اپنی کسی پیاری شے کے کھوجانے کا غم شاید ہرانسان زندگی میں کبھی نہ کبھی ضرور دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔ بچے کا کھلونا چاہے وہ زیادہ قیمتی نہ ہو،کوئی لے جائے یا لاپتہ ہوجائے،اس کی کیفیت اور بے چینی سے کون واقف نہیں، آنکھیں ہرسو تلاش میں مصروف اور دکھ میں ڈوبی ملیں گی۔ بچہ اپنی حالت کئی بار بیان بھی نہیں کرپاتا، سب سے آسان حل زاروقطار آنسوبہالینے میں عافیت پاتاہے۔
جوانی میں قدم رکھنے پرپسندیدہ چیزوں کے ساتھ ساتھ ترجیحات میں اتارچڑھاو آتاہے، کسی دوست یا پیارے کے چلے جانے ، نظروں سے اوجھل ہوجانے پر بھی کیفیت کچھ ایسی ہوجاتی ہے کہ کھوجانے کی صورت میں دل کے نہاں خانوں میں پائے جانے والا تاسف،دکھ، غم جیسے عیاں ہونے اور چھلک جانےکے لئے بے تاب ہو،
ایوب نے زندگی کا ایک بڑا حصہ اپنوں سے دور،الگ تھلگ رہ کر گزارا، اپنے شعبہ سے وابستہ افراد یا پھر اردگرد ملنے والے ہی عزیز، رشتہ داراور پیارے قرارپائے، وہ آج بھی ملنے والوں کے لئے چاہت اور محبت کے بھرپور جذبات رکھتا ہے۔ حتیٰ کہ انہیں کی خوشی، غمی اور ضرورتوں سے متعلق سوچتا رہتا ہے۔ خودکو جیسے سب کے لئے وقف کررکھاہے۔ اس کا انداز بھی قلندرانہ ہے کہ کئی بار آداب اور قواعد کا خیال رکھنے والے ایوب کے مزاج پر ناگواری کا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں اس کی درویش طبیعت میں کبھی کبھار مطلب کی بُو آنے لگتی ہے۔
صحافت کے شعبے سے کئی برس گزارنے کے بعد انسانی حقوق کے بڑے ادارے سے وابستگی جیسے ایوب کی بندوں کی مدد کے جذبے کو تقویت بخشنا ثابت ہواہو۔ یہاں اسے کئی درویش صفت بزرگوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
یہ سب اس کا خاندان ہیں، انہیں کے بارے سوچنا، بات کرنا یہاں تک کے پریشان اور فکرمند ہونااس کی زندگی کے معمولات بن چکے ہیں۔ کسی دور میں اس نے اپنا نام دربدر رکھاتھا، جس پر کئی اپنوں اور پیاروں کو خوشی ہوتی ،مگر کچھ معترض تھے، جیسے کوئی دکھی یا ناکام عشق میں مبتلا شاعر ہو،ایوب نے اس تعارف کو چندبرس پہلے ترک کردیا۔ اور لگا کہ وہ اب بے سمت انسان نہیں رہااور اسے کوئی ڈائریکشن مل گئی ہو۔
ایسا کچھ نہیں تھا، وہ ویسے ہی ہے، لوگوں سے ملتا،آسانیاں بانٹتا، دکھ درد میں شریک ہوتا ہے، اس کی اپنی خوشی بھی شاید انہیں میں پوشیدہ ہے، اپنا گھر، پیسہ ، دولت کا مسئلہ کبھی نہیں رہا، کیونکہ بیوی اور بچوں کی کشش سے باہربلکہ محروم ہونا بھی ایک وجہ ہے۔
ایک دن معلوم ہوا کہ ایوب صاحب سمارٹ فون کا مالک بن گئے، کسی سنیئر کولیگ نے ایک اچھا فون اسے تحفہ میں دیا، یہ اطلاع سب کو پہنچادی گئی اور پھر زمانے کا تقاضا دیکھتے ہوئےایک واٹس ایپ اکاونٹ بھی بنالیا۔ رابطے کا ذریعہ زیادہ موثر ہوگیا۔ پھر چند روز بعد ایک اور خوشخبری سنائی، میں نے نئی سائیکل لے لی ہے۔ یہ بتانا بھول گئے کہ وہ اب بھی سائیکل چلاتے یاپھر پیدل سفر کو ترجیح دیتے،اس پر سفر کرکے آفس جاتے اور کہیں کام بھی جانا ہوتااس کاساتھ ہوتا۔
خوشی دیکھی اور وہ بھی ذاتی استعمال کی چیزملنے پر۔ ایوب کے پاس کھونے کے لئے شاید کچھ نہیں ، جس نے ہمیشہ دوسروں کو دیا۔ سائیکل پر ستر سال عمر میں بھی دورتک سفر کوئی معمولی بات نہیں۔ سب ملنے والے بھی خوش تھے اور ایوب کا سائیکل موضوع بحث ،بلکہ ٹاک آف ٹاؤن بن گیا۔
اچانک ایک روز اطلاع ملی، ایوب کا سائیکل کھوگیا، مطلب چوری ہوگیا، بلکہ کہیں کوئی لے گیا۔ فون پر بتایاتو لہجہ دکھی اورغمزدہ تھا، اتنی جاندار اور زندگی سے بھرپور آواز میں مخاطب کرنے والاجیسے عشق میں ناکامی پر افسردہ ہوتاہے۔بینک کے باہر صرف دومنٹ کیلئے سائیکل کھڑاکیا، واپس آیا مگر وہاں کچھ نہ پاکر جیسے دل ڈوب گیاہو۔
ایوب سارے شواہد ملنے کے باوجود کہ سی سی ٹی وی کیمرے نے بتادیا ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس نوجوان کسی کے ساتھ موٹرسائیکل پر آیا اور بڑے آرام سے سائیکل چلاتاہوانکل گیا۔ وہ اب بھی اس واقعے کو کسی کی شرارت یا پھر سازش سمجھ رہا ہے۔ روایتی کارروائیاں یعنی پولیس کو اطلاع، ایف آئی آر درج کرانا،حتیٰ کہ صبر شکر اور فکر نہ کرنے کادرس بھی لے چکے۔
جس عہد میں کسی قلندر اور درویش کی کمائی لٹ گئی، اس دور کے سلطان سے نامعلوم کتنی باربھول ہوچکی ہے۔
ایوب مایوس اور دکھی ہے، حالانکہ سائیکل بھی مسئلہ نہیں ، وہ ملنے اورچاہنے والے اور لے دیں گے۔ اس کا ذہن یہ بات تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں کہ جس کے پاس کچھ نہیں اسے بھی ڈاکو پڑجاتے ہیں۔