سردار سکندر حیات خان بھی رخصت ہوئے۔ سردار صاحب خطہ کشمیر ایک قابل فخر فرزند تھے، آزادیِ کشمیر کے ضمن میں ان کے ذہن میں کوئی ابہام، کوئی اور کوئی خلش نہیں پائی جاتی تھی۔
نوے کی دہائی میں جب مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد عروج پر پہنچ چکی تھی، اسلام آباد میں ان کی صدارت میں ایک غیر معمولی سیمینار ہوا جس میں ملک کی اہم قومی جماعتوں کے علاوہ ممتازدانش وروں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ مجھے وہ منظر آج بھی یاد ہے جب سیمینار کے اختتام پر کسی انگریزی اخبار سے وابستہ ایک خاتون رپورٹر نے عین اس وقت ان سے سوال جواب شروع کر دیے جب وہ ابھی اسٹیج سے اٹھے بھی نہیں تھے۔
رپورٹر ان سے پلٹ پلٹ کر ایک ہی سوال بار بار کر رہی تھیں، ایسا لگتا کہ وہ ان سے کوئی خاص بات کہلوانا چاہتی ہیں۔ بھاری تن توش کے سردار صاحب رپورٹر کی ‘ مستقل مزاجی’ دیکھ کر مسکرانے اور بڑے مضبوط لہجے میں کہا:
‘ بی بی، ایک بات آپ سمجھ لیں اور ادھر ادھر باتیں چھوڑیں’۔
تیز لہجے اور اونچی آواز میں سوال کرنے کی عادی خاتون کے لیے ایسا مضبوط لب و لہجہ حیران کن تھا، وہ خاموش ہو کر سردار صاحب کی طرف متوجہ ہو گئیں۔ سردار صاحب کچھ دیر خاموش رہے، پھر کہا کہ آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہم کشمیری تحریک آزادیِ ہند کے اسی قافلے کاحصہ ہیں جس کے ایک مرحلے کی تکمیل کے نتیجے میں قیام پاکستان کا معجزہ رونما ہوا۔ ہماری جدوجہد اسی تاریخی تحریک کی تکمیل کے لیے ہے، گویا ہماری یہ جدوجہد بھی دراصل تحریک پاکستان ہی کا تسلسل ہے۔
سردار سکندر حیات خان تحریک آزادیِ کشمیر کے ایک نیک نام، بڑے اور بہادر راہ نما سردار فتح محمد کریوی کے فرزند تھے، گویا جدوجہد، قربانی اور عزیمت کی روایت ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ اس اعتبار سے انھیں کشمیری قیادت کی دوسری نسل کا نمایاں ترین راہ نما قرار دیا جاسکتا ہے۔
سردار سکندر حیات خان پاکستان کے قومی سیاسی منظر نامے پر پہلی بار اس وقت نمایاں ہوئے جب 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے نام سے حزب اختلاف کا ایک وسیع تر اتحاد قائم ہوا۔ آزاد کشمیر کی تاریخی سیاسی جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس بھی اتحاد کا حصہ تھی جس کے قائد سردار عبد القیوم خان تھے۔ سردار قیوم چوں کہ ان دنوں بھٹو صاحب کی قید میں تھے، لہٰذا ان کے قائم مقام کی حیثیت سے انھوں نے مسلم کانفرنس کی نہ صرف نمائندگی کی بلکہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے ملک کے اس تاریخی سیاسی اتحاد کے قائم مقام صدر کی حیثیت سے اس ہنگامہ خیز دور میں قومی اپوزیشن کی قیادت بھی کی۔
بعد کے ادوار میں وہ آزاد کشمیر کے کئی بار صدر اور وزیراعظم بھی رہے۔ اس دوران میں ان کے اپنی ہی جماعت کے قائد سردار عبد القیوم خان سے اختلافات بھی ہوئے لیکن اپنی بنیادی جماعت سے ان کی وابستگی برقرار رہی۔
جنرل مشرف کے دور میں جب سردار عبد القیوم خان علیل ہوگئے اور ضعیف العمری کی وجہ سے پارٹی قیادت کے قابل نہ رہے تو صورت حال بدل گئی۔ پارٹی سردار عبد القیوم خان کے صاحبزادے سردار عتیق احمد خان کے ہاتھوں میں چلی گئی تو انھوں نے اس پر احتجاج کیا اور کہا کہ وہ بچوں کی زیر قیادت کام نہیں کر سکتے۔
ان کے اختلاف کی ایک بڑی وجہ سردار عتیق کی جنرل مشرف کی فوجی حکومت سے قربت بھی تھی جو ان کے لیے قابل قبول نہ تھی چناں چہ اسی زمانے میں وہ نواز شریف کے قریب ہو گئے۔ یہ ان ہی کی بھاری بھرکم شخصیت تھی جو آزاد کشمیر میں مسلم لیگ ن کے قیام کا باعث بنی اور ایک وقت ایسا بھی آیا جب مسلم لیگ ن آزاد کشمیر میں اپنی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی۔
سردار سکندر حیات خان کی سیاسی وابستگی کی تاریخ اپنی جگہ لیکن آزادی کشمیر اور پاکستان کی اس وابستگی بلکہ پاکستان کا حصہ بن جانے کے ضمن میں ان کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا، یہی سردار صاحب کی عظمت تھی۔