اس سے روشن ستارا نہیں دیکھا
امید کا بہتر استعارہ نہیں دیکھا
بیتے ہیں کئی دن پسِ دیوارِ بیت
فصلِ گل کو دوبارہ نہیں دیکھا
بجھی یادوں کے چراغ ٹمٹما اٹھے
ایسا تیرگی میں نظارہ نہیں دیکھا
کب سجیں محفلِ یاراں نہ جانے
کوئی ساتھی سجن پیارا نہیں دیکھا
ادھ کھلے کواڑ میں رخِ زیبا کہاں
کوئی پری وِش سرِ چوبارہ نہیں دیکھا
ADVERTISEMENT
منبر ہیں گمُ سم اور ویراں میکدے
ایسی وحشت کا یوں اجارا نہیں دیکھا
بھوک بڑھی تو دام بڑھا دیے سیٹھ نے
کرداروں میں اتنا خسارہ نہیں دیکھا