مزاح نگاروں اور مزاحیہ اداکاروں کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ ہنسنے ہنسانے والے لوگ غیر سنجیدہ اور کھلنڈرے لوگ ہوتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے، یہ لوگ معاشرے کے ایسے خدمت گار ہوتے ہیں جو انتہائی پیچیدہ اور سنگین مسائل کا شکار لوگوں کے نہ صرف ان کے غموں میں کمی کرتے ہیں بلکہ ان کے کتھارسس کا ذریعہ بن کر معاشرے کو کسی حادثے سے محروم رکھنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ مرحوم عمر شریف کئی دہائیوں سے یہی خدمت انجام دے رہے تھے۔ ممتاز صحافی برادرم سبطِ عارف نے ان کی خوب صورت یادیں قلم بند کیں ہیں جو قارئین کے سامنے مرحوم عمر شریف کی جیتی جاگتی تصویر لا کھڑی کریں گی
ایک اور مسکرانے والا چلا گیا، مسکراہٹیں بکھرنے اور قہقے لگوانے والا “ سنجیدہ عمر شریف” بس اب یادوں میں رہ گیا، عمر بھائی کیلئے کچھ لکھنا اور مرحوم لکھنا انتہائی تکلیف دہ ہے، یقینا فرشتہ جب جسم اور روح کا رشتہ توڑنا آیا ہوگا، عمر بھائی نے ضرور ہنسا دیا ہوگا ۔۔۔ ارے ظالم تم تو ہمیں مار ہی ڈالو گے ۔۔۔ لیکن عمر بھائی زندہ رہیں گے، ہماری یادوں میں، ہمارے ذہنوں میں، ہمارے مسکراہٹوں میں، ہماری ہنسی میں، ہمارے مذاق میں، ہماری قہمقوں میں ۔۔۔ عمر بھائی ۔۔۔ دوسرے جہاں میں بھی محفل سجائیں گے، جو دکھ میں ہوگا، اُس کو سکھ دیں گے، مسکراہٹ دیں گے ۔۔!
80 کی دہائی میں عمر بھائی سے رشتہ بذریعہ آڈیو کیسٹ شروع ہوا، عمر بھائی کے شوز کی آڈیو کیسٹ مارکیٹ میں ملتی تھیں، اس وقت کیسٹ کہانیاں سنا کرتے تھے، احمد نے اُڑنا سیکھا، پودنا پودنی اور بہت سی کہانیاں ۔۔۔ ڈرامہ انڈسٹری کے معروف صدا کار “کیسٹ کہانیوں” کا حصہ ہوتے، عمر بھائی کے ڈرامے “ آڈیو کیسٹ” میں دستیاب ہونے لگے تو کراچی کی بسوں خصوصا W11 بس میں گانے کے بجائے عمر بھائی کے “آڈیو ڈرامے” چلنے لگے، بس میں لٹکے ہوں، بیٹھے ہوں، کھڑے ہوں، ہنستے مسکراتے سفر گذر جاتا تھا،
پھر 80 کی دہائی کے آخر میں تو عمر بھائی کا اسٹیج ڈرامہ بکرا قسطوں پر اتنا ہٹ ہوا کہ زبان زد عام ہوگیا، صبح صبح “ چچا جی ( مستنصر حسین تارڑ صاحب ) کی میزبانی میں کارٹون دیکھ کر اسکول پہنچتے تو عمر بھائی کے ڈرامے کا ذکر ہوتا، بالی ووڈ کی فلموں کی وڈیو کیسٹس کی طرح “عمر شریف” کے ڈرامے کی دھوم تھی، وڈیو سینٹرز پر عمر بھائی کے ڈرامے “ بکرا قسطوں پر” کی کیسٹ ملنا مشکل ہورہا تھا، ڈرامے نے مقبولیت کے نئے پیمانے متعارف کرا دئیے ۔۔۔!
سنہ 2009 میں پہلی بار عمر بھائی سے دبئی میں ملاقات ہوئی، جیو دبئی کے آفس عمر بھائی آئے ہوئے تھے، دبئی میں بسی مشہور اور جانی پہنچانی شخصیت آرٹسٹ شرافت علی شاہ بھی ساتھ ساتھ تھے، شرافت بھائی سے بھی یہ ہماری پہلی ملاقات تھی، گفتگو ہوئی، ہنسی مذاق ہوا، دونوں سے رشتہ مزید مضبوط اور دل کا ہوگیا ۔۔!
سنہ 2011 میں عمر شریف اور بھابی نے دبئی کے گلوبل ویلیج کا دورہ کیا، پاکستان پویلین گئے، پویلین میں “ ٹوپی کی دوکان” تھی، عمر بھائی کہنے لگے “ بھئی تم باقاعدہ لائسنس لیکر لوگوں کو ٹوپیاں پہنا رہے ہو” ، پھر ایک ٹوپی عمر بھائی کو بھی ملی “ کاؤ بوائے کیپ “ ۔۔۔ عمر بھائی کہنے لگے “ پہلے بار ۔۔ ہمیں ٹوپی پہنانے کی وڈیو بھی بنائی جارہی ہے” کیونکہ ہم جیو نیوز کی طرف سے کوریج کررہے تھے، اس وقت ہمارے کیمرا مین حسیب بھائی نے سارا منظر محفوط کرلیا، اس کے بعد پاکستان پویلین دبئی میں عمر بھائی نے دبئی میں کئی سال بعد پرفارم کیا ۔۔!
پرفارمنس کے بعد عمر بھائی اور میڈیا کے دوست” گلوبل ویلج کے بندو خان ریسٹورینٹ” کی طرف جانے لگے، چلتے چلتے زرین بھابی تھوڑا پیچھے رہ گئیں، عمر بھائی کہنے لگے “ ارے بھئی کہاں رہ گئیں ۔۔۔ ایک تو تم پوری تجوری پہن آئی ہو “ زرین بھابی نے بھاری سونے کے زیوارت پہنے ہوئے تھے، بھابی نے جغرافیائی حدود یاد دلائیں “ ارے یہ دبئی ہے” ۔۔ عمر بھائی کہنے لگے “ ہاں کراچی میں تو یہ بندہ گھر میں بھی نہیں پہن سکتا “
تھوڑی دیر بعد ریسٹورینٹ پر کھانا کھانے لگے، کھانا کھاتے ہوئے ایک انجان صاحب آئے اور با آواز بلند کہنے لگے “ ارے عمر بھائی ۔۔ کیسے ہیں” عمر بھائی کہنے لگے “ خدا کا شکر “ پھر کھانا کھانے میں مصروف ہوگئے، تھوڑی دیر بعد پھر وہ صاحب پوچھنے لگے “ اور عمر بھائی ۔۔ سب ٹھیک ۔۔ طبعیت کیسی ہے” ۔۔۔ عمر بھائی جھنجلا گئے، ٹیبل پر بیٹھے میڈیا کے دوستوں سے کہنے لگے “ ارے ۔۔ یہ کیا ڈاکٹر ہے جو بار بار طبعیت پوچھ رہا ہے ۔۔!؟”
کھانا پھر شروع کیا تو ریسٹورینٹ کے ایک دو ویٹرز نے کھانے کھاتے ہوئے تصویر بنا لیں، بندو خان کے کرتا دھرتا مقصود بھائی وہاں ہی کھڑے تھے، عمر بھائی نے شکوہ کیا ۔۔ “ ارے مقصود بھائی ۔۔ ( ویٹرز کی طرف آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے ) ان سب کو ۔۔ کیا ڈائریکٹ لیاقت آباد سے لے آئے ہو کہ چلو ویزا آگیا ہے ۔۔ دبئی چلو “ ۔۔ کسی کی کھانا کھاتے ہوئے تصویر بنانا انتہائی معیوب بات ہوتی ہے مگر کچھ نابلد ہیں، البتہ کھانے کے بعد عمر بھائی نے بہت سوں کے ساتھ تصویر کھنچائی، اس موقع پر ہمارے دوست اور دبئی میں فی الوقت چھپنے والے اردو اخبار “ جانب منزل “ کے ایڈیٹر ارشد انجم بھی اپنی فیملی کے ساتھ محفل میں موجود تھے، ارشد انجم نے خواہش کی عمر بھائی ایک تصویر میری فیملی کے ساتھ بھی ۔۔۔ عمر بھائی فورا گویا ہوئے “ اپنی فیملی کے ساتھ تو خود تصویر کھنچواؤ ۔۔ ہمیں کیوں درمیان میں لارہے ہو “ خیر رات گئے محفل برخاست ہوئی ۔۔۔!
لیکن عمر بھائی کی محفل سجی رہے گئی، یہاں نہیں تو دوسرے جہاں میں ۔۔۔ وہ محفلوں کے بادشاہ ہیں !