اب میں دروازے کے سامنے کهڑا سوچ رہا تھا کہ دستک دوں، یا لوٹ جاوں؟ اسے دیکھنا برسوں کی خواہش تهی، جب بھی میں مُلتان کے ریلوے اسیشن سے گُزرتا تو یہ جی چاہتا، کہ یہیں اُتر کے اس گھر کو دیکھ آوں جہاں میرے بچپن کے ابتدائی دو یا تین سال کا عرصہ بِیتا۔”جی؟”اُنیس بیس سالہ لڑکی نے کِواڑ کے پیچهے سے جهانک کر پوچها، تو میں نے سوال کیا۔”گھر میں کوئی مرد ہے؟””جی نہیں۔”میں مایوس ہوگیا، کہ نا مُراد لوٹوں گا۔ “بہت سال پہلے ہم یہاں رہ کر گئے ہیں.” لہجے میں ہچکچاہٹ نُمایاں تھی۔ “میں دُور سے آیا ہوں، اِسے دیکهنے. کیا میں؟ …”وہ ایک منٹ کا کہ کر پلٹ گئی. مجهے اندازہ تها، کسی جهَروکے سے میرا جائزہ لیا جا رہا ہوگا.تهوڑی دیر پہلے یہ بنگلا ڈهونڈنے میں مشکل پیش آ رہی تهی. ریلوے اسپتال میں داخل ہو کر بنگلے کے عقبی حصے تک تو پہنچ گیا، لیکن مرکزی دروازے کی سَمت جاتا تو وہ کوئی اور بنگلا ہوتا. لاہور میں نسیم ماموں کو کال کر کے پوچها، تو اُنهوں نے گلی کا راستہ سمجهایا، اور بنگلا نمبر بهی بتا دیا، 95.تهوڑی دیر کے بعد سن رسیدہ مسز الزبته نمُودار ہوئیں. اُن کے سامنے اپنی بات دُہرانی پڑی. خلاف توقع بہ غیر کسی پس و پیش کے، مجهے اندر آنے کی اجازت مل گئی.جامن کے درخت، شیر کے مُنہ والے پرنالے، گیراج، بر امدہ، بر آمدے کے سامنے ہرا لان، سبهی کچه ویسا تها، جیسا میری یاد داشت میں محفوظ تھا، جیسا انگریزی سرکار بنا گئی تھی، لیکن ریلوے اسپتال کے اندر کهُلنے والا دروازہ نہیں تها. ریلوے اسپتال کی میٹرن مسز الزبتھ نے بتایا کہ آٹه نو سال پہلے ایک افسر نے اِس دروازے کی جگہ دیوار کهڑی کروا دی تهی. ان کے گهر کوئی مرد نہیں تها، اس کے با وجود انهوں نے مجهے کمروں اور باورچی خانے کا دورہ کرایا. بچپن کا وہ دن، جب میں اس باورچی خانے میں رکھی پرات میں سے بهیگے چاول کی مٹهی چُرا کر لے گیا، اور ان چاولوں کا ذائقہ کل کی طرح یاد ہے.نگہت اور میرا چهُپ کر مٹی کهانا، زاہد ماموں کا لِپٹن چاے کے ڈبے کو فٹ بال بنا کر میرے ساته کهیلنا، عتیق ماموں کا جامن کے پیڑ سے گرنا، فرحت آنٹی کی بارات آنا، بڑوں کے ساته چهوٹے دروازے سے ریلوے اسپتال میں داخل ہونا اور وہاں سے ریلوے گراونڈ جاکر پروجیکٹر پہ چلتی تصویر دیکهنا، پانی بهرے غُبارے کو گیند بنا کر ہتهیلی سے تهپکنا، سرونٹ کوارٹز کی سلاخ دار کهڑکیاں، گهر کے آنگن میں لگی پِینگ، اور بہت سے لمحے ذہن کے پردے پہ نقش ییں۔مِسز الزِبته کی چار بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے. چاروں بچیاں گهر پہ تهیں، جنهوں نے چاے بسکٹ کا اہتمام کیا. انتہائی خلُوص، اور فراخ دِلی سے تواضح کی. ان حالات میں جب قدم قدم پر دهوکے بازی اور دهشت گردی کے واقعات ہوں، ان بے لوث خواتین کے حوصلے کی داد نہ دینا نا انصافی ہوتی. باتوں باتوں میں مِسز الزِبته نے کہا کہ ہم کرِسچَن ہیں، شاید کوئی مُسلم فیملی آپ کو یوں گهر میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیتی. عموما یہ ہوتا ہے، کہ آپ کسی ایسے مقام کو جاتے ہیں، جہاں آپ کی یاد کی پریاں رہتی ہوں، تو دیکھتے ہی اُس جگہ کے بارے میں آپ کا تاثر بدل جاتا ہے. آپ افسوس کرتے ہیں، کہ کاش میں یہاں نہ آیا ہوتا. ریلوے کالونی مُلتان کے اِس بنگلے کی یادیں مرتے دم تک میرے ساتھ رہیں گی۔ وہ میری عُمر کے ابتدائی تین سال کی یادیں ہوں، یا پھر اِس مُختصر دورے کے دورَان مِسز الزِبتھ کے گھرانے کی پُرتپاک مہمان نوازی کی یادیں۔