دیوار پر لٹکی یہ ٹیڑھی میڑھی ٹوکری، ہمارے علاقے میں خاموش انقلاب برپا کر رہی ہے۔ اس کے مختلف نام ہیں مگر زیادہ تر جگہوں پر اسے ‘نیکی کی ٹوکری’ کہتے ہیں۔ بان سے بنی یہ ٹوکری، اب ہمارے گھر کے اطراف میں، تقریبا” تمام تنوروں پر، موجود ہے۔ اگر کہیں ٹوکری نہیں ہے تو پلاسٹک کا ڈبا یا پیالا رکھا ہوگا۔ مگر اس کا کام وہی ہے۔
ان میں لوگ آتے جاتے پیسے رکھتے جاتے ہیں جو ضرورت مند اٹھالیتے ہیں اور اپنے لیے روٹیاں سالن خریدتے ہیں۔
میں نے کسی تنور پر کبھی کوئی نیکی کی ٹوکری، پیالا یا ڈبا خالی نہیں دیکھا۔ ایک ٹوکری میں پانچ ہزار کا نوٹ تک دیکھا جو کافی عرصے اسی میں پڑا رہا۔ کسی نے نہیں اٹھایا۔
ان ٹوکریوں نے ہمارے علاقے میں درد دل رکھنے والے لوگوں کو خاموشی سے اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا ہے۔
ایک تنور والے سے میں نے پوچھا تو اس نے بتایا کہ علاقے کے کئی گھرانے، بالخصوص بیوائیں، تنہا بوڑھے اور وہ مزدور جو گھروں سے دور ہیں اور ان کی دیہاڑی نہیں لگ رہی، ان ٹوکریوں کی وجہ سے بھوکے نہیں سوتے اور صبح سویرے یا رات میں اندھیرا ہونے کے بعد روٹی لینے آتے ہیں۔ علاقے میں غریب سفید پوش گھرانوں کی بڑی تعداد ان ٹوکریوں کی بدولت فاقہ کشی سے محفوظ ہے۔
ان ٹوکریوں نے غریب گھرانوں میں، ناکافی خوراک اور غذائیت کی کمی سے پیدا ہونے والے مسائل کو خاموشی سے حل کیا پے اور امیر و غریب کے درمیان فاصلے کو بھی گھٹایا ہے۔
اب فیاضی کی یہ شکل، چپکے سے علاقے کے ہر ہوٹل اور تنور کے معمول کا حصہ بن گئی ہے۔ ہمارے کئی محلے دار، باقاعدگی سے نماز فجر کے بعد، مسجد سے گھر آتے ہوئے، اپنی استطاعت کے مطابق روزانہ کئی تنوروں کی ٹوکریوں میں پیسے چھوڑ آتے ہیں۔
مزے کی بات یہ یے کہ یہ ٹوکریاں کبھی خالی نہیں ہوتی ہیں اور علاقے کے چھوٹے بچے تک ان میں کھلے پیسے اور ریزگاری ڈالنے لگے ہیں۔
ایک اور دلچسپ مشاہدہ یہ ہے کہ پیشہ ور گداگر ان ٹوکریوں سے پیسے نہیں لیتے اور نہ ہی ان پیسوں سے، تنور سے روٹیاں خریدتے ہیں۔ اس کے برعکس، میں نے دو بار عادی فقیروں کو ان ٹوکریوں میں پیسے چھوڑتے دیکھا ہے۔ تنور والے خود بھی ان پیسوں کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتے۔
ہم پاکستانی اندر سے اچھے لوگ ہیں۔ ہم راہ خدا میں نیکی کرنا چاہتے ہیں اور اس نیک عمل کی نمود و نمائش کو پسند نہیں کرتے۔
جابجا تنوروں پر لٹکی بان کی یہ ٹوکریاں جو کبھی خالی نہیں ہوتی ہیں ۔۔۔ ہمارے اندر کے اچھے پاکستانیوں کی دلیل ہیں جو صلے و ستائش سے بے پرواہ ہوکر، چپکے چپکے اپنا کام کیے جارہے ہیں۔