔
اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے، بے ساختہ مسکراہٹ، بے تکلف گپ شپ، ذرا سا حجاب اور شرمیلا پن، ان خوبیوں نے مل کر ہمارے اس دوست کی شخصیت کو دل آویز بنا دیا تھا۔