یہ کہنا تو بے کار ہے کہ امید ہے ، تم خیریت سے ہو گے ۔ ان دنوں تمہیں اپنے ٹی وی پروگرام میں کہے جانے والے کسی جملے پر ( یا جملوں پر ) سندھ کے قوم پرست عشاق سے ( تمہارے نہیں ، قوم پرستی کے عشاق سے ) جو بے بھاو سننی پڑ رہی ہیں ، اس کے بعد ذہنی طور پر خیریت سے رہنا آسان نہیں ہو سکتا ۔
یہ ایک مزے کا ڈرامہ ہے جو ہماری آنکھوں کے سامنے ، انگریزی اصطلاح کے مطابق ، دھیرے دھیرے ‘ان فولڈ’ ہو رہا ہے ۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہم عام زندگی کے ایسے ڈرامے بہت پسند کرتے ہیں جن میں حیران کر دینے والے ٹوئسٹ آئیں ، کوئی ہیرو اچانک ولن بن جائے ، کوئی پارسا بی بی بدکردار نکلے ، کوئی لیڈر ، چور اور کوئی مولوی ، شرابی ثابت ہو ۔
لیکن بات صرف یہی نہیں ہے ۔ بات ہماری پسند سے بھی کچھ آگے کی ہے ۔ اس اجتماعی سائیکی کی ہے جو تنازع سے عشق کرتی ہے ، اسکینڈلز پر جان دیتی ہے ، کانسپریسی تھیوریز پر ایمان رکھتی ہے ، طاقت ور یا مقبول یا پہچانے جانے والے لوگوں کو اونچے پیڈسٹل سے گھسیٹ کر نیچے گرانے سے لطف اٹھاتی ہے ، زبان اور فرقے اور برادری اور مذہب اور وطن جیسے ہر معاملے میں لڑنے مرنے اور مار دینے کی خواہش پیدا کرتی ہے ۔
یہی سائیکی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم لوگوں کو غدار قرار دیں ، وطن فروش یا نظریہ فروش سمجھنے لگیں ، بے ایمان لوگوں کے ساتھ پروفیشنل اور ایمان دار صحافیوں پر بھی لفافہ صحافی کی یا متعصب صحافی کی مہر لگا دیں ۔ یہی سائیکی ہم میں کوئی بے رحم عفریت پیدا کرتی ہے جو کسی اور کے تو کیا ، خود ہمارے کنٹرول میں نہیں ہوتا ۔
میں تمہیں شاید چالیس بیالیس سال سے جانتا ہوں ۔ رحیم یار خان سے کراچی یونیورسٹی آنے والا ایک سادہ سا نوجوان ، جو ہم سے جونیئر تھا اور ہمارے شعبہ صحافت کا بھی نہیں تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے پورے گروپ کا لاڈلا بن گیا تھا ۔ اس وقت سے لے کر آج تک تم ہمارے لئے وہی چھوٹے سے لڑکے ہو جسے ہم کبھی بھی ڈانٹ سکتے ہیں مگر جس کی ساری شہرت اور مقبولیت کے باوجود ہم اس کی نیت پر ، وسیع القلبی پر ، بے تعصبی پر ، انسانوں سے اور محروموں سے اور مظلوموں سے ہمدردی پر کبھی شک نہیں کر سکتے ۔
نصف صدی سے زیادہ اس شہر ، اس صوبے میں گزارنے والے ، میں اور تم اور ہمارے سینکڑوں دوست ایک بے حد مقبول مگر لسانی بنیادوں پر قائم ہونے والی جماعت کی بنیادی تھیوری سے اختلاف کرتے رہے ، فاشزم سے اور نفرت سے اختلاف کرتے رہے ، مہاجر اور سندھی ، پٹھان اور پنجابی ، بلوچ اور سرائیکی کے خانوں میں سادہ انسانوں کو فٹ کرنے کے تصور کے مخالف رہے ، صرف انسان دوستی پر یقین رکھا ، مگر اس ہجوم کو ، جو مشتعل ہونے پر آمادہ ہو ، اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ ہجوم کیوں یاد رکھے کہ تم مظلوموں کے اور غائب کر دئیے جانے والوں کے اور محروموں کے لئے لڑتے رہے ہو ، اپنی جان خطرے میں ڈال کر حکومتوں سے اور اسٹیبلشمنٹ سے بر سر پیکار رہے ہو ۔
مزے کی بات یہ ہے میری جان ، کہ کوئی تمہاری بات سننے کو تیار نہیں ہے ۔ بات تو کیا ، تمہاری باقاعدہ معذرت قبول کرنے پر راضی نہیں ہے ۔ اب ایسے میں اگر کوئی یہ کہے کہ صاحب ، دیکھئے ، ہر شخص کو کم از کم اپنی رائے رکھنے کی آزادی تو ہونی چاہئیے، یا یہ کہ ہر اختلاف پر مکالمہ ہو سکتا ہے تو ان ساری توپوں کا رخ اس کی طرف بھی ہو سکتا ہے ۔
جان لو پیارے وسعت اللہ خان ، کہ انسان ویسا ہی ہوتا ہے جیسا معاشرہ ہوتا ہے ۔ جان لو ، کہ تم ایک سفاک معاشرے میں زندہ ہو جہاں تمہاری مقبولیت ، تمہارے ماتھے پر آویزاں غیر جانبداری کا اسٹکر , تمہاری قمیض پر آویزاں انسان دوستی کا بیج ، تمہارے ارد گرد برپا لاکھوں لوگوں کی واہ واہ کا شور ۔۔۔۔ سب سراب ہے ۔ کیا تمہارے سامنے ایدھی کو ، ملالہ کو ، جید علماء کو ، ججوں کو ، قائد اعظم کو ، فیض کو ، فراز کو ، امر جلیل کو ، فکر و فلسفے کے لوگوں کو ، نظریہ کے لئے کام کرنے والے لوگوں کو گالیاں نہیں دی گئیں ۔ تم کس کھیت کی مولی ہو پیارے؟
ایک اور دلچسپ بات یہ بھی دیکھی کہ تمہارے سینکڑوں یار ، تمہیں اچھی طرح جاننے والے بھی تمہیں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر ( جہاں یہ سارا طوفان برپا ہے ) اعلانیہ سہارا دینے سے گریزاں ہیں ۔ شاید ٹیلی فون پر کوئی اظہار یکجہتی کرتے ہوں ۔ یا شاید اس جھگڑے میں نہ پڑنا چاہتے ہوں ۔ ایک دو دوستوں نے کچھ کوشش کی ، کوئی نظم وغیرہ بھی لکھی تو ان کی وال مخالف تبصروں سے لبا لب بھر گئی ۔ شاید میرے اس خط پر بھی یہی ہو ۔ یا شاید نہ ہو ۔ میں نہ اہم ہوں ، نہ قابل توجہ ۔
تو کہانی کا سبق کیا ہے پیارے؟ عام آدمی ہو اور عام حالات ہوں تو کہا جائے کہ بھائی ، آئندہ احتیاط برتنا ۔ رائے ایسی دینا کہ یوں بھی درست ہے اور ووں بھی ۔ لیکن تم عام آدمی نہیں ہو ۔ تمہیں اپنی انسان دوستی اور سندھ دھرتی سمیت پورے پاکستان کی دھرتی سے محبت کی ڈگر پر قائم رہنا ہے ۔ یہ طوفان تو آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں ۔ کل ہم اپنی توپوں کا رخ کسی اور سی سی پی او ، کسی اور قومی لٹیرے ، کسی اور اداکارہ ، کسی اور دشمن ملک کی جانب کر دیں گے ۔
مجھے نہیں معلوم ، کتنے لوگ تمہیں ایک رائے رکھنے کی آزادی دینے کے حق میں ہوں گے ۔ میں بہ ہر حال تمہیں یہ حق دینے کا حامی ہوں ۔