Warning: Undefined array key 1 in /home/d10hesot7wgn/public_html/wp-content/themes/jnews/class/ContentTag.php on line 86
ہمارے ملک میں ہر مسئلہ کو سیاسی اور مذہبی تناظر میں دیکھے جانے کی روش بہت عام ہے اور اس سے بڑی تشویشناک صورتِ حال یہ ہے کہ ہر مسئلہ سے منسلک سیاسی اور مذہبی مفادات کے ضمن میں مناقشات بھی کھڑے کیے جاتے ہیں صورتِ حال یہاں تک ہو جاتی ہے کہ اس دوران کوئی آدمی سچے اور کھرے خواب بھی لے آئے تو اسے مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے اور دوسرا مسئلہ دانش گردی کا ہے یہاں ہر کوئی اپنے آپ کو ہر شعبہ زندگی کا رہبر سمجھنے لگتا ہے جب کہ زندگی مختلف شعبوں میں منقسم ہے اور اس کے ہر شعبے کے ماہرین بھی موجود ہے برصغیر میں ایک دور تھا جب ریاضی، منطق، دین اور طب علوم مدارس میں پڑھائے جاتے تھے تو وہی کا فارغ التحصیل ان سب معاملات کو ڈیل کرتا تھا مگر اب علوم کی حدود پھیل چکی ہیں اب فلسفہ سائنس ادب طب اور دین کے الگ الگ ادارے اور شعبے معرضِ وجود میں آچکے ہیں اگر غور کیا جائے تو علم کے دو شعبے ہیں ایک روحانی اور اخلاقی اعتبار سے بنی نوعِ انسان کی راہ نمائی کرنا جس کا تعلق وحی اور الہام سے ہے اور ایک مابعدالطبیعاتی قوت سے رجوع ہے اور دوسرا شعبہ انسانی وجود کے بقا اور مادی اسباب کی تخلیق سے ہے اور اس دوران ہم اخلاقی اور معاملاتی راہنمائی دین سے لیتے ہیں مگر اپنی ماہیت میں یہ شعبہ وحی اور الہام کی بجائے عقلِ انسانی پر منحصر ہے جس کا قرآن میں بارہا ذکر ہے ہماری اجتماعی سوچ کا ایک تیسرا طبقہ بھی ہے جو یہ سب جاننے کے بعد صرف لُچ تلتا ہے میں نے لُچ تلنے کا محاورہ استعمال کیا ہے تو اس کی وضاحب بھی کردوں تاکہ ایک بھدا لفظ معنوی اہمیت آشکار کر سکے روایت ہے کہ ایک دیہاتی شہر میں میلہ دیکھنے آیا اور اپنے ساتھ دوپہر کا کھانا بھی لے آیا جو گُڑ والی ایک روٹی تھی میلے میں گھومتے ہوئے وہ ایک حلوائی کو کڑائی میں کچھ تلتے ہوئے دیکھ کر اس کے پاس جاتا ہے اور پوچھتا ہے کہ یہ کیا تل رہے ہو حلوائی نے بتایا لُچیاں ( گُڑ اور میدے کی چھوٹی چھوٹی ٹکیاں ) تل رہا ہوں دیہاتی نے فوراً اپنے پاس سے گڑ والی موٹی سی روٹی نکالی جو سائز میں لُچیوں سے گئی گناہ بڑی تھی اور حلوائی سے کہنے لگا بھائی اپنی لچیاں بعد میں تلنا پہلے یہ میرا لُچ تل دو تب سے لُچ تلنے کا محاورہ عام ہوا جس کا مطلب ہے اصل بات یا موضوع سے ہٹ کر کوئی اور بات شروع کر دینا
ہمارے ملک میں دانش گردی کا بھی یہی حال ہے ایک طرف ملک کسی سنگین مشکل کا شکار ہوتا ہے دوسری جانب ہم اپنے اپنے مفادات کے لُچ تلنے پر بضد ہوتے ہیں اس وقت پوری دنیا کویڈ 19 وائرس کے مہلک اثرات کا سے نمٹنے کی کوشش میں سرگرداں ہے مہلک وائرس تقریباً ہر ملک میں پنجے گاڑ چکا ہے اور کئی انسانی جانیں نگل چکا ہے اور اس کی روک تھام میں کوئی حربہ گارگر ثابت نہیں ہو رہا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی ناکام ہے اور انسان بے بس ہے مگر ہمارے ہاں ہر روز ایک نئی بحث شروع ہو جاتی کے کبھی ہم اسے یورپ کی بے حیائی سے منسوب کر کے عذابِ الہی قرار دیتے ہیں کبھی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے ایک پروپیگنڈا کہتے ہیں کبھی کینیڈا اور اسرائیل کی شراکت سے چین کے شہر ووہان میں کرونا وائرس لے جاتے ہیں کبھی بیالوجیکل وار کا نام دیتے ہیں اور سب سے زیادہ جس بات کا سامنا ہے وہ مذہبی علما کی طرف سے سماجی فاصلوں اور مذہبی اجتماعات اور مساجد میں اکٹھ کی صورت میں جنم لے رہا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ کہ مساجد کے علاوہ بھی ہجوم بن رہے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا اجتماعی لاشعور مسجد کے امام کی بات کو زیادہ سختی سے مانتا ہے تو علماء کرام سے اس بارے بھرپور تعاون کی توقع ہے جو کم نظر آرہی ہے علماء اگر کرونا کو غیر مسلموں کی سازش قرار دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کی عبادت گاہیں اور مذہبی ہجوم بند کیے جائیں تو سنگین اس صورتِ حال میں پوری دنیا کے ہر مذہب کے اجتماع رک گئے ہیں ایسٹر پر کوئی ہجوم نہیں دیکھا گیا اٹلی جو عیسائیت کا گڑھ ہے سارے معبد ویران پڑے ہیں اور اگر یہ سازش ہی ہے تو آپ چند دن اجتماعات محدود اور موقوف کر کے غیر مسلموں کی سازش کو ناکام بنائیں اور دوسری بات کہ غیر مسلموں کو ہماری عبادت گاہیں بند کرنے سے کیا غرض ہے ؟ آج اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی کی صدی ہے معیشت سے جنگیں لڑی جا رہی ہیں ویسے بھی صدیوں پہلے انسان وباؤں کا شکار ہوتا رہا ہے جب سائنس اور ٹیکنالوجی نے ترقی نہیں کی تھی اور وائرسز لیبارٹریوں میں تیار نہیں ہوتے تھے ایک زمانے میں کوڑھ اور طاعون کی خطرناک وبا لاکھوں لوگوں کو لقمہ اجل بنا گئی تھی تیرھویں اور سولہویں صدی میں طاعون کی وبا سے یورپ میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کا ذکر ملتا ہے 1666ء میں برطانیہ میں طاعون کی وبا سے ایک لاکھ انسان لقمہ اجل بنے انیسویں صدی کے آغاز میں ہیضہ کی وبا ہزاروں انسانی جانوں کے ضیاع کا باعث بنی 1918-1920 کے دوران اسپینش فلو کو خطرناک ترین وبا قرار دیا گیا ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وبا نے دنیا کے ہر تیسرے آدمی کو متاثر کیا ہے اس کے علاوہ چیچک خسرہ جذام پولیو وغیرہ کی وبائیں کرونا سے زیادہ خطرناک رہی ہیں اور اس دوران بھی ضرورت کے تحت حج موقوف کیے گئے ہیں میری تحریر کا مقصد ان مفروضات اور وباؤں کی تاریخی داستان سنانا نہیں ہے میرا مقصد اس سنگین صورتِ حال سے کیسے جنگ لڑنا ہے اس پر کچھ معروضات پیش کرنا ہے
کورونا کے مریضوں میں روز بروز اضافے نے عالمی دنیا کو بے بس کردیا ہے سپین ایران امریکہ اٹلی اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے ہیں سائنس اور ٹیکنالوجی بے بس نظر آرہی ہے تمام طبی ماہرین کے مطابق اس وبا سے نجات کا ایک ہی چارہ ہے اور وہ صفائی۔ سماجی دوری اور جسمانی فاصلے ہیں چین نے ووہان میں مکمل لاک ڈاون کر کے کرونا کی جنگ جیت لی ہے لیکن ہماری طرح امریکہ اور یورپ نے اس کی ہولناکی کو نہ سمجھا جس کا نتیجہ آج ہزاروں جانوں کے ضیاع کی صورت میں بھگت رہے ہیں پاکستان میں بھی کرونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور ایک طبقہ لاک ڈاون کا مذاق اڑا رہا ہے اور دوسرا مذہبی اجتماعات پر تاویلیں پیش کرنے میں مصروفِ عمل ہے پہلے طبقہ کو دیکھ کر حضرت نوح علیہ السلام کی قوم یاد آتی ہے حضرت نوحؑ کو آنے والے طوفان کا علم قبل ازوقت دے دیا گیا تھا اور کہہ دیا گیا تھا کہ وہ اس سے بچنے کیلئے کشتی بنا لیں۔ وہ اپنے مخالفین کے سامنے کشتی بنانے میں مصروف تھے لیکن مخالفین انکی ہر بات کو غلط سمجھتے۔ الٹا ان کا مذاق اڑانے لگے بالکل ایسے ہی جیسے ایک گروہ احتیاطی تدابیر اپنانے والوں کا مذاق اڑاتا ہے اور عذاب کے آنے کا منتظر ہے چنانچہ سیلاب اپنے وقت پر آیا حضرت نوحؑ اور ان کی جماعت اس کشتی کے ذریعے اس تباہی سے محفوظ رہ گئے اور باقی قوم غرق ہو گئی جو قوم اپنے نظم و نسق کو درست رکھے وہ اس قسم کے نقصانات سے محفوظ رہ سکتی ہے اور جو قوم عذابِ الہی میں بھی لاپروائی اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرے وہ ہمیشہ تباہ ہوتی ہے دوسرا طبقہ باخبر ہونے کے باوجود اپنی حیثیت کا لُچ تل رہا ہے جب کہ وبا کے دنوں میں شریعت میں مکمل احکامات موجود ہیں دینِ اسلام عین فطرت کے مطابق ہے اور اس وقت فطرت کا تقاضا انسانی بقا ہے لہذا مکمل لاک ڈاون اسلام کی روح کے خلاف نہیں ہے اور دوسری بات اسلام احکامات میں نرمی کا حکم دیتا ہے بیماری کی حالت میں روزے کے فرض میں رعایت ہے عذر کی صورت میں نماز پڑھنے کا حکم ہے مگر نماز کے لوازمات میں رعایت ہے بیماری کی صورت میں وضو کی بجائے تیمم کا حکم ہے اور ان سب سے بڑھ کر بخاری شریف میں ایک حدیث ہے کہ ایک ٹھنڈی اور برساتی رات میں حضرت عبداللہ ابن عمر نے آذان دی اور حی علی الصلوۃ کی بجائے الاصلو فی الرحال پکارا تھا جو اسلام لہسن اور پیاز کی بدبو کی صورت میں مسجد آنے کی ممانعت کرتا ہے تاکہ دوسرے نمازیوں پر اثرات نہ پڑیں وہ کرونا جیسے موذی وائرس کے لیے نرمی نہیں رکھے گا اس کے علاوہ بے شمار احادیث ہیں جن میں وبا کے دوران سماجی اور جسمانی فاصلوں کا حکم موجود ہے یہاں معترض تاویل پیش کرتے ہیں وہ وبا سے متاثرہ افراد سے دوری کا حکم ہے ان کے لیے اطلاع ہے کہ کویڈ 19 کی صورتِ حال عام وباوں سے کچھ مختلف ہے یہ دس سے پندرہ دنوں میں علامات ظاہر کرتا ہے اور خود کو بھی علم نہیں ہوتا کہ میں کویڈ 19 سے متاثر ہو چکا ہوں ایسے میں علامات ظاہر ہونے تک کئی افراد کو ایفیکٹ کر چکا ہوتا ہے حکومت نے مساجد اور دینی اجتماعات پر لاک ڈاون اس لیے کیا ہے تاکہ معزز نمازیوں کو وبا سے متاثرہ افراد سے محفوظ رکھا جائے نہ کہ مساجد بند کرنے کے لیے اور حکومت نے باجماعت نماز کو موقوف نہیں کیا بلکہ محدود کیا ہے تین سے پانچ افراد پر مشتمل باجماعت نماز ادا کی جائے اور باقی عبادات گھروں میں ادا کی جائیں قرآن پاک میں چیونٹی کا واقعہ تو سب نے سنا ہو گا جب چیونٹی نے خطرہ محسوس کیا
تو دوسری چیونٹیوں سے کہا:
اپنے اپنے بِلوں میں گُھس جاو۔(سورة النمل)
اور ہم اشرف المخلوقات ہیں اللہ نے ہمیں عقلِ سلیم سے نوازا ہے اور اپنی مقدس کتاب میں جگہ جگہ اشارے بھی دیے ہیں ہمیں چاہیے کہ اس خطرناک وبا کا متحد ہو کر مقابلہ کریں اور اختلافات کو ختم کر کے حکومت کا ساتھ دیں تاکہ اس موذی وائرس سے بچا جا سکے ورنہ یہ افراد میں اس قدر سرایت کر جائے گا کہ حکومت کچھ نہیں کہے گی ہم خود ایک دوسرے سے دور ہو جائیں گے اور یہ اجتماعات ایک لمبے عرصے تک ختم ہو جائیں گے ایک عالم کو کبھی ان پڑھ اور جاہلوں سے موازنہ نہیں کرنا چاہیے کہ فلاں جگہ پر بیٹروں کی لڑائی میں ہجوم ہے فلاں جگہ پر کھیلوں کے میدان کچھا کھچ بھرے ہیں حکومت نے ہر جگہ کے ہجوم پر پابندی عاید کی ہے صرف مساجد پر نہیں کی گئی لہذا ہم اپنے اردگرد لوگوں کی راہ نمائی کریں اور انھیں اس وبا کے مہلک نتائج سے باخبر کریں تاکہ تمام انسانوں کی بہتری ہو سکے