سابق صدر پاکستان ممنون حسین 14 جولائی 2021ء کو رب کے حضور پہنچ گئے ہیں، اللہ تعالٰی ان کی کامل مغفرت اور تمام لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ مرحوم صدر سے سلام دعا تقریبا 25 سال سے تھی ، جب وہ مسلم لیگ (ن) کراچی کے مقامی رہنماء تھے ، صدر بننے سے پہلے بیشتر اوقات سیاسی پروگراموں میں ملاقات یا فون پر رابطہ رہتا ، مگر ایوان صدر جانے کے بعد مرحوم نے حقیقی معنی میں اپنے آپ کو سیاسی سرگرمیوں سے دور صرف فرائض منصبی تک محدود رکھا اور مدت صدارت کی تکمیل کے بعد بھی عملاً گوشہ نشینی اختیار کرلی تھی ۔مرحوم انتہائی خاموش طبع ، شریف النفس اور وضعدار تھے۔ اس کی کئی منفرد مثالیں ہیں ۔
مرحوم سے مسجد نبوی شریف میں ملاقات!
جولائی 2016ء کا دوسرے ہفتے (رمضان المبارک کے آخری عشرے) کو ہم ( کراچی سینئر صحافی ذوالفقار وہوچو بھی ہمارے ساتھ تھے)مسجد نبوی شریف کے شاہ فہد روڈ والے گیٹ کے قریب دکان میں ایک دوست سے ملاقات کے بعد واپس حرم شریف جارہے تھے کہ ممنون صاحب بھی کچھ دیگر سرکاری مہمانوں کے ہمراہ حرم شریف کے لئے نکلے تھے ،ہٹو بچو کا سلسلہ تو نہیں ، تاہم ان کے ساتھ مقامی سرکاری پروٹوکول ضرور تھا، نظر پڑتے ہی چند سیکنڈ کے لئے رکے ، مسکرائے اور پھر ہاتھ سر کے اشارے سے سلام کرکے چل پڑے۔ یہ انکا بڑا پن تھا ۔مرحوم سے ہماری یہ آخری ملاقات تھی ۔
پارٹی عہدے سے محروم اور ایوان صدر میں!
مرحوم ممنون حسین ایوان صدر تک کیسے پہنچے یہ ایک دلچسپ اور سبق آموز کہانی ہے۔ تحریک انصاف کے 2011ء لاہور جلسے کے بعد ہر طرف ہنگامہ بپا تھا اور بڑی بڑی شخصیات بھی عمران خان کو تبدیلی کی امید کی کرن سمجھ بیٹھیں اور بعض کو سیاسی کامیابی کی امید ہوگئی۔ جن لوگوں نے عمران خان کو امید کی کرن سمجھا ان میں مخدوم جاوید ہاشمی بھی تھے اور لاہور جلسے کے بعد کئی بہنوں، بیٹیوں اور بھائیوں کو روتا چھوڑ ہاشمی صاحب کراچی کے جلسے میں تحریک انصاف میں شامل ہوئے۔ مخدوم جاوید ہاشمی کی تحریک انصاف میں شمولیت ن لیگ کے لئے بہت بڑا دھچکا تھا۔ اتفاق سے جس دن مخدوم جاوید ہاشمی تحریک انصاف میں شامل ہوئے ، اس سے چند قبل میاں نواز شریف نے سندھ میں تنظیم سازی کے لئے سید غوث علی شاہ کی جگہ ممنون حسین مرحوم کو پارٹی کی ذمہ داری دی (غالباً صوبائی آرگنائزر بنایا تھا)اور شاہ صاحب کو مرکزی سینئر نائب صدر بنایا، جس پر سید غوث علی شاہ نے بہت برا منایا اور خبریں گردش کرنے لگی کہ وہ بھی تحریک انصاف میں شامل ہورہے ہیں اور ایک دن پریس کانفرنس میں شاہ صاحب نے اشارہ بھی دے دیا۔ مخدوم جاوید ہاشمی کے بعد ن لیگ سید غوث علی شاہ کا دھچکا برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی اور ہنگامی طور پر بند باندھنے کی کوشش کی گئی۔
اسی سلسلے میں سید غوث علی شاہ کی عملاً احتجاجی پریس کانفرنس کے دو یا تین دن بعد میاں نواز شریف سید غوث علی شاہ کو راضی کرنے کے لئے کراچی میں انکے گھر پہنچے اور پھر میاں نواز شریف اور سید غوث علی شاہ کی ملاقات ہوئی۔ سید غوث علی شاہ کی رہائش گاہ پر میڈیا کا ایک ہجوم تھا۔ملاقات والے کمرے کے داخلی دروازے کے پاس ہمارے ساتھ ممنون حسین مرحوم بھی تھے اور باہر آتے ہی میاں نواز شریف نے ممنون حسین مرحوم کا ہاتھ پکڑا اور آہستہ سے کہا کہ ’’ممنون صاحب! ناراض نہ ہونا ، ان شاء اللہ بہتر ہوگا‘‘ ممنون حسین مرحوم نے کہا ’’ میاں صاحب! آپ کا جو بھی ہو وہ فیصلہ قبول ہے‘‘ (اس وقت ہم 4 یا 5 صحافی وہاں پر موجود تھے اور سب نے یہ بات سن لی ، یک زباں ہوکر سرگوشی کے انداز میں کہا میاں نواز شریف نے ممنون صاحب کے ساتھ پھر ہاتھ کردیا۔ مجھ سمیت کچھ کا خیال تھاکہ کبھی اچھے وقت میں گورنر یا سینیٹ کا ممبر بنادیں گے۔) تھوڑی میں میاں نواز شریف اور شاہ صاحب کی پریس کانفرنس شروع ہوئی اور تقریباً آغاز پر ہی میاں صاحب نے کہاکہ پارٹی کی صوبائی ذمہ داری شاہ صاحب کے پاس ہی ہوگی اور ممنون صاحب کو دوسری ذمہ داری ملے گی، پھر سیاسی باتیں شروع۔ اس موقع پر شاہ صاحب خوش تھے کہ پارٹی کے اندر مخالف گروپ (سندھ میں اس وقت ن لیگ دو واضح گروپوں میں تقسیم تھی، ایک گروپ سید غوث علی شاہ اور دوسرا ممنون حسین مرحوم )کو چت کردیا، مگر اسی دن انکا اپنا نام عملاً میاں نواز شریف کی فہرست سے کٹ اور ممنون حسین مرحوم کا نام اہم ذمہ داری کے لئے شامل ہوچکا تھا۔ بیشتر دوستوں کا خیال ہے کہ میاں نواز شریف اسی دن ممنون حسین مرحوم کو صدرپاکستان بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔
صدر بنانے کا حتمی اعلان حیران کن انداز میں !
میاں نواز شریف نے 2013ء میں نئے صدر کے نام کو حتمی شکل دینے کے لئے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی ، جس میں خواجہ سعد رفیق سمیت غالباً 5 افراد شامل تھے اور کمیٹی نے کئی روز کی کوشش کے بعد شاٹ لسٹ کرکے چند نام پیش کئے۔ بقول راوی (راوی ان لوگوں میں سے جو اس وقت صدارتی دوڑ میں نہ صرف شامل ، بلکہ اہم قرار دئے جارہے تھے) کمیٹی کے ایک رکن نے اس ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے کہاکہ ’’ ہم جب میاں صاحب کے پاس پہنچے تو انہوں نے نئے صدر کے نام پر بات چیت کی اور اسحاق ڈار نے بریفنگ دی ، اسی دوران اچانک میاں نواز شریف نے کہاکہ ہمارے صدر تو یہ آرہے ہیں اور وہاں موجود شخص سے کہا صدر صاحب کو بلالیں ، ہم نے دیکھا ممنون حسین صاحب آفس میں داخل ہوئے اور ہم سب حیران ہوئے ، کیونکہ اس سے پہلے کبھی میاں نواز شریف نے ذکر تک نہیں کیا تھا ۔ اس موقع پر سب تو خاموش رہے ، مگر اسحاق ڈار نے ناراضی کا اظہار کیا ۔ میاں نواز شریف نے پھر ممنون حسین مرحوم کو صدر نامزد کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے انکی پارٹی کے لئے قربانیوں کا ذکر کیا اور پھر نئے صدر پاکستان کا حتمی اعلان ہوا۔‘‘
لیڈی ڈیانا کے انتقال پر تعزیتی تقریب !
کراچی کے علاقے کورنگی میں ممنون حسین مرحوم کے ایک پرانے لیگی دوست ظہیر الدین پپن مرحوم رہتے تھے، جو بھی ہی شریف اور نفیس و سادہ تھے ، جو لیڈی ڈیانا کے چاہنے والے تھے ۔ لیڈی ڈیانا کے حادثے میں انتقال کے چند ہفتوں بعد انہوں نے کورنگی میں تعزیتی پروگرام رکھا ، جس کے مہمان خصوصی ممنون حسین مرحوم کو بنایا ۔ اس پروگرام میں دوستوں کے ساتھ ہم بھی شریک تھے ۔ ممنون صاحب نے کچھ تعزیتی کلمات اور خاتون کے فلاحی سرگرمیوں کی تعریف کے بعد پھر ظہیر الدین پپن سے اپنی دوستی کی طویل داستان مختصر انداز میں پیش کی ۔ کہنے لگے کہ پپن میرے بہت پیارے دوست ہیں ، ان کو میں کبھی نا نہیں کرسکتا۔ پھر مختلف ایشوز پر گفتگو کی ۔ اللہ تعالیٰ ممنون حسین مرحوم سمیت تمام مرحومین کی کامل مغفرت فرمائے۔