آسٹریلیا کی جیت پر خالی اسٹیڈیم اور نریندی مودی کی بدن بولی نے دنیا کو زبان دے ڈالی، بھارت ورلڈ کپ ہی نہیں عزت بھی گنوا دی
میں ایک اچھا اسپورٹس مین اسپرٹ رکھنے والا انسان دوست آدمی ہوں اس کے باوجود مجھے احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں نریندر مودی کے سامنے ورلڈ کپ میں بھارت کی شکست پر خوشی ہوئی اس خوشی کا سبب کوئی حسد جلن نہیں ہے بلکہ ایک بڑے ملک کی چھوٹی حرکتوں پر کتھارسس ہے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا پردہ تو کب کا مقبوضہ کشمیر، مانی پور، ناگالینڈ اورجھاڑ کھنڈ میں چاک ہوگیا تھا۔ رہا سہا بھرم اقلیتوں کے ساتھ روا رکھنے جانے والے سلوک سےکھل گیا۔ پھر بھی بھارت نے دکھاوے کو ہی سہی اسپورٹس مین اسپرٹ کے غبارے میں ہوا بھر کر اسے دنیا کے سامنے رکھ چھوڑاتھا۔ اس ورلڈ کپ میں وہ غبارہ بھی دنیا کے سامنے بلاخرپھوٹ گیا بلکہ یہ کام بھی بھارت نے خود ہی کیا۔
سوچیں ذرا! کرکٹ کی دنیا کا سب سے ایونٹ ہو آپ میزبان ہوں اور آپ کی ٹیم کو مہمان ٹیم اپنے شاندار کھیل سے آؤٹ کلا س کردے توفطری دکھ پر اپنی جگہ لیکن کرکٹ سے محبت کرنے والے شائق کی حیثیت سے ان لمحات سے محظوظ بھی تو ہوا جاتا ہے۔ اس کے بجائے اپنے اندر کی بھڑاس مہمانوں کے سامنے نکال دیں ؟ میچ ختم نہ ہو لیکن امیدوں کے بجھتے دیپ دیکھ کر کرکٹ سے محبت کا اظہار کرنے والے میدان چھوڑ کرجانا شروع کردیں تو یہ وسعت نہیں وہی تنگ نظری ہے جس کے لئے بھارت دنیا میں پہچانا جانے لگا ہے ۔
مانتے ہیں کہ انڈین ٹیم ورلڈ کپ کی فیورٹ ٹیم تھی۔ اس کا شمار اب بھی دنیا کی بہترین ٹیموں میں ہوتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود بھارتی کرکٹ بورڈ نے چھوٹی حرکتیں کیں اور ورلڈ کپ کو انڈین پریمئر لیگ بنا دیا۔
یہ بھی پڑھئے:
انیق احمد نے حج اخراجات میں کمی کا کارنامہ کیسے کیا؟
جناب سہیل وڑائچ کی مہا بھارت اور سینیٹر عرفان صدیقی
مینا کماری کو اپنوں نے کیوں لوٹ کھایا؟
ایل ایل بی کے تعلیمی نصاب کو نصاب کیوں تسلیم نہیں کیا جا سکتا؟
انڈین بورڈ اور ٹیم مینجمنٹ نے باقاعدہ پلاننگ کے ساتھ مختلف ٹیموں کے لئے مختلف پچز منتخب کیں اور اپنے اہم میچز کے لئے من پسند پچوں کا انتخاب کیا۔ پاکستان کا افغانستان کے ساتھ میچ اسپنرز کی جنت چنائی میں رکھا گیا اور آسٹریلیا کے ساتھ میچ بنگلورو میں رکھا گیا۔ انڈیا نے افغانستان کے ساتھ اپنا میچ چنائی میں نہیں رکھوایا۔ جس کی وجہ ظاہرہے وہ افغان اسپنرز کی گھومتی گیندوں کا سامنا وہاں کرنا نہیں چاہتا تھا۔ اب یہ سامنے آچکا ہے کہ پچیں بھی بدلی گئیں اور پہلے سے طے شدہ پچ کے بجائے مختلف پچیں چنی گئی، خاص کر سیمی فائنل اور فائنل میں بھی ایسا ہی ہوا۔
ٹورنامنٹ کے سب سے بڑے اور اہم میچ یعنی فائنل کو سب سے زیادہ سنسنی خیز اور دلچسپ ہونا چاہیے تھا اچھا بیٹنگ ٹریک ہوتا اچھی پچ ہوتی تو 300 سے زیادہ اسکور ہوتا اور میچ یادگار بنتا انڈیا نے جان بوجھ کر استعمال شدہ خشک پچ پر فائنل رکھا۔ جہاں اسپنرز کو فائدہ پہنچے اور ریورس سوئنگ بھی ہو۔ ان کا محمد شامی وکٹیں اڑائےاور بمرا بلے بازوں کو باندھ کر رکھے۔
ان کا خیال تھا کہ ایسی پچ پر وہ آسٹریلیا کو آؤٹ کلاس کر دیں گے لیکن وہ خود اپنے بچھائے ہوئے دام میں آگئے ، کینگروز میں سے ٹراوس ہیڈ نے روہت شرما کا کیچ ہی نہیں پکڑا میچ پکڑ کر اپنی طرف کھینچ لیااس طر ح کے کیچز کرکٹ کی آرکائیو میں رکھے جاتے ہیں کہ آنے والے کرکٹر دیکھیں اور سیکھیں ۔
بھارتی آسٹریلوی کپتان کو ہلکا لے بیٹھے۔ ٹاس جیت کر بھی پہلے بیٹنگ کا فیصلہ اتنا درست نہیں تھا۔ پاور پلے کا زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کے چکر میں اپنی تین وکٹیں گر ا بیٹھے اورپورے ٹورنامنٹ میں پہلی بار انڈین بیٹنگ دباؤ میں آئی۔ ایسے آئی کہ ڈھیر ہو گئی۔ انڈین کپتان روہت شرما ان چھل بازیوں میں برابر کا شریک رہے ہیں۔ ان ہی کے مشوروں سے پچیں بدلی گئیں اور بنائی جاتی رہیں۔ ان بھونڈے حربوں کے ساتھ بھارتیوں کا پاکستان کے ساتھ رویہ کسی طرح دوستی کے رشتے کھیلوں کے ناتوں والا نہ تھا۔ اس نے ہمیں ویزے نہیں دیئے۔ میڈیا کمپین کے ذریعے وہاں پہنچنے والی زینب عباس کو واپس جانے پر مجبور کیا اورمیچ کے دوران پوری کوشش کرتے رہے کہ تماشائیوں سے پاکستان کو کسی بھی طرح کی حوصلہ افزائی نہ ہو۔ ہمارے گیت ان کے میوزک سسٹم سے دور رہے۔ پھر افغانستان سے شکست پر جس طرح سابق بھارتی کھلاڑی عرفان نے کمنٹری چھوڑ کر کیمروں کے سامنے رقص کرتے پائے گئے وہ نرم سے نرم لفظوں میں بھی چھچھور پن تھا۔ وہ غیر جانبدار رہتے کہ کمنٹری کر رہے تھے لیکن ان سے رہا نہ گیا ۔ وہ اپنا لچ تلنے آگئے۔ اس چھچھور پن نے پاکستانی شائقین کو شدید بدمزہ کیا اورپھر اس بدمزگی کو فائنل میں آسٹریلیا کے جاندار کھیل نےدور کردیا۔ اب باری بھارتیوں کی ہے اور وہ ایک عرصہ مرچیں چباتے ملیں گے۔ اچھا ہوتا کہ بھارت اوپرے دل سے ہی آسٹریلیا کے لئے تالیاں بجا لیتے۔ اسپورٹس مین اسپرٹ کے صدقے رہی سہی عزت تو رہ جاتی اب تو وہ بھی گئی۔