”دلِ ریزہ ریزہ”مشہورافسانہ نگار،مترجم اورگائناکولوجسٹ ڈاکٹرشیرشاہ سیدکی نئی کتاب ہے۔جس میں ملک کے نامورادیب،دانشوراور مدیر’دنیازاد’مرحوم آصف فرخی کے بارے میں چھپنے والے چندمضامین اورڈاکٹرشیرشاہ سیدکے تراجم کویکجاکیاگیاہے۔
شیرشاہ سیدڈاکٹروں کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ان کی والدہ بھی ڈاکٹرتھیں اورتمام بہن بھائی اوران کے شوہراوربیویاں بھی اسی شعبے سے تعلق رکھتے ہیں۔کوہی گوٹھ میں ان کاخاندان ایک فلاحی ویمن اسپتال بھی چلارہاہے۔بے پناہ مصروفیات کے باوجودوہ افسانہ نگاری بھی کرتے ہیں ۔
ان کے افسانوں کے مجموعوں کے نام میں دل کالفظ ضرور شامل ہوتاہے۔اب تک دس مجموعے”دل کی وہی تنہائی”، ”جس کودل کہتے ہیں” ،”دل ہی توہے”،”دل کی بساط”،” چاک ہوادل”،”دل میرابالاکوٹ”،”دل ہے داغ داغ”،”کون دلاں دیاں جانے”،”دل نے کہا نہیں ” اور”جودل نکلے تودم نکلے”منتخب افسانوں کامجموعہ”فسانہ دل کا”اورایک ناول”غبار” شائع ہوچکے ہیں۔اس کے علاوہ بچوں کی نظموں کی کتاب”زندگی کے رنگ” اور”دیس دیس کی کہانیاں” والدکی سوانح پرمبنی”وہ صورت گرکچھ خوابوں کا”بھی شائع ہوکرقارئین کی تحسین حاصل کرچکی ہیں۔
ان کی تین کتابیں”آگہی کے چراغ” دنیاکی قدیم وجدیدلائبریریوں کے بارے میں ہے۔’ ‘آگہی کے نشان”دنیاکے قدیم وجدیدعجائب گھروں کی معلومات پرمبنی ہے اور”علم وآگہی کاسفر”دنیاکی قدیم یونیورسٹیوں کے بارے میں معلوماتی کتاب ہے۔اس سلسلے کی تازہ کتاب”امراض سے آگہی اورہسپتالوں کی تاریخ ہے۔اس کے علاوہ ڈاکٹرشیرشاہ سیدنے ملک کے مشہوربینکاراورمالیاتی ماہراسلم صدیقی کی خودنوشت کاترجمہ ”شکستہ تعبیر”کے نام سے کیاہے۔
”دلِ ریزہ ریزہ” مرحوم آصف فرخی کے ادارے شہرزاد سے فضلی سنز نے شائع کیاہے۔ پیپربیک پردوسوآٹھ صفحات کی کتاب کی قیمت چار سوروپے ہے۔کتاب دوحصوں پرمشتمل ہے۔ پہلاحصہ مرحوم آصف فرخی پران کے احباب اوراہلِ ادب کے مضامین پرمشتمل ہے۔اس حصے میں آصف فرخی کوتین نظموں میں شعراء کاخراج ِ تحسین،حبیب یونیورسٹی میں ان کی کچھ طلباکے تاثرات،کزن اوربیٹی کے مضامین اورشیرشاہ سیدکے پہلے افسانوی مجموعے کی تقریبِ رونمائی میں آصف فرخی کامضمون شامل ہیں۔آصف فرخی کی مرگِ ناگہانی دنیائے ادب کے لیے ناقابلِ یقین تھی ۔وہ ایک متحرک شخصیت کے مالک تھے۔میڈیکل ڈاکٹرکے ساتھ افسانہ نگاری،تراجم،ادبی جریدے’دنیازاد’ کی ترتیب،بطورپبلشر’شہرزاد’ سے کتب کی اشاعت،کانفرنسوں اورسیمنارزکااہتمام اورحبیب یونیورسٹی میں طلباء میں علم کی تقسیم یقین نہیں آتا کہ کوئی ایک شخص اتنے مختلف کام بیک وقت کرسکتاہے۔ان کی ادبی خدمات بے پناہ ہیں۔وہ ”دنیازاد”کاایک خصوصی شمارہ کروناوباکے حوالے سے تیارکرچکے تھے ۔امید ہے کہ وہ جلدمنظرعام پرآئے گا۔اس کے علاوہ آصف فرخی پرکسی ادبی جریدے کوخصوصی شمارہ بھی شائع کرنا چاہیے۔ڈاکٹر شیرشاہ سیدنے ”دل ِ ریزہ ریزہ ” کے ذریعے اس کام کی ابتداکردی ہے۔کتاب کاانتساب شمس الرحمٰن فاروقی کی تحریر پرمبنی ہے۔
”آصف فرخی کویہی خراج عقیدت ہے کہ زندگی کابڑا حصہ انہوں نے انتہائی مصروفیت میں گذاراجواکہ کارآمدمصروفیت تھی ۔یہ نہ صرف آصف کے لیے کارآمدتھی بلکہ ادبی قوم کے لئے کارآمد تھی ۔”
اردوکے نامورافسانہ وناول نگارڈاکٹرحسن منظرلکھتے ہیں۔”آصف فرخی سے میرے تعلقات چالیس سال پرپھیلے ہوئے ہیں۔اُس زمانے میں ان کی پہلی کتاب ”آتش فشاں پرکھلے گلاب”جہان ِ اردومیں نمودارہوئی تھی۔اس آخری ملاقات جواُن کے بے موقع انتقال سے تین چار روزپہلے فون پرہوئی تھی۔آصف ملنسار لیکن فطرتاًسنجیدہ آدمی تھے،یارباش نہیں۔ہاں جب میں ہسپتال میں داخل ہواوہ دیکھنے ضرور آئے،اوریہی رویہ ان کارشتے داروں،ملنے والے دوستوںسے تھا،ہرایک کی خبرگیری۔ آصف کی ادبی مصروفیتوں کودیکھتے ہوئے ایک خیال مجھے ہمیشہ آیاانگریزی محاورے میں یہ شخص زندگی کی موم بتی کودونوں سروں سے جلارہاہے۔میں نے آصف کودوسروں کے ادبی کام کو اگر وہ اس لائق تھاتوہمیشہ سراہتے دیکھا،اُن میں حسدنام کونہیں تھا جوادیبوں اورشاعروں میں عام ہے۔وہ مجھ جیسے کم آمیزاورحدسے زیادہ مصروف آدمی کاہاتھ ادبی کام میں بٹانے کوہمیشہ تیاررہتے تھے۔پچھلے چندبرسوں میں جب میں عمرکے اُن حصوں میں داخل ہوچکاتھا،جب آدمی نام بھولنے لگتاہے، محفلوں میںجب میں بات کررہاہوں اورکسی ادیب یااس کی کتاب کانام مجھے جُل دے جائے اوراُن کی طرف دیکھوں تووہ فوراً لقمہ دیتے تھے،اُس ادیب کے نام یااُس کی کتاب کاگویاوہ اس کام پرمعمورتھے۔”
ڈاکٹرشیرشاہ سید”میں شکرگزارہوں” کے عنوان سے لکھتے ہیں۔میں شکرگزارہوں عرفان احمدخان اورعبدالسلام سلامی کاجنہوں نے اس کتاب کے مضامین کودلچسپ اورعام فہم بنانے میں مدد کی۔جناب طارق رحمٰن فضلی نے اس کتاب کاسرورق بنوایااورپریس کے سارے کام خوش اسلوبی سے انجام دیے۔خالدمرزاکاشکریہ جنہوں نے عرق ریزی سے کمپوزنگ کی اورباربارمیری غلطیوںسے نمٹا۔غزل آصف فرخی کاشکریہ جنہوں آصف کے بارے میں نشرکیے جانے والے پروگرام میں اپنے دلی جذبات کااظہارکیا،ہم سب کے مشترکہ غم میں شریک ہوئیں اورآصف فرخی کے چھپے ہوئے گوشوں کواجاگرکیا۔کاشف حسین غائر،ذوالفقارعادل اوررضاعلی عابدی نے مرحوم کومنظوم خراجِ تحسین پیش کیاہے۔حبیب یونیورسٹی میں آصف اسلم فرخی کے چندشاگردوں کے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا۔
”آصف سرکاسارے اسٹوڈنٹس کے ساتھ ایک پرسنل لیول پرریلیشن شپ ہوتاتھا،کوئی بھی مسئلہ ہوپڑھائی کے متعلق،پرسنل لائف سے متعلق توآصف سرکادروازہ ہمیشہ کھلاہوتاتھا۔”
”کچھ لوگ ہوتے ہیں کہ آپ کولگتاہے ک وہ ہمیشہ آپ کے آس پاس رہیں گے اورآصف صاحب ان میں سے ۔انہوں نے ہمیں جتنا گائیڈکیااورقدم قدم پرجس طریقے سے وہ ہمیں گائیڈ کرتے تھے ہی تاثرملتاتھاکہ یہ توہمارے ساتھ ہی ہونگے ہمیشہ۔”
شاعرہ اورافسانہ نگارعشرت آفرین نے کچھ یوں آصف فرخی کی یادوں کوتازہ کیاہے۔” یہ یقین ہی نہیں آرہاکہ آصف ہمارے درمیان نہیں ہیں،وہ اتنے اچانک چلے گئے۔لیکن اُن کی شخصیت کی اتنی جہتیں تھیں،اتنے بڑے آدمی تھے کہ ہم اُن کے کن کن پہلووں پربات کریں، میں بس یہ کہوں گی کہ آصف کے یہاں ایک شایستگی تھی،ایک تہذیب تھی،تہذیب اٹھ گئی ہے ہمارے درمیان سے۔وہ بہت پُروقار،بہت کم آمیزانسان تھے۔اُن کی نگاہ پہنچتی تھی وہاں جہاں اچھے لکھنے والے موجودتھے۔اُنہیں کھوئے ہوؤں کی بھی تلاش رہتی تھی وہ ڈھونڈتے تھے۔اوراسی لیے اُن کے پرچے دنیازاد نے کیسی اپنی ساکھ بنائی،کیسااپنامقام بنایا۔آصف کی ابھی عمرہی کیاتھی ۔مگرانہوں نے اتنی جلدی بہت سارے کام کیے،میں توکہتی ہوں کہ کئی صدیوں پرپھیلاہواان کام ہے وہ پچھلی صدی کے بھی آدمی تھے اورآنے والی صدی کے بھی آدمی تھے۔اُن کے اندرایک حیرت تھی،ایک معصومیت تھی،ایک استعجاب تھی،ان کی آنکھوں میں ایک چمک کبھی کبھی پیداہوتی تھی جب وہ کوئی اچھافن پارہ دیکھتے تھے یاکوئی اچھے شعرکوسنتے تھے۔وہ کم آمیزتھے،شائستہ تھے،اٹھنے بیٹھنے کانشست وبرخاست کاخاص اندازتھا،اُن کی عمرکے لوگوں میں اب وہ چیزیں ملنے والی نہیں ہیں،وہ خاص تربیت تھی اُن کی۔”
افسانہ نگارکرن سنگھ نے لکھاہے۔” آصف فرخی ہمہ جہت شخصیت،وسیع مطالعہ اوروسیع جہت ادیب تھے،ان کاکام معیاراورمقدارہرلحاظ سے قابلِ قدرہے۔انہیں بین الاقوامی ادب کے ساتھ ساتھ سندھی ادب سے بھی بڑا شغف تھا۔سندھی سے تراجم کیے،سندھی ادب پرمضا مین لکھے،ادیبوں کے انٹرویوکیے،جوموقراخبارات وجرائد میں شائع ہوئے۔انہوں نے سندھ کے پس منظرمیں افسانے بھی لکھے جوان کے مجموعے”ایک آدمی کی کمی” میں شامل ہیں۔ان میں سندھ پرہوئے والے جبرکواجاگرکیاگیاہے۔سندھ صوفیوں کی دھرتی ہے،ان کے افسانوں میں اُس کارنگ بھی نظرآتاہے،ان کے افسانوں میں تھرکی خشک سالی اوربارش کے لیے ترسے ہوئے محروموںکی پکاربھی ہے،وہ سندھ کے چپے چپے سے واقف ہی نہیں بلکہ وہاں کی تہذیب وثقافت سے بھی واقف تھے۔جیساکہ ان کے افسانوں جگہ جگہ ذکرہے۔یہ خوبی واقعی بہت کم نظرآتی ہے،کسی کسی میں ہی نظرآتی ہے۔شاہ کے پیروکاراورجدید سندھی ادب کے معمارشیخ ایازنے اپنی مٹی کی محبت میں قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کیں۔ان کی وفات کے بعدخراج تحسین کے طور پرشاہ محمدپیرزادہ کے ساتھ انہوں نے ‘ذکرِایاز’ اور’فکرِ ایاز’ دو کتابیں مرتب کیں۔اسی طرح انہوں نے ولی رحمت کے افسانوں کے تراجم بھی کروائے،جوبشیرعنوان نے کیے اور’زندگی کٹاہواٹکرے’ کے نام سے شائع ہوا۔انہوں نے سندھ کی عورتوں کے بارے میں عطیہ داؤدکی کتاب شائع کی۔”
آصف فرخی کی شخصیت کے کئی پہلوہیں۔جن پران کے ہم عصروں نے روشنی ڈالی ہے۔ستمبر1996ء میں شیرشاہ سیدکے افسانوں کاپہلا مجموعہ شائع ہوا۔اس کی تقریبِ رونمائی میں آصف فرخی کی دلچسپ تحریربھی شامل کی گئی ہے۔”ڈاکٹرشیرشاہ سیدنے بغیرکسی انتباہ کے ایک پیکٹ پکڑادیااورخودچلتے بنے۔’یار،اس کوذرادیکھ لینا۔’ جب تک لفافہ بندتھا،میری عافیت تھی۔اس کوکھولاتونئی طرح کامضمون نکلا۔وفعتاً احساس ہوایہ اردوافسانے ہیں۔ڈاکٹرشیرشاہ سید اورافسانے۔۔کہاں شہرکامشہورومعروف معالج،نہ جانے کتنی سماجی تنظیموں کاکرتادھرتا، سیاست وصحت کاہمہ وقت مستعدکارکن۔چوبیس گھنٹوں سے پچیس گھنٹے کاموں کے انبارمیں گلے گلے ڈوبے ہوئے اورکہاں یہ ناہنجارصنف ادب جس کے اپنے مطالبے اتنے سخت ہیں کہ دم بھرکونگاہ چوکی اورہاتھ سے غائب،پھرآپ بیٹھے لکیرپیٹاکیجیے۔ان کانام میںنے سب سے پہلے ایک لطیفے کے جزکے طورپرسن رکھاتھایہ نوبہن بھائی ہیں جن میں سے آٹھ ڈاکٹرہیں ۔سب کے نام اس طرح کے ہیں۔ٹیپو سلطان ،شیرشاہ،سراج الدولہ ،چاندبی بی نام سنتے ہی ہٹوبچواورباادب باملاحظہ ہوشیارکی صدائیں کان میں گونجنے لگتی ہیں۔لیکن اصل لطیفہ توخود شیرشاہ نے سنایا۔’سارے بہن بھائی امی ابوکے ساتھ انڈیاجارہے تھے۔بارڈرپرایک سکھ آفیسرہمارے پاسپورٹ دیکھ کراٹینشن ہوگیااور فوراً کاغذات پرمہرلگاکرکہا،آپ آرام سے جائیے،آپ کوکون روک سکتاہے،آپ کی فیملی ہے یاپوری انڈین مسلم تاریخ’یہ ایک دلچسپ مضمون ہے،جوآصف فرخی نے شگفتہ اندازمیں لکھاہے۔”
اس حصے کاآخری مضمون شیرشاہ سیدکے تحریرکردہ مرحوم مترجم عمرمیمن کے بارے میں ہے۔مضمون کے بارے میں ڈاکٹرشیرشاہ نے بتایا۔ ”عمرمیمن صاحب کی وفات کے بعد میں نے یہ مضمون لکھا اورآصف صاحب کوبتایاکہ مضمون تیارہے مگراس میں کچھ متنازعہ باتیں ہیں۔وہ ہنس کرکہنے لگے کہ متنازعہ بھلے ہوں مگرجھوٹ نہیں ہوناچاہیے،اسے ضرور شائع ہوناچاہیے تاکہ بات سے بات چلے۔یہ مضمون ان کی زندگی میں شائع نہیں ہوسکا۔”
”دلِ ریزہ ریزہ”کادوسرا حصہ ڈاکٹرشیرشاہ سیدکے تراجم پرمبنی ہے۔ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔”امریکاکے معروف جریدے’نیویارکر’ میں شائع ہونے والے چندمضامین کاترجمہ کرکے میں نے آصف فرخی کوبھیجاتوہمیشہ کی طرح انہوں نے فون کرکے تعریف کی۔کچھ غلطیوں کی نشاندہی کی اورانہیں صحیح کرکے ‘دنیازاد’ میں شائع کردیا۔شائع شدہ مضامین کے ساتھ جوزف براڈسکی،تھیوڈورفاؤنٹین،لازالوکرازناہر کائی کی عجیب وغریب کہانیاں اورپراسرارآدمی اسٹیک لارسن کے ترجمے اس کتاب میں شامل کیے جارہے ہیں۔”
یعنی ان تراجم کاتعلق بھی آصف فرخی اوران کے ‘دنیازاد’ سے ہے۔پہلامضمون ”چین کامعروف لکھاری” چینی مصنفہ جیااینگ زھاکاتحریر کردہ ہے۔جونیویارک اوربیجنگ میں رہتی ہیں اورانگلش اورچینی میں لکھتی ہیں۔اس مضمون سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آج کے چین کے ادبی حقائق کیاہیں،وہاں کے فنکاروں کوکیسے حالات کاسامنا ہے اوروہ کس قسم کاادب تخلیق کررہے ہیں اوروہاں کن مسائل پربات چیت ہو رہی ہے۔دوسراترجمہ جارج بٹلرکا”ڈیوڈگراسمین ۔اسرائیلی لکھاری” ہے۔گراس مین اسرائیل میں بائیں بازوسے تعلق رکھنے والاایک لکھاری ہے۔اس کی ادبی تحریروں نے اسرائیل اورمغربی دنیامیں اپنی انفرادیت اورموضوعات کی وجہ سے دھوم مچادی ہے۔نیویارکر میں جارج بٹلرنے ڈیوڈ گراس مین کے بارے میں ایک طویل مضمون لکھاہے۔یہ تحریراسی مضمون کی تلخیص وترجمہ ہے۔یہ مضمون اسرائیل کے خوفناک اورخطرناک سیاسی حالات کابھی احاطہ کرتاہے اورآج کے اس انتہاپسندیہودی خیالات کوبھی منظرعام پرلاتاہے جوحقیقت سے قریب مگرانصاف وانسانیت سے بہت دورہیں۔”آج کے عربی ناول” نیویارکرمیں کلاڈیاروتھ پیئریونت کے طویل مضمون کاترجمہ ہے۔ جس میںجدیدعربی ناولزاوران کے موضوعات کاعمدہ احاطہ کیاگیاہے۔
ایک ترجمہ جان اکوسیلاکے”جارج سمینوں کی تحریریں” کاہے۔اکو سیلا نے جارج سمینوں کے زندگی کے مختلف پہلوؤں پرروشنی ڈالی ہے،یہ ایک منفرد تحریرہے جوان کی زندگی کے ان گوشوں کوبے نقاب کرتی ہے جن کے بارے میں ان کے قاری لاعلم ہیں۔روسی شاعرجوزف براڈسکی لینن گراڈ میں پیداہوئے۔انہیں 1972ء میں جلاوطن کردیا گیااوروہ امریکامیں آباد ہوگئے جہاں 1996ء میں ان کاانتقال ہوگیا۔”جوزف براڈسکی۔روس کاایک شاعر” کیتھ گینس کے مضمون کا تر جمہ ہے۔
”دلِ ریزہ ریزہ” مرحوم آصف فرخی کوخراجِ تحسین پیش کرنے اوران کی یادوں کوتازہ کرنے کے ساتھ جدیدعالمی ادب کی چندنمایاں شخصیا ت کے بارے میں بھرپورمعلومات فراہم کرتی ہے۔ہرادب دوست کوکتاب پسندآئے گی۔
دلِ ریزہ ریزہ”مشہورافسانہ نگار ڈاکٹرشیرشاہ سیدکی نئی کتاب ہے۔جس میں انھوں نے ملک کے نامورادیب،دانشوراور مدیر’دنیازاد’مرحوم آصف فرخی کو خراج عقیدت پیش کیا ہے