یہ کافی اچھی ملازمت تھی لیکن کام لوھے کا تھا اور کافی تھکا دینے والا کام تھا۔اس میں ماہانہ اچھی تنخواہ بن جاتی تھی۔
پاکستان پیسے بھیجنے کا طریقہ بھی بہت آسان تھا۔ یہ کام بھی مبین بھائی کرتے تھے۔ جتنے پیسے پاکستان بھیجنے ھوتے انھیں جاپانی کرنسی ین کی صورت میں جاپان میں ادا کر دیے جاتے اور وہ رقم پاکستانی روپوں میں متعلقہ پتے تک پہنچا دیتے۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس فیکٹری میں سیاست اور گندگی بڑھتی گئی۔ کچھ نئے پاکستانی لڑکے بھی آ گئے تھے۔ فیکٹری کا ماحول کافی خراب ھو چکا تھا۔ پینا پلانا، گالم گلوچ اور دنگا فساد عام ھو چکا تھا۔ اور ڈر لگا رہتا تھا کہ یہ لڑکے خود تو deport ھوں گے ہی، ہمیں بھی پاکستان بھجوا کے دم لیں گے۔ ایجنٹوں نے محض پیسے کی خاطر ایسے ایسے لوگوں کو جاپان پہنچا دیا تھا جو درحقیقت پاکستان میں رہنے کے قابل بھی نہ تھے۔ اور یہ لڑکے پاکستان کی بدنامی کا باعث تھے۔
یونیورسٹی کا میرا دوست سلیم اب بھی جاپان میں تھا اور وہ کئی دفعہ مجھے بلا چکا تھا۔ وہ Toyota سے منسلک ایک چھوٹی سی کمپنی Nakano Kogyoمیں ملازمت کرتا تھا۔ وہ اکثر اپنی کمپنی اور اپنے Boss کی تعریف کرتا۔ اس کی کمپنی میں کل تین پاکستانی تھے۔
یہ کمپنی ایک چھوٹے سے شھر میں تھی جس کا نام Susono تھا۔ اور یہ Shizouka ken نامی صوبے میں تھی۔جب سلیم نے بہت اصرار کیا تو میں نے job بدلنے کے بارے میں سوچ لیا۔اور ارادہ کیا کہ ایک دفعہ اس کی کمپنی ضرور جاؤں گا۔
سلیم کو اپنے منصوبے سے آگاہ کیا۔وہ بہت خوش ھوا۔ میں نے اسے بتا دیا کہ میں فلاں دن آؤں گا۔
خالد بھائی اور دیگر لڑکوں کو جب پتہ چلا کہ میں یہ ملاذمت چھوڑ کر جا رہا ھوں تو اخلاقی طور پر انھوں نے بھی منع کیا۔اسی طرح شمیم بھائی اور حامد نے بھی روکنے کی کافی کوشش کی لیکن میں ارادہ کر چکا تھا۔
اس وقت میں Sagamihara شھر میں رہائش پزیر تھا۔ میں نے ٹرینوں اور بسوں کا شیڈول دیکھا اور اپنے تھوڑے سےسامان کے ساتھ Susono جانے کے لیے روانہ ھو گیا۔ چونکہ مجھے Kanawaga ken صوبے سے shizouka ken صوبے جانا تھا اس لیے میں نے جاپان کی تیز ترین ٹرین، بلٹ ٹرین (Shinkan sen)کا انتخاب کیا۔
یہ ایک انتہائی آرام دہ سفر تھا۔ ٹرین کے اندر محسوس ہی نہ ھو رہا تھا کہ ٹرین 320 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل رہی ھے۔
میں یہاں کے ٹرانسپورٹ کے نظام سے بہت متاثر تھا۔ بسوں اور ٹرینوں کے اوقات میں ایک منٹ کا بھی فرق نہ آتا تھا۔ مجھے Numazu شھر پہنچنا تھا جو shizouka ken کے بڑے شھروں میں سے ایک تھا۔
یہاں Numazu اسٹیشن پر سلیم میرا منتظر تھا۔ یہاں سے ہمیں susono جانا تھا جسے قصبہ کہنا زیادہ مناسب ھو گا۔ ہم نے susono جانے کے لیے ٹرین لی۔ دو اسٹیشن کے بعد ہمارا اسٹاپ تھا۔ یہاں سے بس میں ہمیں katsurayama نامی علاقے میں جانا تھا۔ جہاں سلیم رہائش پزیر تھا۔susono کے چھوٹے سے اسٹیشن سے باہر نکلے۔ جہاں سے بس روانہ ھونے ہی والی تھی۔ ہم دونوں بس میں سوار ھوۓ۔جاپان میں یہ میرا پہلا بس کا سفر تھا۔
بس میں کنڈیکٹر نام کی کوئ چیز نہ تھی۔ بس میں داخل ھوتے ھوۓ اندر لگی ھوئ مشین سے اپنے اسٹاپ کا ٹکٹ نکال لیجیے۔ بسوں میں بھی وقت کی پابندی کا خاص خیال رکھا جاتا ھے جو ایک منٹ بھی لیٹ نہیں ھوتیں۔ ھمیں اسٹیشن سے چوتھے اسٹاپ پر اترنا تھا۔ اسٹاپ سے چند قدموں کے فاصلے پر موجود گلی میں ھمارا اپارٹمنٹ تھا۔ susonao ایک گاؤں تھا لیکن یہاں تمام شھری سہولیات موجود تھیں۔ مختلف علاقوں میں کھیتی باڑی دیکھتا تو مجھے یہ گاؤں لگتا۔ اسی طرح ہمارے اپارٹمنٹ سے کچھ دور بھینسوں کا ایک باڑہ بھی تھا۔ susono گاؤں اور شھر کا ایک خوبصورت امتزاج تھا۔
میں پہلی دفعہ کسی جاپانی اپارٹمنٹ میں داخل ھوا تھا۔اس سے پہلے میں فیکٹریوں ہی میں رہائش پزیر رہا تھا۔ لکڑی سے بنے اس اپارٹمنٹ میں دو کمرے، ایک کھلا ھوا کچن اور ایک باتھ روم تھا۔ سلیم کے علاوہ یہاں دو اور پاکستانی لڑکے آصف اور عامر بھی رہائش پزیر تھے۔شام کو سلیم مجھے قریبی باڑے میں لے گیا جہاں سے ہم نے دودھ لیا۔ سلیم نے اس باڑے کے مالک اور اس کی بیوی سے میرا تعارف بھی کروایا۔
اگلی صبح ہم نے ناشتہ کیا اور فیکٹری کی van کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد van آ گئ۔اپارٹمنٹ سے فیکٹری کا سفر دس منٹ کا تھا۔ فیکٹری پہنچ کر سلیم نے میرا تعارف اپنے Boss سے کروایا۔
اس فیکٹری میں بھی کام کا آغاز ویسے ہی ھوا جیسا کہ گزشتہ فیکٹریوں میں ھوتا تھا۔ کھلے میدان میں تمام ملازمین نے مشترکہ exercise کی۔اور پھر کام کا باقاعدہ آغاز ھوا۔
سلیم نے مجھے سپر وائزر کے حوالے کیا۔اس فیکٹری میں بہت چھوٹی چھوٹی مشینیں تھیں۔اور یہاں مختلف قسم کے بریک اور کلچ پائپوں کے موڑنے کا کام ھوتا تھا۔ یہ پائپ ہاتھ یا مشین سے موڑے جاتے تھے جو Toyota گاڑیوں میں استعمال کیے جاتے تھے۔فیکٹری میں ملازمین کی کل تعداد 70 تھی۔ جس میں خواتین بھی شامل تھیں۔ فیکٹری کے تمام ملازمین بہت مہربان اور خیال رکھنے والے تھے۔
اس فیکٹری میں بھی مجھے تمام مشینوں کی ٹریننگ دی گئ۔ اور چند دنوں میں مجھے تمام مشینیں operate کرنا آ گئیں۔ اس فیکٹری میں کام کے اوقات صبح 8 سے شام 7 بجے تک کے تھے۔
چند روز بعد آصف اور عامر دوسرے اپارٹمنٹ میں شفٹ ھو گۓ۔ اب میں اور سلیم اس اپارٹمنٹ میں رہتے تھے۔
میں نے اور سلیم نے کام تقسیم کر لیے تھے۔ ناشتے میں پراٹھے اور روٹیاں بنانے کی زمہ داری میری تھی۔ روزانہ سالن بنانا سلیم کی زمہ داری تھی۔ کبھی کبھار میں توے پر سوجی کا حلوہ بھی بنا لیتا۔اسی طرح ہم نے صفائی کے حوالے سے بھی کام تقسیم کر رکھے تھے۔اب مجھے روز مرہ بولنے والی جاپانی زبان آ چکی تھی۔
اتوار کو چھٹی والے دن میں حسب معمول صبح اٹھتا۔ اپنا کیمرہ ، ایک نوٹ بک اور کچھ کھانے پینے کا سامان بیگ میں ڈال کر نکل جاتا۔ میں اکثر Numazu جاتا۔ کسی کافی شاپ میں بیٹھ کرپاکستانی اخبار جنگ کے لیے مضامین لکھتا۔
یہ بھی اتوار کی ایک صبح تھی۔ میں کافی کی چسکیاں لیتے ھوۓ اپنا مضمون لکھنے میں محو تھا۔ میرے کانوں میں آواز آئی۔? Can I join you۔۔میرے سامنے ایک انگریز لڑکی کھڑی تھی ، میں نے کہا ، ! yes, sure
اس نے بتایا کہ اس کا نام Beth ھے اور اس کا تعلق امریکہ سے ھے۔
اس نے مجھ سے میرا نام پوچھا اور کہا کہ اگر میں تمہیں Ash کے نام سے پکاروں تو آپ mind تو نہیں کریں گے ؟ ( جاری ھے)