1۔ آزاد کشمیر اسمبلی کے انتخابات صرف ایک دن کے فاصلے پر ہیں، پولنگ 25 جولائی 2021ء کو ہوگی اور انتخابی مہم کے خاتمے کے بعد اب آخری معرکہ کی تیاری ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہن کون سی گیدڑ سنگھی ہے جو پی ٹی آئی کو نمبر ون بنا سکتی ہے۔
2۔ انتخابی مہم پر غور کیا جائے تو ن لیگ کی مریم نواز شریف کی مہم کمال کی تھی اور پیپلزپارٹی کے بلاول بھٹو زرداری نے بھی بہت محنت کی اور بہترین مہم چلائی۔ انتخابی مہم کی حدتک حکمراں جماعت تحریک انصاف مکمل طور ناکام رہی اور کلی طور پر انحصار ریاستی و حکومتی مشینری پر رہا۔ مریم نواز شریف اور بلاول بھٹو زرداری نے جس کی مہم آزاد کشمیر میں چلائی ہے ، اس طرح کی مہم پاکستان کے متوقع عام انتخابات میں چلی تو حکمراں جماعت کے لئے بچنا تقریبا ناممکن ہوگا۔
3۔ غالبا آزاد کشمیر کی تاریخ میں پہلی بار حکمراں جماعت نے بہت ہی خوفناک اور غلیظ انداز مہم چلائی ہے، شرمناک بات یہ ہے کہ اس کا کریڈٹ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور انکے وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور کو جاتا ہے۔ اس مہم میں شہید بھٹو کو غدار قرار دیا، جو اہل کشمیر کا نجات دہندہ اور محسن ہیں۔ کشمیری نژاد نواز شریف اور انکی بیٹی کو عملا ننگی گالیاں دی گئی۔ مولانا فضل الرحمان کے خلاف انتہا کی بد زبانی کی گئی۔ اور تو اور جس جماعت اسلامی نے 2013ء میں قوم یوتھ کو سہارا دیا اس پر ایسا وار کیاگیا کہ جماعت اسلامی کے پائو تلے زمین نکل گئی اور سچ یہ ہے کہ اس واردات کے بعد ہر سنجیدہ اور نظریاتی مذہبی و سیاسی کارکن صدمے میں ہے۔ آزاد کشمیر کی مقامی قدیم اور الحاق پاکستان کی قرارداد کی خالق جماعت مسلم کانفرنس کو کونے میں عملاً مفلوج کردیا گیا۔ یعنی الغرض یہ کہ ہر اس کو ڈسا گیا، جس جس نے عمل کی بجائے ہوائی تقاریر اور قوم یوتھ کے مقتدا کو للکارا تھا۔ ضمیر کی خرید و فروخت کی ایسی داستانیں کہ الامان والحفیظ۔ بد زبانی اور جھوٹ اتنا کہ حاشا وکلا۔
4۔ وزیراعظم پاکستان عمران خان اور انکے گنڈاپور نے آزاد کشمیر حکومت اور اداروں کی وہ تذلیل کی کہ تصور سے بھی خوف آتا ہے۔ کشمیری عوام کے منتخب وزیراعظم کی دانستہ تذلیل، تضحیک اور توہین کی گئی، انداز وہی RSS کے مودی اور امت شاہ والا بس ناموں کا فرق ہے۔ پاکستانی نوجوان نسل کو برباد کرلیا تھا اور اب کشمیر کی نئی نسل بھی تباہ۔
5۔ اہل آزاد کشمیر یہی کچھ یا اس سے کچھ کم 15 نومبر 2020ء میں ریاست جموں وکشمیر کے صوبہ گلگت بلتستان میں بھی کیا گیا، مگر سب کچھ کے باوجود سادہ اکثریت حاصل نہیں کرسکے۔ جس جس نے ضمیر کا سودا کیا گلگت بلتستان کے عوام نے ان کو مسترد کردیا، مگر افسوس کہ لالچ یا خوف یا دبائو کی وجہ سے ان آزاد نے بھی اسی راستے کا انتخاب کیا، جس کو عوام نے مسترد کردیا تھا اور یہ عوام کے ساتھ دھوکہ ہے۔
6۔ کل کلاں ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ یوتھیا نودولتیئے کچھ کرتے ہیں تو گلگت بلتستان والوں کے پاس بچنے کے ہزار جواز موجود ہیں، مگر آپ کے پاس ایک بھی جواز نہیں۔ آپ کا دعوی ریاست جموں وکشمیر کا پیس کیمپ ہونے کا ہے، آپ کے ہر عمل کے مثبت منفی اثرات 84 ہزار مربع میل پر پھیلی ہوئی منقسم ریاست جموں وکشمیر کے ہر چپے چپے تک ہونگے۔ عالمی سطح پر بھی آپ کا فیصلہ تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی و کامرانی کے لئے معاون مدد گار ثابت ہوسکتا ہے اور زہر قاتل بھی۔ آج آزاد کشمیر میں گنڈاپور کو کھلی چھوٹ دی جائے تو پھر مقبوضہ کشمیر میں مودی اور امت شاہ پر اعتراض کیسے ممکن ہوگا؟ بھر حال فیصلہ آپ نے کرنا ہے کہ براردیازم مقدم ہے یا ریاست جموںکشمیر۔
7۔ آزاد کشمیر فیصلہ سوچ سمجھ کر کرنا ، ورنہ شاعر مظفر رزمی”یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے۔ لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی”
کے شعر کے مصداق ہوگا۔ بعد کا افسوس مرزا غالب کے ” کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔ ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا”شعر کے مصداق ہوگا۔
8۔ حتمی نتائج کے حوالے سے کچھ کہنا قبل وقت ہوگا، تاہم انتخابی مہم، جلسوں میں عوام کی شرکت، قبل از انتخاب حکومت پاکستان کی مداخلت، خرید و فروخت،حکومتی مشینری کا بے دریغ استعمال اور زمینی حقیقت کو مدنظر رکھا جائے اور پولنگ کے دن الیکشن چوری نہ ہوا تو مجموعی طور پر 13 سے 17 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف پہلی، 12 سے 16 نشستوں کے ساتھ ن لیگ دوسری، 5سے 8 نشستوں کے ساتھ پیپلزپارٹی تسیری، 2 سے 3 نشستوں کے ساتھ مسلم کانفرنس چوتھی پوزیشن پر ہوگی، جبکہ جمعیت علماء اسلام ایک، جموں وکشمیر پیپلزپارٹی 1 سے 2، آزاد اور دیگر کے حصے میں 1 سے 2 نشستیں آسکتی ہیں۔ تحریک انصاف کی پہلی پوزیشن کی بنیادی وجہ انتہا کی حکومت مداخلت اور ریاستی وسائل کا خوفناک حدتک استعمال ہے۔ باقی پولنگ ڈے پر مزید مداخلت ہوئی تو نتائج کچھ بھی آسکتے ہیں۔
9۔ یہ بات تو تقریبا واضح نظر آرہی ہے کہ تنہا کسی جماعت کو سادہ اکثریت یعنی 23 ارکان کی حمایت نہیں ملے گی، حکومت تو مخلوط ہی بنے گی۔
10۔ انتخابی مہم کے دوران جو کچھ ہوا اور جس طرح حکمراں جماعت نے قومی سلامتی کے اداروں کے نام اور کردار کو داغدار کرنے کی اس کا نوٹس قومی سلامتی کے اداروں کو ضرور لینا چاہیے، ورنہ سارے گناہ ان کے حصے میں جائیں گے۔ مقتدر قوتیں وزیراعظم پاکستان کی جانب سے صرف اپنی جماعت کے فائدے کے لئے پاکستان کی قومی کشمیر پالیسی کے متصادم اعلانات و بیانات کا بھی نوٹس لینا ضروری ہے۔