محمدعاطف علیم بہترین ناول وافسانہ نگارہیں۔انہوں نے اپنے پہلے ناول”مشک پوری کی ملکہ” سے قارئین کے دلوں پراپنے قلم کی دھا ک بٹھادی تھی۔ایک زخمی مادہ گلدارکی اپنی اوراپنے بچوں کی جان بچانے کی جدوجہدپڑھنے والوں کوایک عجیب سنسنی میں مبتلاکردیتی ہے اوروہ کتاب شروع کرنے کے بعداسے ختم کیے بغیرچھوڑہی نہیں پاتا۔ایک جانورکی نفسیات کاایسابے مثال بیان اس سے قبل اردوادب میں سید رفیق حسین کے افسانوں میں ہی کیاگیاتھایا سیدمحمداشرف نے اپنے ناولٹ”نمبردارکانیلا”میں کیاتھا۔ ”مشک پوری کی ملکہ”پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتاہے کہ سیدرفیق حسین ثانی کاجنم ہوچکاہے۔
”مشک پوری کی ملکہ” کے بارے میں بھارت کے مشہورناول وافسانہ نگارسیدمحمداشرف کاکہناہے۔”مشک پوری کی ملکہ میں شہر،جنگل، انسان ،انسانی جذبے،جانور،محبت اورنفرت کی جزیات نگاری کمال کی ہے اوراس سے بڑاکمال یہ ہے کہ یہ جزویات نگاری اشیاء کی کھتونی نہیں بلکہ قدم قدم پرکہانی کوسہارادیتی ہوئی آگے بڑھتی ہے۔جم کاربٹ اورسیدرفیق حسین کومیں نے تفصیل سے کئی کئی بارپڑھاہے۔یوں میں اعتماد سے کہہ سکتاہوں کہ جنگل کااتناسچااورخوبصورت بیان میں نے اردوادب میں اس سے قبل کہیں نہیں پڑھا۔جنگل کی تفصیل سے متعلق کچھ پیراگر اف تواتنے خوبصورت ہیں کہ آنکھ بندکرکے انہیں تصورکرتے ہوئے تادیراسی حالت میں رہنے کوجی چاہتاہے۔طویل مدت تک عمیق مشاہد ے کے بغیریہ دولت حاصل نہیں ہوتی۔یہ سب سازوسامان میسرآبھی جائیں تودل کی آگ کے بغیروہ معرکہ وجود میں نہیں آتاجواس کہانی کے ذریعے وجود میں آیاہے۔”
محمدعاطف علیم نے اپنی کہانیوں کے پہلے مجموعے”شمشان گھاٹ” کے بعد ہی اپنی منفردخلاقیت کومنوالیاتھاجس پران کے ناولوں”مشک پوری کی ملکہ” ،”گردباد”اورافسانوں کے مجموعے”شہرنامطلوب” نے مہرتصدیق ثبت کردی ۔ان کے فن کی انفرادیت یہ ہے کہ وہ قلم سے نہیں موقلم سے لکھتے ہیں کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہماری آنکھوں کے سامنے ایک تصویرسی کھنچ جاتی ہے اوروہ واقعہ نہیں سناتے بلکہ ستارپرکچھ مانوس اورکچھ نامانو س راگوں میں کمپوزکی ہوئی دھن چھیڑدیتے ہیں جوہمیں اپنی دیکھی بھالی دنیاسے کہیں دورلے جاتی ہے اورجب کہانی کابہاؤمکمل ہوتاہے توہم وہ نہیں رہتے جوکہانی پڑھنے سے پہلے تھے۔ہماراکہانی کارایک جزیرے کی مانند جیاہے،تنہاتنہا،الگ الگ۔اس سے جہاں ایک نقصان ہواہے کہ وہ اپنی لابی نہیں بناسکاوہاں ایک فائدہ بھی ہواہے کہ وہ عام ذوق اوررائج تقاضوں سے لاپرواہ رہتے ہوئے خالصتاًاپنا رنگ جمانے میں کامیاب رہاہے۔ان کی کہانیوں کے مجموعے کی ہرکہانی اپنی جگہ منفردہے مگراس کے ساتھ ہی یہ تمام کہانیاں ایک داخلی ربط کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ۔ یہ داخلی ربط ہے ان کاحقیقت اورخواب کوایک دوسرے کے ساتھ یوں خلط ملط کردینے کااندازکہ انہیں ایک دوسر ے سے جداکرناممکن نہیں رہتا۔یہ ارتباط اوران کی ڈکشن پرچھائی دھنداساطیری فضااورعصری حقائق کی آمیزش سے تشکیل پاتی ہے۔”شہرِ نامطلوب” میں شامل کہانیوںکازمانہ دودہائیوں پرمحیط ہے یہی وجہ ہے کہ اس تمام عرصے کے دوران قومی اوربین الاقوامی سطح پروقوع پذیرہونے والے واقعات اوربدلتی ہوئی سیاسی اورسماجی کروٹیں ان میں صاف دیکھی جاسکتی ہیں۔
”شہرنامطلوب” میں گیارہ کہانیاں ہیں۔جن کے عنوانات سے ہی ان کی انفرادیت کااندازہ کیاجاسکتاہے۔جیسے”جاگنے کوملادیوے خواب میں”،”لاوقت میں ایک منجمدمسافت”،”شہرِنامطلوب”،” مرگ بردوش”،”طربیہ خداوندی جدید”،”بیان اک ناقابل بیان کا” ، ”دھندمیں لپٹاہوالایعنی وجود”،”گمشدہ لوری کی بازیافت”،”ایک ناگزیربلاوے کی روداد”،”خواب راستے پرتھمے قدم” اور”کچھ دیرغا لب کے ساتھ”۔ان میں سب سے طویل کہانی بیس صفحات پرمحیط ہے۔صریرپبلیکیشنزنے اپنے پہلے ہی سال میں بہترین ناول،افسانے، شاعری اورتنقیدکی کتب شائع کی ہیں۔”شہرِنامطلوب”بہترین سرورق،عمدہ کتابت،معیاری پرنٹنگ،شاندارجلدبندی سے آراستہ ایک سو ساٹھ صفحات کی کتاب کی قیمت چارسونوے روپے بہت مناسب ہے۔
ناول ”گردباد” مثال پبلشرزفیصل آباد نے شائع کیاہے۔دوسونوے صفحات کاناول بہترین کتابت،جلدبندی اورسرورق سے آراستہ ہے اوراس کی قیمت چارسوروپے موجودہ دورمیں کافی کم ہے۔ شاعراورناول نگاراختررضاسلیمی ”گردباد”کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ”گرد باد ” کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اسے جوایک بارپڑھناشروع کردے وہ اسے چھوڑنے جوگانہیں رہتا۔ناول نگاری کے فن پر عاطف علیم کی گرفت قابل داد ہے۔اگریہ گرفت کمزورہوتی تواندیشہ تھاکہ یہ ایک عام سی کہانی بن کررہ جاتا۔انھوں نے جس طرح ایک عام کہانی کوناو ل کی بلندی پرفائزکیا،وہ انتہائی متاثرکن ہے۔انھوں نے کردارنگاری ،منظرنگاری اورماحول نگاری کے ذریعے ایک ایسی فضاتشکیل دی ہے جوناول کے اختتام کے بعدبھی قاری کوگھیرے رکھتی ہے۔
منیرفیاض ناول کے بارے میں لکھتے ہیں۔”گردبادکے ذریعے عاطف علیم نے ایک بہت بڑا اجتماعی قرض چکادیا۔آمریت کے دورجبر کے دوران معاشرے میں ظلم کے ذریعے کی جانے والی منفی تبدیلی کے خلاف ادبی سطح پرآوازبلندکرنے کاقرض۔انہوں نے گنتی کے چند کردا روںکی مددسے پورے معاشرے کواندرسے باہرکھنگال کے رکھ دیاہے۔عاطف علیم نے اس ناول کے ذریعے دکھایاہے کہ روایتی پلاٹ میں ابھی بہت امکانات موجودہیں جنہیں کشادہ نظری کے ساتھ دریافت کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔یہ فن مغرب میں گارسیامارکیزاور میلا ن کنڈیراجیسے ادیبوں کے ہاں توملتاہے مگراردوکے بیشترادیب ابھی تک یک رخے بیانیہ کی روایت ہی کے اسیرہیں۔ان کی تحریرپولی فونک اندازکے قریب ہے جس میں روایتی بیانیہ کے اندرنفسیاتی بیانیہ ہم آہنگ ہوتاہے اورساتھ ساتھ شاعری،تاریخ،جغرافیہ،سیاسیات ، وغیرہ کاامتزاج بھی ہے۔کچھ جگہوں پرہمیں جادوئی حقیقت نگاری کے اثرات بھی نظرآتے ہیں جیساکہ نیلی چڑیاوالے منظرہیں۔مگرسب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم عاطف علیم پرپہلے سے موجودکسی فنی،فکری نظریے کی مہرنہیں لگاسکتے۔ان کافن سراسراپناہے۔”
”گردباد” کے دومرکزی کردارموجوموچی اورشموکنجری۔یہ دونوں اردوکے ادب کے لازوال کرداروں میں شمارہوں گے۔ان کے ساتھ چراغامراثی بھی عمدہ کردارہے۔محمدعاطف علیم کی کردارنگاری کمال کی ہے۔ان کے کردارہمارے معاشرے کے جیتے جاگتے کردارہیں جنہیںہرشخص اپنے اردگردچلتے پھرتے دیکھ سکتاہے۔ان کرداروں کی تشکیل بھی اس اندازسے کی گئی ہے کہ قاری انہیں فلم کی ماننددیکھ سکتا ہے۔ ناول کے دیگرکرداروں کوکوئی نام دینے کے بجائے ،چودھری فلانا،چودھری ڈھمکانااورچھوٹے میاں صاحب ،بڑے میاں صاحب کہاگیاہے۔یہ ایک دلچسپ علامتی اندازہے کہ جبراورظلم کاکوئی نام نہیں ہوتا۔ہرظالم کوپڑھنے والابخوبی جانتااورپہچانتاہے۔
”گردباد”کوچارحصوںمیں تقسیم کیاگیاہے۔مصنف نے حصہ اول کاآغازجس جملے سے کیاہے،وہ قاری کوجکڑلیتااورآگے کااحوال جاننے پرمجبورکردیتاہے۔”صدیوں کاجماجمایاڈیرہ تھاجوبکھراتویوں کہ تنکے کوتنکے کی خبرنہ رہی۔”
پڑھنے والے کاتجسس اسے یہ جاننے پرمجبورکرتاہے کہ کونساصدیوں کاجماجمایاڈیرہ تھاجویوں بکھرگیااورکیوں؟ صرف ایک روزپہلے موجو موچی کاوطن کوٹ ہراتھا۔ایک چھوٹی سی دنیاجوایک سمجھ میں نہ آنے والے والی لاتعلق سفاکی سے ساتھ اس کی اپنی تھی۔اس دنیاسے باہرجو کچھ تھاایک سنی سنائی بات کے سواکچھ نہ تھا۔اس کاباپ،اس کے باپ کاباپ اورپھراس کاباپ،جانے کتنی پیڑھیاں اس چھوٹے سے گاؤں کی مٹی چاٹتے مٹی ہوگئیں۔وہ سب یہیں پیداہوئے اوریہیں اگلے دیس کوسدھارے۔ان میں کوئی اس سابدنصیب نہ ہواکہ جیتے جی اپنے دیس سے نکالاجاتا۔
”موجوموچی کی رودادکاآغاز 304ڈاؤن پسنجرٹرین کے تیسرے درجے کاکمپارٹمنٹ سے ہوتاہے۔اس کے ساتھ اس کاتیرہ چودہ سالہ بیٹا حمیدا اورایک عورت جومیلی چادرمیں منہ چھپائے گٹھری بنی اس کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔یہ عورت اس کی بیوی اوراس لڑکے کی منہ بولی ماں تھی۔گزری راتو ں کے جگراتے اورپامالی نے گاڑی کے دھچکوں کے ساتھ مل کراسے بھوسے کی مانندکھایاہواوجودبنارکھاتھا۔اس عورت کا ہلاک شدہ وجود اس قدرطویل سفرکے قابل نہ تھا۔ ایک توتھکن اورپھرنیندجواس قدرٹوٹ کراس پرچھائی تھی کہ اصولاً اس وقت اسے آرام دہ بسترپرہونا چاہئے تھایاکسی مہربان قبرکی گہرائیوں میں لیکن وہ کم نصیب سفرکے جبرمیں تھی۔اس طورکہ اس کی ایک آنکھ جاگ رہی تھی اوردوسری سورہی تھی۔تھرڈکلاس کمپارٹمنٹ کی لکڑی کی کٹھورسیٹ کے مارے اس کے بدن کی دکھن اسے سسکاردیتی تب وہ کراہوں کو دبانے کیلیے اپنے ہونٹو ں کوبھینچ لیتی اوراپنے بدن میں کچھ اورگہرااترجاتی۔وہ جواس عورت کے ساتھ والاتھاکچھ اسی کی مانندایک ہلاک شدہ وجودتھا۔وہ بھی بھو سے کی مانند کھایاہوااورانگ انگ سے دکھاہواتھا۔”
یہ موجوموچی اورشموکاابتدائی تعارف ہے جوناول میں بیان کیاگیاہے۔ان پرجوالمیہ گزرا،اور وہ جن کٹھنانیوں سے گزرکرٹرین کے اس ڈبے تک پہنچے ۔اسے رفتہ رفتہ فلیش بیک تیکنیک میں بیان کیاگیاہے۔بیانیہ میں جادوئی حقیقت نگاری نے ایک فسوں سابھردیاہے۔یہ ان دوعام انسانوں کی کہانی ہے ،جواپنی دلچسپی سے قارئین پرسحرساطاری کردیتی ہے اوروہ اسے ابتداسے آخرتک پڑھنے پرخود کومجبورپاتا ہے۔
موجوموچی اپنے فن کاماہرہے۔اس کاتعارف مصنف نے کچھ اس طرح کرایاہے۔”ہرسچے فنکارکی طرح اس کی ہرادانرالی۔جب کوئی دل والااس سے جوتی بنوانے آتاتووہ بسم اللہ پڑھ کراس کے پاؤں پردھیرے دھیرے ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے پاؤں کی منفرداناٹومی کو سمجھنے کی کوشش کرتااورپھرحقے کے دوچارگہرے کش لے کرآنکھیں بندکرتااورپاؤں اورجوتی کے درمیان الوہی تعلق کی مابعدالطبیعاتی جہتوں کی تلاش میں نکل پڑتا۔جب خوش نصیب پاؤں کے لیے جوتی کے موزوں ڈیزائن کافیصلہ ہوچکتاتواگلامرحلہ ہوتااس وچارکاکہ اس ڈیزائن کے مطابق کون سے جانورکاچمڑابہتررہے گا اوریہ کہ اسے کس بوٹی کے تیل میں کتنی مدت تک بھگویاجائے کہ چمڑے وہ خاص لوچ آجائے جواس پاؤں کی نازک کمانیوں کوچلت پھرت میں آسانی فراہم کرسکے۔اپنی گدی پربیٹھ کرکام شروع کرنے سے پہلے وہ کنول آسن میں بیٹھ کردھوتی کے پلوسے ناک صاف کرتااورایک شانت بدھا کی ماننددوگھڑی کوآنکھیں موندلیتاجیسے کسی ان دیکھی ہستی سے اجازت کا طلب گارہو۔جب اجازت مل جاتی تووہ باآوازبلندبسم اللہ پڑھتااوردائیں ہاتھ میں آر کوآلہ حرب کی طرح تھام دائیں پاؤں کے انگوٹھے اورانگلی کے درمیان پھنسے چمڑے میں اتاردیتا۔موجوموچی ایک نہایت کارآمدفن کاوارث تھا۔اس کے فن کی جہتوں اورلطافتوں کے سوتے اس کے خود ساختہ فلسفے سے پھوٹتے تھے جس کے مطابق انسانوں میں درآنے والے بگاڑکی ایک بڑی وجہ مشین پربنی جوتیوں کااستعمال بھی ہے۔موجوکواللہ نے فنکارنہ بنایاہوتاتواچھاہوتاکہ لاشعورمیں دورتک اتری صدیوںقدیم جبری عاجزی کے باوجود وہ طنطنہ تونہ ہوتا جس کے باعث وہ زمینداروں سے سیپ لیناگناہ جانتااورہمیشہ اپنے کام سے کام رکھتاتھا اورپھروہ ہواجوایک فنکارکے ساتھ کبھی نہیں ہوناچاہیے۔”
برسات کی ایک رات جب موجواپنے بیٹے اوردوکتوں کے ساتھ اپنے کچے کوٹھے میں سورہاتھااچانک دروازہ بجنے پراس کی آنکھ کھلی،دروا ز ے پرچودھری فلانے کاخاص آدمی سوداچنگڑتھا اوراسے چودھری فلانے نے فوری طلب کیاتھا۔چودھری کے ڈیرے پراس کاخلاف معمول خیرمقدم کیاگیا۔موجونے کمرے کاجائزہ لیاتوایک چادرلپٹی عورت بھی وہاں تھی جس نے لمباگھونگٹ لے رکھاتھاوہ جہازی کمرے میں رانگلے پلنگ پرگاؤتکیے پرکہنی ٹکائے بیٹھی تھی اورعین اس کے سامنے تھی۔چودھری فلانے نے ایک نظرموجوکے بدلے ہوئے تاثرات کا جائزہ لیااورکہا،موجو!اس سے ملو۔یہ شموہے۔شموکنجری۔اورشمویہ موجوہے۔ہمارے گاؤں کاالمشہورموچی۔ویسے اس کانام موج دین ہے۔
یہاں ناول کے دوسرے کردارشموکنجری سے قارئین کومتعارف کرایاگیاہے۔”شموکنجری کے بارے میں کون نہیں جانتاتھا۔وہ کوٹ ہراسے چھ سات میل دورنہرپارچک جنوبی کی کنجربرادری سے تعلق رکھتی تھی۔جس کی سربراہی ایک دھڑلے کی عورت طوطی جان کرتی تھی۔شمواسی طوطی جان کی پروردہ تھی اوراسے ہیرکاوہی کردارنبھاناپڑاتھاجواس کی منہ بولی اماں نے نادانی کے ایام میں نبھانے کی غلطی کی تھی۔اس بار کاتب تقدیر نے رانجھے کے کردارکے لیے چودھری فلانے کاانتخاب کیاتھا۔شموکواغواکرلیاگیاطوطی جان کوکچہری اوروکیلوں کے چکروں سے جان چھڑانے کے لیے صلح کرناپڑی۔چندروزمیں اوتھ کمشنرکی مہروالے اشٹام پیپرپرایک معقول رقم بطورقرارقلبی واشک شوئی شموجان کی قیمت خریدطے پاگئی۔”
کہانی کااتناہی حصہ موجوکے علم میں تھا۔چودھری فلانے نے موجوکوشادی کی پیشکش کی ۔موجوکی پہلی بیوی برسوں پہلے انتقال کرگئی تھی کئی سال قبل دوسری شادی ہوئی جواس کی منکوحہ نے پہلے شوہرسے دوبارہ نکاح سے قبل حلالہ کے لیے کی تھی ۔وہ ایک روزاچانک موجوکو چھوڑکرچلی گئی۔چنددن بعدچودھری فلانے نے موجوکی شادی شموکنجری سے کرادی پھرکچھ روزبعداس کے گھرآیااورا س پرواضح کیاکہ وہ میری سوانی شمونے تنگ تونہیں کیا۔سنوتم نے نسلوں ہمارانمک کھایاہے اب تمہیں اس نمک کوحلال کرناہے۔مالکوں کابوجھ اٹھاناکمیوںکا فر ض ہے۔توتوجانتاہے کہ ہرعورت کچھ وقت بعدبوجھ بن جاتی ہے ۔یہ بھی بوجھ بن گئی تھی۔اب یہ بوجھ تمہیں اٹھاناہے،نمک حلالی کاتقاضا ہے۔کبھی نمک نہ کھانے کے باوجودموجوکوچودھری کی بات ماننی پڑی۔موجویہ سوچتاہی رہ گیاکہ اس نے اوراس کے باپ دادانے کب چودھری کانمک کھایاتھا،لیکن کچھ بول نہ سکا۔پھرچودھری نے ایک اوردھماکایہ کہہ کرکیا،بس تم نے میری شموکوکوئی تکلیف نہیں دینی،اور ہاں،ہاتھ شاتھ پھیرنے سے اگے کچھ نہیں۔اس کی نکاحی شموچودھری کی شموکیسے ہوگئی؟۔
یوںموجواورشموکی زندگی کاایک نیااورمشکل دورشروع ہوا۔ جس سے نکلنے کے لیے دونوں کوبہت مشکلات کاسامناکرناپڑا۔دونوں نے اپنی اپنی جگہ چودھری فلانے کوقتل کرنے کی تیاری کی اورالگ الگ اس کے ڈیرے پرپہنچ گئے،لیکن وہاں کسی اورنے چودھری کوان کی موجودگی میں قتل کردیااوروہ خوف کے عالم میں قاتل کودیکھ کربھی کچھ نہ کہہ سکے۔گھبراہٹ میں شموکے ڈوپٹے کاایک ٹکڑاوہاں کسی چیزمیں پھنسارہ گیا ۔اس مشکل نے موجواورشموکواہل دوسرے کے قریب کردیا۔ شموکی ڈوپٹے کاٹکڑاجائے واردات پررہ جانے سے پریشانی اس وقت سچ ہو گئی جب چودھری فلانے کاجڑواں بھائی چودھری ڈھمکاناشکاری کتے کی مدد سے ان تک پہنچ گیا۔موجواورشموکوجرگے میں طلب کیاگیاجہاں اصل قاتل بھی موجودتھا،لیکن یہ دونوں اس کی نشاندہی کرنے سے قاصررہے کہ ان کی سنتاکون ؟انہیں چودھری فلانے کاقاتل قراردیاگیا ۔ موجوکے ساتھ بہیمانہ تشدد ہوا،جبکہ شموکے ساتھ اجتماعی زیادتی ہوئی۔موجوکے بیٹے حمیدے کے ساتھ بھی زیادتی کی گئی۔یہ سب رفتہ رفتہ ناول میں بیان کیاگیاہے۔
اسی سنگین صورتحال میں موجواورشموکوٹ ہراچھوڑنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔موجواپنے بچپن کے دوست چراغامراثی کے پتے پرلاہورپہنچتا ہے۔اسے ڈر ہوتاہے کہ پتہ درست بھی ہے کہ نہیں ،یاچراغااب تک وہی ملے گا۔چراغا مراثی انہیں مل توگیالیکن ایک بالکل نئے روپ حضرت مولاناچراغ شاہ کے روپ میں ۔ ان تین مرکزی اورچندضمنی کرداروں کی مدد سے محمدعاطف علیم نے ایک عام سے کہانی کوانتہائی دلچسپ ناول بنادیاہے۔جس میں گاؤں کی زندگی میں بڑے خاندانوں اورکمی کہلانے والے عام افرادکاباہمی رہن سہن۔کمی اپناکھانے کما نے کے باوجودگاؤں کے بڑوں کے زیرنگین ہی رہتے ہیں۔دیہاتی ہیرامنڈی کے اطواراورڈیرہ دارنیوں اورنوچیوں کے لیے جھگڑے، بالاترطبقے کاکمیوں سے سلوک کمال ہنرمندی سے بیان کیاگیاہے ۔جس سے ناول کی دلچسپی کہیں کم نہیں ہوتی۔شہروں میں مذہبی اجارہ دارو ںکاذکر،جہاں ایک مراثی بھی مذہب کالبادہ اوڑھ کرلوگوں کودھوکہ دے سکتاہے۔ضیاالحق دور کی سیاسی صورتحال بھی بالواسطہ ناول کاموضو ع بنی ہے اورمصنف نے بہت عمدگی سے جبرکے اس دورکی عکاسی کی ہے۔افغان جہاداوراس کے ثمرات بھی کہانی میں پیش کیے گئے جب موجوموچی کابیٹاحمیداتعلیم حاصل کرکے جہادی بن گیا اوراسی میں ماراگیا۔مجموعی طور پر”گردباد” کے عام موضوع پربہت بے مثال ناول ہے۔جس میں محمدعاطف علیم نے اپنی گرفت شروع سے آخر تک قائم رکھی۔ناول کابیانیہ بہت دلچسپ،جزئیات نگاری شاندار اوراس میں کئی موضوعات کو بہت خوبصورتی سے پیش کیاگیاہے۔
محمدعاطف علیم شاندارناول کی تحریر اورمثال پبلشرزکے محمدعابداس کی دلکش اشاعت پرمبارک بادکے حقدارہیں۔