نیب کی جیل میں بند حمزہ شہباز کورونا کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کی علالت کی خبر پر وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب اور داخلہ امور شہزاد اکبر نے پھبتی کسی:
“چاچو صاحبزادے کوئی سیاسی جرم میں نہیں اربوں کی منی لانڈرنگ اور اپنی جماعت کے لوگوں اور سرکاری ٹھیکوں میں کمیشن لینے کے جرم میں بند ہیں اور انکی بیل ہائی کورٹ سے مسترد ہو چکی ہے،کیا آپ چاہتے ہیں آپکےبھائی کی طرح اسے بھی لندن بھیج دیں؟ باقی اللہ شفا دے “۔
مشیر احتساب نے سرکار کے قیدی کی علالت کے بارے میں سب سے پہلے تو طنز اور طعن و تشنیع سے کام لیا گیا، آخر میں سرسری انداز میں باقی اللہ شفا دے کہہ کر اپنی ذمہ داری ادا کردی۔ شہزاد اکبر کا یہ طرز عمل کم سے کم الفاظ میں شقاوت قلبی ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ مشیر داخلہ کی حیثیت سے ریاست کی جیل میں بند ایک قیدی کی صحت اور حفاظت اپہلی ذمہ داری ان کی ہے جس سے وہ پہلو تہی کے مرتکب ہی نہیں ہو رہے ہیں بلکہ وہ کسی پتھر دل کی طرح وہ مریض پر پھبتیاں کستے ہوئے پائے گئے ہیں جو غیر ذمے دارانہ ہی ظالمانہ رویہ ہے۔
یہی وہ طرز عمل ہے جس کی وجہ سے اس سے پہلے میاں محمد نواز شریف علیل ہوئے اور ان کی حالت اتنی غیر ہوئی کہ خود انھیں جیل میں ڈالنے والوں نے انھیں بیرون ملک بھیجنے کے جتن کیے اور انھیں بیرون ملک بھیجا۔ اس وقت ویسا ہی غیر انسانی طرز عمل حمزہ شہباز کے ساتھ بھی روا رکھا جا رہا ہے۔ مسلم لیگ ن کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل عطاء اللہ تارڑ نے ان کے علاج کے سلسلے میں حکومت پنجاب سے جو مطالبات کیے ہیں، انھیں مسترد کردیا گیا۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت ایک بار پھر غیر انسانی رویہ اختیار کے کر حمزہ شہباز کی جان کو خطرے میں ڈالنے کی مرتکب ہو رہی ہے۔ اس ظالمانہ طرز عمل سے ممکن ہے کہ حمزہ، ان کے اہل خانہ اور ان کی جماعت ذہنی اذیت سے دوچار ہو لیکن یہ وقت گزر جائے گا لیکن سب سے زیادہ نقصان تو ملک اور جمہوریت کو ہو گا جس کی تلافی ممکن نہیں ہوگی۔ اس لیے “آوازہ” کا حکومت کو مشورہ ہے کہ وہ سیاسی معاملات کو سیاسی ہی رہنے دے، ایسا طرز عمل اختیار نہ کرے جس سے سیاسی انتقام کا تاثر پیدا ہو۔ سیاسی تاریخ کا سبق یہی ہے کہ دوسری کی طرف اٹھائی ہوئی انگلی کی طرح انتقام کا رخ بھی اپنی اصل کی طرف پلٹتا ہے۔