ہمیں اگلے روز مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہونا تھا۔ سوچا کہ آج سرور کونین کو الوداعی سلام بھی کر لیا جائے۔ عشاء کی نماز کے بعد عاشقان رسول پاک و صحابہ کرام کی سرکتی ہوئی لائن میں کھڑے ہو کر “حجّی! آگے!! چلو!!!” سنتے ہوئے اس خواہش کے ساتھ کہ اللہ پھر اس مقام پر لائے نبی آخرالزمان، خلیفہ اول و دوئم کو الوداعی سلام کیے تھے۔ باہر نکلنے کی بجائے آج دل میں ٹھان لی تھی کہ ریاض الجنہ میں نفل ادا کرنے ہیں۔ ایک گروہ کو پولیس والے نکال رہے تھے۔ دوسری جانب سے قنات کھلنے کا انتظار تھا۔ میں دوسری لائن میں کھڑا ہو گیا تھا۔ جب علاقہ خالی ہو گیا اور صفائی ہونے لگی تو قنات کے دوسری طرف ایک شیخ نے کھڑے ہو کر صبر اور نظم کی تلقین کی تھی۔ عربی، اردو، فارسی، ترکی سبھی زبانوں میں کہا تھا کہ آرام سے داخل ہوں۔ مجھے عین ریاض الجنہ میں جگہ مل گئی تھی۔ میں دو نفل ہی پڑھتا لیکن لوگ نفل پڑھنے میں مصروف تھے۔ نکلنے کی جگہ نہیں تھی، اس لیے میں نےمزید دو نفل پڑھ لیے تھے۔ ربنا آتنا فی الدنیا حسنتا”و فی الآخرہ حسنتا” سے مجمل بھلا کوئی دعا ہوگی، جو پڑھتا رہا اور نکل گیا۔ آج رات صافی صاحب بھی آرام سے آ کر سو گئے تھے۔ صبح اکٹھے نماز پڑھنے گئے تھے۔ واپس نکلنے لگے تو میری چپل غائب تھی۔ میں چپل ڈھونڈتا رہا اور جمشید صاحب ایک بار پھر غائب ہو گئے۔ کوئی آدھا گھنٹہ چپل تلاش کیے تھے۔ اندازہ یہی لگایا تھا کہ میرے چپلوں سے ملتے جلتے ایک چپل بہت دیر سے اسی ریک میں پڑے تھے، جہاں میرے چپل تھے چنانچہ ہو نہ ہو کوئی صاحب غلط فہمی سے میرے چپل لے گئے ہیں لیکن اگر میں یہ چپل لے کر چلتا بنوں تو ممکن ہے کہ میرا اندازہ غلط ہو اور کوئی دوسرا میری طرح تنگ ہو چنانچہ ننگے پیر ہی مسجد کے احاطے میں اور احاطے سے باہر گلی میں چلا تھا۔ صبح صبح بھلا چپل کہاں ملتے لیکن سڑک پر پہنچ کر برقعہ پوش ریڑھی بان سے پندرہ ریال کے جیسے بھی چپل ملے خرید لیے تھے جنہیں پہن کر ہوٹل پہنچا تھا۔ کچھ دیر بعد صافی صاحب بھی مل گئے تھے۔ پراٹھوں کا ناشتہ کرنے گئے تھے لیکن صافی صاحب سالن نہیں لے رہے تھے۔ ان کو ڈر تھا کہ کہیں پیٹ خراب نہ ہو جائے۔ واپسی پر اتفاقا” معلوم ہوا تھا کہ ایک بس آئی ہوئی ہے جو قابل دید مقامات دکھانے لے جائے گی۔ یہ تھا ہمارے مولوی رشید یعنی رشیت حضرت کا انتظام کہ کسی کو معلوم نہیں ہوتا تھا کہ کیا کرنا ہے اور کہاں جانا ہے؟
جب سب بس میں بیٹھ چکے تو ژوب (لمبا عربی کرتہ) زیب تن کیے اور شکوک کو ابھارنے والی اپنی مسکراہٹ چہرے پہ سجائے رشیت حضرت بھی بس میں سوار ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا تھا کہ “ہمارا” مدینہ میں طالب علم عثمان اس سفر میں آپ کا گائیڈ ہوگا۔ عثمان دھان پان سا چھدری ہلکی داڑھی والا تاتار لڑکا تھا جس کے کان سامنے کی جانب اور بڑے بڑے تھے لیکن جب اس نے سفر بارے تذکرے کی ابتدا کی تو فورا” اس کی ذہانت اور علمیت آشکار ہونے لگی تھی۔ اس نے بتایا تھا کہ ہماری پہلی منزل مسجد قباء ہوگی۔ محمد صلی اللہ و علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تو یقینا” یہ مسجد چھوٹی سی ہی ہوگی لیکن اب یہ مسجد خاصی وسیع و عریض اور دیدہ زیب ہے۔ اس کی بناوٹ بڑی سادہ سی ہے یعنی وہی ایک گنبد اور چار بلند مینار لیکن پھر بھی یہ پرشکوہ لگتی ہے۔ یہ کہتے ہوئے مسجد یا اس سے وابستہ حقائق سے کسی قسم کی کسی عقیدت کا اظہار مراد نہیں ہے بلکہ مسجد فی الواقعی باہر سے اور اندر داخل ہو کر دیکھنے, دونوں ہی طرح سے متاثّر کرتی ہے۔ چونکہ جلدی میں نکلے تھے چنانچہ با وضو نہیں تھے۔ اس لیے مسجد سے نیچے (مسجد زمین سے اچھی خاصی اونچی ہے) وضوگاہ میں جا کر وضو کیا تھا۔ وضوگاہ سے مسجد میں داخل ہونے کے دروازے تک پہنچنے کی خاطر سیڑھیاں چڑھنے سے پہلے راستے میں بچے ساتھ لیے یا بچہ سنبھالتے ہوئے کئی برقع پوش بھکاری عورتیں دیکھنے میں آئی تھیں۔ باثروت ملکوں میں بے مایہ لوگوں کو دیکھ کر زیادہ تکلیف ہوتی ہے۔ بہر حال سیڑھیاں چڑھ کر دروازے میں داخل ہوا تھا۔ چونکہ صبح چپل گم کر چکا تھا چنانچہ اب چپل سے متعلق محتاط تھا اور اسے واضح طور پر دکھائی دینے والی جگہ پہ رکھا تھا۔ اندر سے مسجد کی تصویر بنانا چاہتا تھا لیکن موبائل فون کا کیمرہ جم گیا تھا۔ فون بند کرکے دوبارہ چالو کیا اس میں بھی دو تین منٹ لگے تھے لیکن عارضی نقص موجود رہا۔ چونکہ عثمان نے ہمیں مسجد دیکھنے اور دو نفل پڑھنے کی خاطر پندرہ منٹ دیے تھے اس لیے بہتر جانا تھا کہ نفل پڑھ لی جائیں۔ بہر حال کسی نہ کسی طرح میں مسجد کی تصاویر لینے میں کامیاب رہا تھا۔ تصویریں یادگار کے طور پر نہیں بلکہ اس لیے بناتا تھا کہ انہیں فیس بک پہ جاری کر سکوں تاکہ لوگ میرے ساتھ حج میں شریک رہیں۔ گھٹیا ہوٹل کی لابی میں البتہ وائی فائی کی سہولت موجود تھی جہاں سے موبائل پہ ہی انٹرنیٹ آن کرکے میں لوگوں کو بصری طور پر ہی سہی اپنے ساتھ شامل کر لیتا تھا اور مختصرا” تبصرہ یا روداد بھی لکھ دیتا تھا۔ لوگوں کے انگریزی یا رومن اردو میں لکھے تبصرے تو پڑھے جاتے تھے لیکن موبائل میں اردو پڑھنے کی سہولت نہیں تھی۔
مسجد قباء سے نکلے تو ہمارا اگلا ہدف “مسجد قبلتین” تھا۔ اس مسجد کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہیں نماز پڑھاتے ہوئے رکوع کے عالم میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا رخ مبارک بیت المقدس سے موڑ کر کعبے کی جانب کیا تھا۔ مقتدیان کرام بھی اسی طرح مڑ گئے تھے۔ چونکہ اس میں نماز بیک وقت دو قبلہ جات کی جانب منہ کرکے پڑھی گئی تھی اس لیے اسے مسجد قبلتین کہتے ہیں لیکن ہمارے مولانا رشیت کا کہنا یہ تھا کہ اس مسجد میں حضور کے نماز پڑھنے کی کوئی روایت نہیں ہے اس لیے ضروری نہیں کہ یہاں نوافل پڑھے جائیں، ہاں کسی بھی مسجد میں داخل ہونے کی نماز تہیۃ المسجد پڑھ لی جائے تو اچھا ہے۔ میں نے بحث کرنا مناسب نہیں جانا تھا۔ نوافل پڑھے تھے ایک دو تصویریں بنائی تھیں اور بس کی جانب چل دیا تھا۔ مسجد کی جانب آتے ہوئے ہمیں بس میں بیٹھے بیٹھے “مسجد جمعہ” بھی دکھائی گئی تھی لیکن اس تک لے جایا نہیں گیا تھا۔ شاید وہ راستے سے کچھ ہٹ کر تھی یا وقت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا تھا۔ مسجد قبلتین سے ہم کھجوروں کے ایک باغ میں لے جائے گئے تھے۔ جہاں کھجوروں کی ایک شاندار دکان تھی۔ ایک چھوٹا سا ریستوران تھا جس کے پہلو میں ایک چبوترے کے اوپر قالین بچھا کر اس کی چاردیواری کے ساتھ بیٹھنے کے لیے گدیاں رکھ دی گئی تھیں اور ٹیک لگانے کی خاطر غلاف چڑھے اسفنجی گاؤ تکیے دھرے ہوئے تھے۔ بیشتر لوگ کھجوریں خریدنے اور کھجوروں کے درخت دیکھنے میں لگ گئے تھے کیونکہ روس میں رہنے والوں کے لیے کھجور کا درخت Exotic ہوتا ہے جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھا ہوتا۔ میرے لیے کھجوروں کے یہ درخت بہت کوتاہ تھے کیونکہ میری جنم بھومی علی پور ضلع مظفر گڑھ میں ان سے چار گنا بلند کھجوریں ہوتی ہیں جن کی کھجوریں مدینے کی کھجوروں سے کہیں زیادہ لذیذ اور Original ہوتی ہیں۔ مدینے کی تمام کی تمام کھجوریں ماسوائے عجوٰی کے قلمی ہیں لیکن “ہماری” کھجوریں وہی ہیں جو عرب فوجوں کے سپاہیوں کے دہنوں سے گری کھجوروں کی گٹھلیوں سے اگی تھیں، اگرچہ وہ اب تیزی سے کم ہوتی جا رہی ہیں۔ چانچہ میں اسی چبوترے پہ “شیخ” بن کر بیٹھا رہا تھا۔
باغ عدن سے نکل کر پھر اکیسویں صدی کی غیر مسنون سواری یعنی بس میں بیٹھ گئے تھے اور اب لوہے کے اس اونٹ کا رخ کوہ احد کی جانب تھا۔ راستے میں البتہ جنگ احزاب کے علاقے میں واقع خندق کے ایک تھوڑے سے حصے والی جگہ پہ بس روکی گئی تھی۔ بس سے نکلنے نہیں دیا گیا تھا اور نہ ہی ہم نے خندق کا باقی ماندہ حصہ دیکھا تھا۔ بس ایک مسجد دکھائی دی تھی جس پر عثمان کی گفتگو کا اوور لیپ ہو رہا تھا۔ جب مسجد قباء کی جانب روانہ ہوئے تھے تو راستے میں ایک پہاڑی سے جھر جھر بہتے جھرنوں کو دیکھ کر حیرت ہوئی تھی، پہاڑی پہ پھولوں کی بھی بہتات تھی۔ سوچا تھا کہ عثمان سے پوچھوں گا کہ کیا یہ جھرنے قدرتی ہیں؟ ممکن ہے اوپر کوئی چشمہ ہو۔ یہ جھرنے ایک بار پھر نگاہوں کے سامنے تھے۔ عثمان نے خود ہی بتا دیا تھا کہ یہ مصنوعی ہیں۔ بہر حال تپتے ہوئے مدینے میں یہ منی منی آبشاریں آنکھوں کو بے حد بھلی لگی تھیں
اب ہم کوہ احد کی جانب جا رہے تھے۔ وہاں پہنچے تو دیکھا کہ کوہ احد ایک جانب ہے جس کی تلہٹی میں دکانیں تھیں۔ سڑک کے اس پار خاصی دور اور بھی گاڑیاں رکی ہوئی تھیں۔ لوگ آنکھوں پہ ہاتھ دھرے کسی جانب دیکھ رہے تھے۔ یہ ایک ٹیلہ تھا جس پہ لوگ چڑھے ہوئے تھی۔ گرمی بہت زیادہ تھی۔ ایک دیوار پر جنگ احد کی نقشہ کشی ہوئی ہوئی تھی۔ عثمان نے کسی ماہر حرب کی طرح جنگ احد کا نقشہ کھینچنا شروع کر دیا تھا۔ میں دھوپ کی حدت سے بچنے کی خاطر اسی دیوار کے سائے میں کچھ خواتین کے ہمراہ کھڑا ہوگیا تھا لیکن عثمان کے انداز و بیان نے مجبور کیا تھا کہ میں بھی اس جنگ کا منظر سمجھوں ، میں سامنے کی جانب آ گیا تھا۔ جو ٹیلہ دکھائی دے رہا تھا، اصل میں وہی جگہ تھی جہاں حضور اکرم کے دانت شہید ہوئے تھے اور زخم آئے تھے، جس پر کفار مکہ نے مشہور کر دیا تھا کہ وہ اس دنیا میں نہیں رہے اور صحابہ کے پاؤں لڑکھڑا گئے تھے۔ رہی سہی کسر منافقین نے میدان چھوڑ کر پوری کر دی تھی۔ یہ سوچنا کہ کفار مکہ کہاں سے سفر کرکے کہاں لڑنے آئے تھے اسلام کے ایک اہم باب کو آشکار کر رہا تھا کہ کس طرح لوگ ایک تحریک کے فروغ پانے اور حق کی آواز کے مقبول ہونے سے خائف تھے کہ اس کو تمام کرنا چاہتے تھے۔ اس امر سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ کس طرح ایسے حالات میں جانباز صحابہ کرام کوہ احد کی کگروں پر چل کر زخموں سے چور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساتھ لے کر دشمنوں سے چھپے ہونگے۔ تاہم سب جانتے ہیں کہ اس جنگ میں بہت زیادہ صحابہ شہید ہو گئے تھے، جن میں حضور اکرم کے چچا اور دوست حضرت حمزہ رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی شامل تھے جن کا جگر ابوسفیان کی بیوی ہندہ نے چبایا تھا۔ جسے آپ نے فتح مکہ کے بعد ناگواری کے ساتھ لیکن معاف فرما دیا تھا۔ جنگ احد کے شہداء کا قبرستان ہمارے سامنے تھا لیکن اس کی دیواریں اونچی تھیں۔ ہم میلے کی مانند لگی دکانوں کو عبور کرتے ہوئے قبرستان کی دیوار کے سائے میں اس ٹیلے تک پہنچے تھے۔ عثمان نے ٹیلے پر چڑھتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پتھر عام پتھر ہیں انہیں متبرک پتھرسمجھ کر اٹھانے اور ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں ہے مگر دو ایک افراد نے اس کا کہا ان سنا کر دیا تھا اور پتھر اٹھانے لگے تھے۔ یہ بات تو سمجھ آتی تھی لیکن عثمان نے یہ بھی کہا تھا کہ جس کسی نے بھی تصویریں اتاری ہیں یا ویڈیو بنائی ہے وہ ازراہ خدا تلف کر دے کیونکہ میں قیامت کے روز اللہ کو جوابدہی نہیں کر سکوں گا۔ اس کی مجھے سمجھ نہیں آئی تھی تاہم میں نے نہ تو وہاں کوئی تصویر کھینچی اور نہ ہی اس سے وضاحت طلب کی۔ البتہ اسے اس کے انداز گفتگو اورعلم پر داد ضروردی تھی۔ میں لوگوں کو ٹیلے پہ ہی چھوڑکرقبرستان کے سامنے پہنچ گیا تھا۔ ایک بغلی دروازے سے قبرستان کی جالی تک پہنچنا ممکن تھا وہاں پہنچ کر میں نے فاتحہ پڑھی تھی اورحضرت حمزہ کو اپنا سلام پیش کیا تھا۔ پھر قبرستان کی دیوار کے سائے کی پناہ لیتا ہوا وہاں پہنچا تھا جہاں بس کھڑی تھی۔ بس میں کوئی نہیں تھا۔ میں ایک ہسپتال کے دروازے کی سیڑھیوں پہ بیٹھ کرلوگوں کے آنے کا انتظارکرنے لگا تھا۔ ہسپتال میں پانی کا کولرتھا اوردروازہ کھلا ، وہاں سے جا کر ٹھنڈا پانی پیا تھا۔ لوگ آنے لگے تھے، ان کو بھی پانی پینے کی راہ دکھا دی تھی لیکن جب زیادہ لوگ اندر جانے لگے تو اہلکار نے آ کر دروازہ بند کر دیا تھا۔ ہم ہوٹل لوٹ آئے تھے۔
آج جمعہ تھا۔ نماز جمعہ کے بعد میں مسجد نبوی میں اسی شو ریک کے پاس گیا تھا جہاں صبح چپل گم ہوئی تھی۔ جو بھی شریف آدمی غلطی سے لے گیا تھا وہ اسے واپس وہیں دھر گیا تھا اوراس سے مشابہ اپنی چپل لے گیا تھا۔ چپل ہاتھوں میں تھامے باہرنکلا تھا۔ ایک دکاندارسے پلاسٹک بیگ لے کرچپل اس میں ڈالی تھی اوراپنے واحد شناسا پاکستانی ریستوران مین کھانا کھانے چلا گیا تھا۔ ہوٹل لوٹا تومعلوم ہوا کہ نمازعصر پڑھنے کے بعد ہمیں مکہ کے لیے روانہ ہونا ہے۔ کمرے میں جا کرسامان باندھا تھا، کچھ استراحت کی تھی اورسامان لے کر ہوٹل “بدرالعنبریہ” سے نکلنے کے لیے اس کی لابی میں پہنچ گیا تھا۔ ہمارے لیے دو بسیں آئی تھیں۔ میں پہلی بس میں سوار ہو گیا تھا، جس میں عورتیں پہلے ہی بیٹھ چکی تھیں۔ لوگ آہستہ آہستہ آ رہے تھے۔ بالآخر مغرب سے کچھ پہلے بس روانہ ہوئی تھی۔ میرا خیال تھا کہ میقات کوئی بہت زیادہ دورہے۔ احرام والا تھیلا میں اپنے ساتھ بس کے اندر ہی لے گیا تھا۔ لیکن میقات تو آدھے گھنٹے بعد ہی آ گیا تھا۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ میری طبیعت خراب تھی، میں چونکہ صبح نہا چکا تھا۔ ڈرتھا کہ دوسری بار نہانے اورسفرکی وجہ سے کہیں بخارہی نہ ہو جائے۔ میں نے “مولبی صاحب” یعنی رشیت حضرت سے پوچھا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ کوئی بات نہیں تم یونہی احرام باندھ لو۔
ایک جانب دیکھا تو “دورہ میات رجال” لکھا ہوا تھا یعنی مردوں کے لیے باتھ رومز۔ اس کے اندر بیسیوں غسل خانے تھے۔ میں نے ایک غسل خانے میں گھس کراحرام باندھ لیا تھا۔ نماز مغرب ونوافل پڑھنے کے لیے اس حصے کے دوسری جانب سے مسجد میں داخل ہونے کی خاطر نکلا تھا۔ نماز اورنفلوں سے فارغ ہوا توایک جانب کو بس کی طرف جانے کے لیے نکل گیا تھا۔ مگریہ تووہ جگہ ہی نہیں تھی جہاں ہماری بس رکی تھی۔ میں گم ہوچکا تھا، بہت تلاش کیا بالآخر ایک سرکاری بوتھ میں داخل ہوا جہاں ایک تن و توش والا عرب لڑکا بیٹھا تھا۔ اسے اپنی بپتا سنائی تو وہ بوتھ بند کرکے میرے ساتھ ہو لیا تھا اورایک بالکل ہی دوسری جانب لے گیا تھا، جہاں مجھے کچھ سمجھ آ گئی تھی اورمیں نے اس کا شکریہ ادا کیا تھا۔ ابھی لوگ بس سے باہرکھڑے چائے پی رہے تھے۔ میں نے چائے پینا مناسب جانا تھا۔ بس چل پڑی تھی۔ کوئی دو ڈھائی گھنٹے بعد ہم ایک جگہ پہنچے تھے جہاں لوگ آرام کرنے اورچائے پینے نکلتے ہیں۔ مجھے ایسے لگا تھا جیسے گھوٹکی سندھ کا کوئی مقام ہوجہاں تھوڑی سی ترقی ہوچکی ہو، وہاں تقریبا” چالیس منٹ رکے تھے کیونکہ بسوں کے ڈرائیوروہاں کھانا کھاتے ہیں۔ بس پھرروانہ ہو گئی تھی۔ ہم رات گئے مکہ میں داخل ہوئے تھے۔ مکہ مجھے فوری طور پراچھا لگا تھا۔ مجھے بڑے شہر ویسے ہی اچھے لگتے ہیں۔ مکہ ایک بڑا شہر تھا۔ جب ایک جگہ پہنچے تو جیپ میں بیٹھ کرآیا ہوا کوئی شخص رشیت حضرت سے ملا تھا۔ بس واپس ہولی تھی۔ معلوم ہوا کہ اپنے آنے کی اطلاع متعلقہ ادارے کودرج کروانی ہے ۔ گلیوں میں بس گھماتے ایک جگہ پہنچے تھے جہاں مکہ خاصا غلیظ اورکوڑے کرکٹ سے اٹا ہوا تھا۔ ایک بارہ تیرہ سال کے بچے نے بس میں داخل ہو کرسب کو کھجوروں کے چھوٹے چھوٹے پیکٹ اورپانی تحفہ کیے تھے۔ پھر کوئی رات ڈیڑھ بجے کے قریب ہم ایک ہوٹل پہنچے تھے۔ یہ ہوٹل مدینے کے ہوٹل سے بھی گیا گذرا تھا۔
مدینہ منورہ میں تاریخی مقامات کی سیر کرواتے ہوئے غالبا” ہمارے “سفرحج” کی انتظامیہ نے ہی عثمان کے منہ سے یہ ایک سے زیادہ بارکہلوایا تھا کہ مدینہ لایا جانا مناسک حج کا حصہ نہیں ہے۔ یہ سفری ایجنسی “سلوٹس” کی مہربانی ہے کہ اس نے آپ لوگوں کو مدینہ دیکھنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ تب میں یہ سمجھا تھا کہ “سلوٹس” اپنی نااہلی پرپردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے۔ حج کروانے والی کوئی بھی سفری کمپنی عازمین کو مدینہ لے جائے بغیر نہیں رہنے دیتی۔ مکہ پہنچ کراس کمپنی کی نااہلی پرمجھ سے پہلے باقی لوگوں نے اورسب سے پہلے خواتین عازمین نے واویلا کرنا شروع کیا تھا۔