اردوادبی جرائدعام طورپراپنے مدیرانِ کرام کے دم قدم سے ہی زندہ رہتے ہیں۔مدیراعلیٰ کے انتقال کے ساتھ ہی ان پرچوں کی اشاعت کا سلسلہ ختم ہوجاتاہے۔ ایسے بے شمارادبی رسائل ہیں۔جنہیں مدیراعلیٰ کے انتقال کے بعدبھی جاری رکھنے کی بھرپورکوششیں کی گئیں لیکن وہ بارآورنے ہوسکیں۔صہبالکھنوی کا”افکار” شاہداحمددہلوی کا”ساقی”شبنم رومانی کاخوبصورت ”اقدار” ڈاکٹروزیرآغاکا” اوراق” فہیم اعظمی کا” طلوع افکار”اورحال ہی میں آصف فرخی کا”دنیازاد” ایسے ہی چندپرچے ہیںجومدیرکے انتقال کے بعدجاری نہ رہ سکے۔
لیکن کچھ ادبی جرائدایسے بھی ہیں جواپنے مدیرکے انتقال کے بعد بھی بھرپوراندازسے جاری رہے۔ان میں سرفہرست صدیقہ بیگم کا”ادب لطیف”ہے۔برکت علی مرحوم کاادبی جریدہ پون صدی تک ان کی صاحبزادی شائع کرتی رہیں ۔ان کے بعدناصرزیدی اوراب حسین مجروح اسے جاری رکھے ہوئے ہیں۔محمدطفیل مرحوم کامنفرد اوریادگار”نقوش” ان کے صاحبزادے جاویدطفیل دس سال سے زائد جاری رکھے رہے۔لیکن قرآن نمبرکی چارجلدیں اورافسانہ نمبرگولڈن جوبلی نمبرکی دوجلدوں کے بعد جاویدطفیل ہمت ہارگئے۔پھران کابھی انتقال ہوگیااوراردوکایہ بہترین جریدہ ماضی کاحصہ بن گیا۔احمدندیم قاسمی کا”فنون” ان کی صاحبزادی ناہیدقاسمی اورنواسے نیئرحیات قاسمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔سلطان سکون کے صاحبزادے فیصل سلطان ”نیرنگ خیال” کوبدستورشائع کررہے ہیں۔مولاناحامدعلی خان کے خانوادے کے شاہد علی خان ”الحمرا” کواسی شان سے شائع کررہے ہیں۔بھارت میں ساجدرشیدکے انتقال کے بعدان کے صاحبزادے شاداب رشید ”نیا ورق” کوشاندارانداز میں جاری رکھے ہوئے ہیں۔”تخلیق ”کے ایڈیٹراظہرجاویدکاخیال تھاکہ ان کے بعد” تخلیق ”جاری نہ رہ سکے گا ۔ لیکن اظہرجاویدکے ہونہارصاحبزادے سونان اظہر اپنے والد کے عظیم ورثہ کو دس سال بعدبھی کامیابی سے جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس دوران” تخلیق ”کامعیارخوب سے خوب ترہوتاجارہاہے۔اظہرجاوید کے انتقال کے فوری بعد سونان اظہرنے شانداراورضخیم اظہر جاوید نمبرشائع کرکے اپنی مدیرانہ صلاحیتوں کابخوبی اظہارکیااورتخلیق بدستورادب کے افق پرجگمگا رہا ہے۔سونان اظہرجاویدنے مرحوم والدکی ”اپنی بات کی روایت کوبھی برقراررکھاہے۔جس میں وہ بڑی دردمندی سے اہم ادبی مسائل کی نشاندہی کرتے ہیں۔
سونان اظہرنے اردوکے اہم ادیب اورشاعروں کو ہرسال تخلیق ایوارڈسے نوازنے کاسلسلہ بھی 2012ء سے جاری کررکھاہے۔یہ کوئی رسمی ایوارڈنہیں ہے۔یہ ہرسال ملک کے کسی ایک نامورادبی شخصیت کی خدمت میں پیش کیاجاتاہے۔جس کاتعین ایک غیرجانبدارجیوری کرتی ہے۔اس سلسلے میں اب تک محترم شفیق عقیل،محترم ڈاکٹرانورسدید ،محترمہ بانوقدسیہ،محترمہ نیئرجہاں،محترمہ عذرااصغر،محترم حسن عسکری،محترم سرفرازسید اورمحترمہ بشریٰ رحمٰن کو ایوارڈ سے نوازاگیا۔دو ہزار بیس کاایوارڈججزکے پینل نے ممتازفکشن رائٹراورنقاد ڈاکٹر رشید امجد کودینے کافیصلہ کیاتھا۔ادارے کی جانب تمام تیاریاں مکمل تھیں مگرقضائے الہٰی نے ڈاکٹررشیدامجدکواتنی مہلت نہ دی اوروہ دنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔مذکورہ ایوارڈ کی تقریب 14فروری کومنعقدہوناتھی۔لیکن کووڈوباکے باعث انعقاد نہ ہوسکا۔”تخلیق” کاتازہ شمارہ مرحوم افسانہ نگار،نقاداوردانشور ”ڈاکٹر رشید امجد نمبر” ہے۔
ڈاکٹررشیدامجداردوافسانے کاایک بڑانام ہے۔ان اصل نام اختررشیدہے اوروہ پانچ مارچ 1940کوسری نگرکشمیرمیں پیداہوئے۔ان کے والدغلام محی الدین مونس نقشی قالینوں کے ڈیزائنرتھے لیکن ادب سے بھی شغف رکھتے تھے۔پنجابی،اردواورفارسی زبانوں پردسترس تھی اوران زبانوں میں شاعری بھی کرتے تھے۔ڈاکٹررشیدامجدنے ابتدائی تعلیم برن ہائی اسکول سری نگرسے حاصل کی۔میٹرک ڈینزہائی اسکول سے کیا۔گھریلوحالات کے پیش نظرمیٹرک کے فوراً بعدملازمت شروع کردی اورچھوٹے چھوٹے کئی کام کیے۔ایف اے اوربی اے پرائیویٹ کیا۔گورڈن کالج سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی اورپنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کامقابلہ”میراجی فن اورشخصیت” کے عنوان سے خواجہ محمدذکریاکی زیرِنگرانی مکمل کیا اورڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔الخیریونیورسٹی اسلام آبادکے صدرشعبہ اردوپاکستانی زبانیں ،پروفیسرشعبہ اردو،مدیرمعیار،ڈین،صدرشعبہ اردوبین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آبادصدرشعبہ اردونیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجزاسلام آباد اورصدرشعبہ اردوایف جی سرسیدکالج راولپنڈی رہے۔دوہزارچھ میں حکومت پاکستان نے پرائڈآف پرفارمنس سے نوازا۔1994ء میں نقوش ایوارڈحاصل کیا۔بیجنگ یونیورسٹی چین سے ایم اے اورعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی بھارت میں ڈاکٹررشیدامجدپر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے گیے۔پاکستان میں دس ایم اے اورپندرہ ایم ایس اورایک پی ایچ ڈی مقالہ جات لکھے گئے۔افسانوں کے مجموعے”عام آدمی کا خواب”،” لیمپ پوسٹ اوردوسرے افسانے”،” گملے میں اگاہواشہر”،” سناٹابولتاہے”،” سمندرمجھے بلاتاہے”،”دکھ ایک چڑیاہے ” ،”کہانی نے خواب دیکھا”کے علاوہ ان کے منتخب افسانوں کے کئی مجموعے بھی شائع ہوئے۔”تمنابے تاب” کے نام سے آپ بیتی کا پہلا حصہ شائع ہوا۔پھرمکمل آپ بیتی”عاشقی صبرطلب” شائع ہوئی۔جس میں مزیداضافہ کرنے میں کوشاں تھے۔تنقید میں ”نیاادب”،” رویئے اورشناختیں”،” یافت ودریافت”،” شاعری کی سیاسی وفکری روایت” ،”میراجی شخصیت وفن” پاکستانی ادب” رپورتاژ ،” عبارت برق کی”اور”پاکستانی ادب کی چھ جلدیںاوربے شمارکتابیں لکھیں۔
ڈاکٹررشیدامجدایک ہمہ جہت ادیب تھے اورتخلیق نے ان پرخصوصی شمارہ شائع کرکے اہم ذمہ داری پوری کی ہے۔رشیدامجدپرتخلیق کے گوشہ خصوصی کی ابتداتعارف نامہ ڈاکٹررشیدامجد۔تخلیق ایوارڈیافتہ 2020ء سے ہوئی ہے۔جس میں مرحوم فن اورشخصیت کامختصر اورجامع تجزیہ ادارہ کی جانب سے پیش کیاگیاہے اورصفحات میں قارئین پررشیدامجدکاپورافنی سفرآشکارہوجاتاہے۔ڈاکٹرقرة العین طاہرہ نے ”رشید امجداورتخلیقی کائنات کے اسرار” مرحوم کی تخلیقی کائنات کے چندگوشے عیاں کیے ہیں،وہ لکھتی ہیں۔”افسانہ واقعات وحوادث کے تسلسل کا نام ہے جس میں کردار،مکالمہ،ماحول ،وقت،فضااورمنظرنگاری جزولازم ہیں،افسانے کافن کہانی پن سے عبارت ہے لیکن رشیدامجدکے افسانوں میں کہانی کہانی پن سے نہیںخیال کے تسلسل سے بنتی ہے۔وہ کہانی کے بنیادوقوعہ سے جنم لینے والے خیال پررکھتے ہیں۔ان کے افسانوں کاتعلق استعاراتی،علامتی وتجریدی مکتبہ فکرسے ہے،وہ آزادتلازمۂ خیال،استعارہ ،علامت ،ابہام،اشاریت ،تجریدیت،رمزو ایما،تمثیل،پیکرتراشی اوردیگرشعری وسائل سے کام لیتے ہوئے فردکی کائنات میں پراسراریت ،لازوال تنہائی اوراس سے جنم لینے والے سوا لات کے جواب کے متلاشی ہیں۔ان افسانوں میں احساس تنہائی،ہولناک سناٹے،بانجھ پن،احساسِ محرومی کاتذکرہ موجودہے لیکن گزرتا وقت اس کی منفی خصوصیات ردکرکے فرد کی رہنمائی اثبات کی جانب کرتاہے۔سارترتنہائی کونفی سے اثبات اورتخریب سے تعمیرکی جانب سفر سے تعبیرکرتااوراسے ایک ایسی قوت گردانتاہے جوفردکواپنے ہونے کا،اپنے کارآمدہونے کااحساس دلاتی ہے اوراسے اس کے انفرادی وجودسے آگاہ کرتی ہے۔رشیدامجدبھی تنہائی کوایک مثبت قدرجانتے ہیں۔انکشاف ذات کامرحلہ ہویاتخلیق کا،انھیں اس امرکاادراک ہے کہ اعلیٰ تخلیق،جوحقائق کی متلاشی ہے،تنہائی اورخاموشی میں جنم لیتی ہے۔”
قرة العین طاہرہ نے طویل مضمون میں رشیدامجدکے کئی افسانوں کاتجزیہ بھی کیاہے۔پروفیسرجلیل عالی نے”رشیدامجدکی افسانہ نگاری” پر بیس سال قبل شائع ہونے والامضمون تخلیق کوگوشہ کے لیے بھیجاہے۔جس میں ”دشتِ نظرسے آگے”میں شامل سات مجموعوںکے بعد ”دشتِ خواب”چودہ افسانوں کابھی جائزہ لیاہے۔بلوچستان کے مشہورناول وافسانہ نگارآغاگل نے ”بَلی مار” ڈاکٹررشیدامجدکی یادوں کو تازہ کیاہے۔آغاگل دلچسپ اندازمیں لکھتے ہیں۔”پروفیسررشیدامجدسے بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔یوں توادبی رابطے تھے مگرمیری پوسٹنگ کوفہ ہوئی توہماری دوستی بڑھ گئی۔میں اسلام آباد کوپیارسے کوفہ پکارتاہوں کیونکہ دیگرملک سے اس کابرتاؤ کوفیوںجیساہے،پروفیسر ایک درویش صفت انسان تھے۔ان کی زندگی میں سادگی اوردرویشی نمایاں تھی۔لباس سادہ بلکہ عدم توجہ کاشکاررہتاجوکہ دانشوروں کی پہچان ہے۔نمودمسلم نے نمل یونیورسٹی میں میرے فکشن پہ ریسرچ کابیڑہ اٹھایاتوپروفیسرہی نگران بنے کچھ توان کی دوستی اوراس پہ یہ تحقیقی کام ، علاوہ ازیں معروف ادیب میجرغلام نبی اعوان بھی نمل میں ہی چلے آئے اورشعبہ اردومیں پڑھانے لگے۔ان دونوں دوستوںکے باعث میں بھی موقعہ پاتے ہی شعبہ اردوچلاآتا۔بعض اوقات ٹیکسلایاآس پاس کے شہروں سے ہمیں مدعوکیاجاتاتوکئی گھنٹے ان کی رفاقت ملتی چونکہ وہ ایک سینئرافسانہ نگارتھے۔خوب ہی گفتگورہتی۔”
ڈاکٹرہارون الرشیدتبسم نے ”ڈاکٹررشیدامجد،افسانوی دنیاسے عالمِ حقیقت منتقل ہوگئے!” تحریرکیاہے۔جس میں مرحوم کی نصف صدی پرمبنی یادیں اورباتیں پیش کی ہیں۔”ادب لطیف”کے مدیراورافسانہ نگارحسین مجروح نے”رشیدامجد:ایک شخص،ایک عہد”مضمون لکھاہے ۔جس میں ڈاکٹررشیدامجدکے افسانوں کی مختلف جہات کے ساتھ ان کی خودنوشت کے پہلے حصے”تمنابے تاب” کااجمالی ذکرکیاہے۔ خاور اعجازنے”رشیدامجدکے افسانوی مجموعے” میں ان کے تمام افسانوی مجموعوں کامختصرجائزہ پیش کیاہے۔مدیراستعارہ اورافسانہ نگار ڈاکٹرامجدطفیل کامضمون ”رشیدامجدکے افسانوں کے متنوع رنگ”ہے۔جس میں ڈاکٹررشیدامجدکے افسانوں کے متنوع موضوعات کو عمدگی سے پیش کیاہے۔معروف افسانہ نگارعذرااصغرنے ”ڈاکٹررشیدامجد،ایک مثالی انسان” کے عنوان سے مضمون میں مرحوم کی ذاتی زند گی اورشخصیت پراظہارِ خیال کیاہے۔”بعض قلمکاراتنے بلندقامت ہوتے ہیں کہ ان کے بارے میں ہم کچھ اظہارِخیال کرنابھی چاہیں تو ہمت جواب دے جاتی ہے اورڈاکٹررشیدامجدتوذاتی طورپربھی بلندقامت یعنی درازقدتھے۔ان کی درازی قدکارعب،علم کادبدبہ اور طبیعت کی سنجیدگی نے مجھے ان کی قریب نہیں ہونے دیا۔پھراپنی عادت بھی کچھ ایسی ہے کہ زبردستی،بلاوجہ کسی سے ملنے کی کوشش نہیں کرتی ۔اب جویہ سونان جاویدتخلیق کا”رشیدامجدنمبر”نکال رہے ہیں توان کی دعوت پرڈاکٹررشیدامجدپراپنے ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں خامہ فرسا ئی کی کوشش کررہی ہوں۔”
ڈاکٹربدرمنیرنے”ڈاکٹررشیدامجدمیرے لیے”میں مرحوم کی شخصیت کے کچھ پہلوپیش کیے ہیں۔جبکہ نسیم سحرنے ”ڈاکٹررشیدامجد،راولپنڈی کی رونق”کے عنوان مضمون لکھاہے۔شاہین زیدی نے ”آہ ۔رشیدامجد” اورزیداللہ فہیم نے”رشیدامجدسے ایک ملاقات” تحریرکیاہے۔ جس میں رشیدامجدسے ملاقات کااحوال پیش کیاگیاہے۔مجموعی طور پرتخلیق کا”گوشہ ڈاکٹررشیدامجد” بہت عمدہ ہے۔ لیکن اس میںایک کمی محسوس ہوتی ہے۔ڈاکٹررشیدامجدکی آپ بیتی”تمنابے تاب” اور”عاشقی صبرطلب” کاشماراردوکی چندبہترین آپ بیتیوں میں کیاجاتاہے لیکن اس پرکوئی مضمون شامل نہیں۔
سونان اظہرجاویدکی ادارت میں ”تخلیق” ہرشمارہ بہترسے بہترین کی جانب رواں ہے۔کتابت،طباعت،مضامین نظم ونثرکاانتخاب بھی عمدہ ہوتاہے۔اس شمارے کے حصہ مضامین میں ڈاکٹرانعام الحق جاویدکا”ترویحہ”غلام حسین ساجدکا”محبت اورمزاحمت کاشاعرایوب خاور” کا دوسراحصہ، شکیل عادل زادہ نے ایوب خاورکے شعری مجموعے ”بہت کچھ کھوگیاہے” کی تقریظ میں لکھاہے۔”شاعری ان کے لیے پہلا مسئلہ ہے ۔ان کی شاعری سے ان کے ہیجان واضطراب کااحساس کچھ سواہوتاہے۔لگتاہے ،کہیں کچھ رہ گیاہاورکہیں کچھ کھوگیاہے،جس کی وہ تلاش میں ہیں۔یوں ہرلحاظ سے وہ بڑے کامیاب ہیں مگرکامیابی سے مراد بامرادی نہیں ہے۔جانے کیاخلش ان کے رگ وپے میں اٹک گئی ہے۔کوئی حسرت جوپوری نہیں ہوپاتی۔زندگی بہ ظاہرکتنی ہی مہربان ہو،لگتاہے،روٹھی ہوئی بھی کچھ کم نہیں۔یہی کچھ تمام وناتمام کی حالت، یہ ناگفتنی انھیں شاعری پرآمادہ کرتی ہے۔”ڈاکٹرایوب ندیم نے اپنے مضمون”تحقیقی انحطاط،احمدسعید اورترجیحات” میں ایک اہم مسئلہ کی نشاندہی کی ہے۔” اردوکی ادبی تحقیق میں یہ صورتِ حال اب ایک المیے کی صورت اختیارکرتی جارہی ہے کہ ایم اے اوربی ایس کی سطح ہی کے نہیں ایم فِل اورپی ایچ ڈی کے تحقیق کاربھی اپنے تحقیقی موضوعات کی تلاش یاانتخاب کے لیے اپنے نگران کی طرف دیکھتے ہیں۔ نگران کے پاس اتناوقت کہاں کہ وہ نئے نئے موضوعات تلاش کرے، پرانے موضوعات کی ممکنہ جہات پراپناسرکھپائے اورپھرانھیں طشتری میں رکھ کرریسرچ اسکالرکوپیش کرے۔”قاضی منشاکا ”کروناوائرس سے مریض نہیں مرتا” اورخالدعبداللہ کا ”کچرابابااورکرشن چندرکی پکار” بھی اپنے موضوع کے اعتبار سے عمدہ مضامین اوراپنے موضوع سے انصاف کرتے ہیں۔
افسانوں میںچارافسانے سمیع آہوجہ کا”تتلی کاجنم” آغاگل کا”گیڈرسنگھی” جمیل احمدعدیل کا”انٹرن شپ ” اورتسنیم کوثرکا” وبا” شامل ہیں۔افسانوںکے آغازمیں افسانہ نگارکامختصرتعارف بھی دیاگیاہے۔سمیع آہوجہ کے تعارف میں لکھاہے ۔8دسمبر1936ء کوراولپنڈی میں پیداہوئے۔دلی جامعہ ملیہ سے تعلیم حاصل کی۔بیروت سے انجیئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔میٹرک سے ہی لکھنے کاآغازکیا۔”تتلی کا جنم ” پہلامشہورافسانہ تھا۔۔اب تک تیرہ افسانوں کے مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ان کی تازہ کتاب ”متن کچھ گمشدہ” حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔نوکتابوں کامجموعہ ”ننانوے کے پھیرمیں”کے نام سے شائع ہواہے۔
آغاگل کاتعارف کچھ یوں ہے۔”آغاگل انیس نومبرانیس سواکیاون کوہرنائی بلوچستان میں پیداہوئے۔تئیس کتابیں فکشن پرلکھیں۔بارہ افسانوی مجموعے اورین ناولٹ منظرعام پرآچکے ہیں۔ناول”دشت وفا” اورافسانوی کتاب”دوسری بابری مسجد”کوخوب پذیرائی ملی۔دو ہزاربارہ میں شائع ہونے والی کتاب”پرندہ”کوبلوچستان حکومت نے بہترین کتاب کے ایوارڈ سے نوازا۔آغاگل کے افسانے سماجی،ثقا فتی ،معاشرتی اورمعاشی زندگی کے پہلوؤں کواجاگرکرتے نظرآتے ہیں۔ان کی کہانی ہردورکی کہانی ہے۔”
جمیل احمدعدیل کاتعارف ہے۔”محمدجمیل احمد۔جمیل احمدعدیل کے قلمی نام سے ادبی دنیامیں متعارف ہیں۔مختلف اصناف نثرمیں ان کی تقریباً تیس کے قریب کتب شائع ہوچکی ہیں۔ان دنوں وہ گورنمنٹ اسلامیہ کالج سول لائنزلاہورمیں تعینات ہیں۔جہاں وہ تدریس کے ساتھ ساتھ صدرشعبہ اورڈین آف آرٹس کے فرائض منصبی بھی اداکررہے ہیں۔”
افسانہ نگارتسنیم کوثرکے تعارف میں لکھاہے۔”تسنیم کوثر18فروری کوساہی وال میں پیداہوئیں۔جہاں سے شادی کے بعدمستقل لاہور منتقل ہوگئیں۔ان کی اب تک چارکتابیں منظرعام پرآچکی ہیں جن میں ”سرگوشی”شعری مجموعہ”چبھن ”افسانوں کی کتاب،دوسفرنامے ” کہانی ان دنوں کی”اور”جہاں رحمت برستی ہے” شامل ہیں۔”
انورشعور، امین راحت چغتائی،نذیرقیصر،محمودشام،آصف ثاقب،خالداقبال یاسر،گلزاربخاری،سلطان سکون،احمدصفی،ناصرعلی سید،ممتاز راشد،رشیدآفرین،اسحاق وردگ،ڈاکٹراکرم عتیق،ڈاکٹرمحمدرفیق خان،شبہ طرازکی غزلیں عمدہ ہیں۔
محمداسلم کاانشائیہ ”میں ایک سگھڑخاتون کاشوہرہوں” دلچسپ ہے۔جبکہ ڈاکٹرابدال بیلاکی یادیں”سرنڈر” کے عنوان سے شامل ہیں ۔ابدا ل بیلاکی آپ بیتی کادوسراحصہ ”رستہ” حال ہی میں شائع ہواہے۔یہ یادیں بھی ان کی آپ بیتی کاحصہ ہے۔پرویزکلیم ”شاہ کانور۔شاہ نور” سید شوکت حسین رضوی کے شاہ نوراسٹوڈیوکی یادوں کے ساتھ شامل محفل ہیں۔یادرفتگاں میں شہبازانور”نجیب احمدایک خوبصورت شاعر” لے کرآئے ہیں۔جبکہ طنزومزاح میں ڈاکٹرمحسن مگھیانہ”بچے کم توخرچے کم”دلچسپ تحریرہے۔محسن مگھیانہ نے اپنی ابتدائی کتاب ”انوکھا لاڈلا” سے دنیائے ادب اورمزاح میں عمدہ انٹری دی تھی۔لیکن پھران کی کتب دستیاب نہیں۔
موسیقی کامضمون ڈاکٹرامجدطفیل نے ”استاد نصرت فتح علی خان ” پرلکھاہے۔پنجاب رنگ میں بشریٰ رحمٰن اورسلیم شہزاد کی تخلیقات کوجگہ دی گئی ہے۔تجزیہ وجائزے میں شہزادنیئرڈاکٹرہارون الرشیدتبسم،قیصرنجفی کے علاوہ آفتاب خان ماہنامہ تخلیق کابیس سالہ جائزے کادوسراحصہ شامل ہے۔تبصرے ہارون الرشیدتبسم میں کرامت بخاری کے ”خواب ریزے”،شہزادبیگ کی نعت رسول مقبول،ڈاکٹرذوالفقارعلی کی”چسکیاں” اورعاصم بخاری کی ”تم جوچاہو” کاجائزہ پیش کیاگیاہے۔
حسب معمول انجمن خیال میں احباب نے تخلیق کے گذشتہ شمارے کاجائزہ لیاہے۔مجموعی طور پرایک سوساٹھ صفحات پرمبنی” تخلیق”کاشمارہ جون بہترین تخلیقات پرمشتمل ہے اوراس میں نظم ونثرکی اعلیٰ اورمعیاری ادب کوپیش کیاگیاہے۔سونان اظہرجاویدناصرف تخلیق کوجاری رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس کامعیاربھی خوب سے خوب ترکرتے جارہے ہیں۔