میں نے مختلف محکموں میں عورت افسران تو بہت ہی دیکھے ہیں لیکن میں متاثر دو کرداروں سے ہوا ہوں۔ایک کا تعلق تعلیم سے ہے تو دوسری کا صحت سے۔تعلیم اور صحت کے بغیر پورا معاشرہ ادھورا ہی تصور کیا جاتا ہے۔ اتفاق سے دونوں کے میاں ملازم بھی ہیں ۔دونوں پروفیسرز ہیں، ایک کا تعلق تعلیم سے تو دوسرے کا صحت سے۔ تعلیم کے افسر خاتون کے میاں سندھ یونیورسٹی میں تو صحت کے شعبے کے خاتون کے مجازی خدا کا واسطہ جناح اسپتال سے۔ دونوں خواتین کے والدین کا تعلق دیہی سندھ سے، ایک شاہ لطیف کے ضلعے مٹیاری سے تو دوسری کا درویش بزرگ مخدوم بلاول کے ضلع دادو سے۔ دونوں خواتین اپنے اپنے پیشے میں لڑائیاں لڑ رہی ہیں، ایک جہالت سے تو دوسری بیماریوں سے۔ دونوں دبنگ بھی ہیں تو غریب دوست بھی، اور یہ دونوں میری دوست اور بہنیں بنی ہوئی ہیں ۔تعلیم کے خاتون افسرکو دنیا رفیہ ملاح اور صحت سے جڑی ہوئی کو سیمین جمالی سے جانا جاتا ہے۔
میرے محبوب دوست گدا حسین لغاری کے عزیز اسد لغاری کی والدہ کا رات کو دو بجے آنے والا فون مجھے آج بھی یاد ہے جب وہ اتنی دیر گئے مجھے بار بار فون کررہی تھی اور جب آدہے بند آنکھ سے موبائل اٹھاکر ہیلو کیا تو خاتون کی چیخوں کی آوازیں آرہی تھیں کہ خدارا میرے بچے کو بچائیے، اس نے جذبات میں زہر کا پیالا پی لیا ہے ۔گلشن حدید سے جناح اسپتال کے لیے نکلے ہیں جب تک پہنچیں آپ کسی کو کہو۔۔۔خیر میں نے گھڑیال کی سوئی کو دیکھتے سوچا کہ اتنے دیر دو بجے رات میں کس کو کہوں؟؟ خیر اللہ کا نام لیکر سیمین جمالی کو میسیج کیا کہ “کیا آپ جاگ رہی ہیں؟ کسی کے زندگی کا سوال ہے، کچھ کرسکتی ہیں تو کریں ۔۔دو منٹ کے بعد دیکھا تو ان کا جواب تھا مجھے تفصیلات بتائیں اور مریض کے ساتھ آنے والے کا نام اور فون بھیجیں، خیر میں میسیج کرکے سوگیا۔۔صبح کو اٹھا تو میڈم سیمین کے موبائل سے دو میسیج تھے، مبارک ہو بچے کی زندگی بچ گئی، زہر کا اثر کافی خطرناک تھا بس بچانے والا قریب ہے مارنے والے سے۔۔یہ تو ایک کیس ہے جس کا ذکر کیا، مجھے یاد نہیں اسے کسی مریض کے لیے کہا ہو اور اس نے نظر انداز کیا ہو۔ ایک بار دوست کے کام سے ملنے گیا تو اسٹاف نے بتایا کہ میڈم مصروف ہیں، کہا ہے کہ تھوڑا انتظار کرو۔اسی اثناء میں ایک اور صحافی کیمرہ سمیت آن پہنچے، ان کا پیغام جیسے ہی میڈم تک پہنچایا تو اسے اندر بلانے کو کہا، اس صحافی نے دیکھا کہ میرا سینیئر باہر بیٹھا ہے میں کیسے اندر جائوں؟ عاجزی سے مجھے کہنے لگے سر، آپ بھی چلیے نا۔۔، ہم آپ کو باہر چھوڑ کر کیسے جائیں؟؟ میں نے انہیں سمجھایا تو وہ چلے گئے ۔ان کے جاتے ہی میں نے محسوس کیا کہ مریضوں کے اتنے کام کہے ہیں کہ وہ تنگ آگئی ہیں، یا ڈاکٹروں کے ہائوس جاب میں ریزیڈنسی کی رکیسٹ سے گھبراکر مجھ سے جان بوجھ کر دیر سے مل رہی ہیں ۔ مجھے اس لمحے انڈین صوفی رائیٹر گرو رجنیش اوشو کے وہ جملے یاد آئے کہ “انسان سب سے پہلے اپنی عزت خود کرے، جب اپنی عزت کرنا شروع کریگا تو دنیا ازخود عزت کریگی”.. اوشو نے مجھے اٹھ کھڑا کیا اور ایک دکھ والا میسیج موبائل سے بھیج دیا، * اب پتا پڑ گیا ہے کہ آپ مجھ سے تنگ آگئی ہیں، آئندہ نہیں آئونگا۔۔۔ *اس صحافی سے جیسے ہی وہ فارغ ہوئیں اور میرا میسیج پڑھا تو چونک گئی، ایک دم سے مجھے کال کرنی شروع کردی۔میرے اندر کا جذباتی انسان جاگ گیا تھا مجال کہ اس کا فون اٹینڈ کرے اور میسیج کا جواب دے ۔انہوں نے لکھا کہ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، میرا فون اٹینڈ کرو تو ماجرا بتائوں، یہ کیسے ممکن ہے میں اپنے بھائی سے اس طرح پیش آئوں؟؟!!۔ خیر میری یہ ناراضگی کئی ہفتوں تک چلتی رہی کہ اچانک اسلام آباد نمبر سے فون آیا، اٹینڈ کیا تو آپریٹر نے بتایا ڈی جی ایف آئی اے بات کرنا چاہتے ہیں ۔میں سوچنے لگا کہ بشیر میمن صاحب تو ہمیشہ اپنے ہی نمبر سے بات کرتے ہیں آج لینڈ لائن پر کیوں آیا؟ خیر دعا، سلام کے بعد وہ بہت برہم ہوئے کہ تم کیسے انسان ہو کہ بہنوں سے ناراض ہوتے ہو..۔کچھ دیر تک جھاڑ پلانے کے بعد کہا کہ سیمین جمالی جس طرح میری بہن ہے اسی طرح آپ کی بھی ہے، ناراضگی کس بات کی؟ میں نے پرانی کہانی بتائی تو انہوں نے کہا کہ ارے درویش جس وقت تم ان سے ملنے گئے تو ایک سینیئر افسر موجود تھے اور آپ ہمیشہ اس افسر کی بجاتے رہے ہیں، اس کو اگر پتا چل جاتا کہ تمہارے باجی سے بہترین تعلقات ہیں تو تم کبھی بھی اس کے خلاف لکھ نہیں سکتے، باجی اس سے بچنے کے لیے تمہیں ہولڈ کرایا تاکہ وہ چلا جائے تو سکون کے ساتھ کچھری ہوسکے۔خیر میں نے بشیر صاحب کے ڈانٹ کھانے کے بعد ادی کو فون کیا تو بہت خوش ہوئی کہنے لگی،، تم میرے سگے بھائیوں کی طرح ہو، وعدہ کرو جب تک زندہ ہوں آئندہ ناراض نہیں ہونگے۔آس بات کو بھی کئی سال گذر گئے ہیں وہ آج کل کینسر جیسی خطرناک مرض سے لڑکر انتظامی عہدے پر آئی ہیں۔جناح اسپتال اور سیمین جمالی لازم اور ملزوم ہیں، وہ خطرناک ایڈمنسٹریٹر ہیں اس کا اندازہ اس سے لگائیں جب شرجیل میمن جیل سے اسپتال آئے تھے اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس کے کمرے پر چھاپہ مارا تو شراب برآمد ہونے کی خبریں چل گئیں، جب چیف کے حکم پر لیباریٹری ٹیسٹ کرایا تو شراب شہد بن چکا تھا۔ ان دنوں میں سیمین جمالی امریکہ گئی ہوئی تھیں، پیچھے جس صاحب نے چارج سنبھالا تھا اس کے ہاتھ پاؤں پیلے ہورہے تھے کہ مجھ سے چارج واپس لے لو میرے بس کی بات نہیں ۔واقعی بھی جناح اسپتال سمبھالنا کسی ایرے غیرے کے بس کی بات نہیں اور ڈاکٹر صاحبان تو ویسے ہی نفیس ہوتے ہیں ان کا ایڈمنسٹریشن چلانے سے دور دور تک تعلق نہیں بنتا ۔یہ ڈاکٹر سیمین جمالی کا حوصلہ اور ہمت ہے کہ بیس سالوں سے ایمرجنسی انچارج سے لیکر ایگزیگٹو ڈائریکٹر کے عہدے تک بہادری سے براجمان رہنا کوئی مذاق نہیں ہے۔ویسے تو ان کا نام پرشین زبان کا ہے جس کا مطلب چاندی ہے لیکن میں سمجھتا ہوں وہ چاندی نہیں، پارس ہے جہاں لگے، جس کو لگے سونا کردے ۔۔
محکمہ تعلیم سے تعلق رکھنے والی دوسری خاتون رفیہ ملاح کوئی عام عورت نہیں، انتہائی مضبوط اعصاب کے مالک اس عورت نے جس طرح ایجوکیشن کے ایڈمنسٹریشن کو سنبھالا ہے کئی مرد افسران بھاگ گئے ۔کراچی کے نجی اسکول جس میں اکثریت مافیا بن چکی ہے انہیں قانون کے تابع لانا بہت بڑا آرٹ ہے جس کو رفیہ ملاح سنبھالنا جانتی ہے۔کراچی کے نجی اسکول مالکان اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ وہ فیس تو مرضی کی لیتے ہیں بلکہ کس کی ہمت جو ان کے سامنے بول سکیں ۔وزیر تعلیم سے لیکر سیکریٹری تعلیم تک، کسی کی مجال نہیں ہوتی کہ ان نجی اسکولوں میں ہاتھ ڈال سکیں ۔گذشتہ سال عدالت نے حکم جاری کیا کہ جون جولائی میں فیس نہیں لی جائے گی جبکہ اسکول انتظامیہ اپنی مرضی سے فیس بڑہائیگی بھی نہیں اور قانون کے مطابق دس فیصد غریب بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرینگے۔عدالتی حکم کی انحرافی تاحال جاری ہے لیکن محکمہ تعلیم کی مجال جو عمل درامد کرائے ،رفیہ اگر کسی کاروائی کے لیے ٹیم بھیج دے تو اسکول مالکان کے ہاتھ اتنے لمبے کہ بڑے بڑے ہائوس سے فون آجائے کہ فلاں اسکول میں ٹیم کیوں بھیجی گئی، مطلب سرکاری افسران کی کیا ہمت کہ انسپیکشن کرسکیں ۔رفیہ ملاح میں انتظامی لحاظ سے اتنی قوت ہے کہ ان سب کو ٹھیک کرسکتی ہے لیکن ہماری سرکار خود بڑے بڑے اسکولوں کے مالکان کے آگے گھٹنے ٹیک دیتی ہے ورنہ بہت سارے بدمعاش بن جانے والوں کو گریباں میں پٹا ڈالنا کوئی اس خاتون کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔
مردوں کے معاشرے میں ان دو خواتین افسران نے جس طرح سے لوہا منوایا ہے وہ خود تاریخ بن گئی ہیں ۔ محکمہ خزانہ میں ستر کی دہائی میں رعب تاب رکھنے والے سیکریٹری خزانہ رہنے والے ہالا کے جی ڈی میمن کے جینز ان کی بیٹی سیمین جمالی میں بھی منتقل ہوئے ہیں۔ اسی طرح دادو کے ماہی گیروں کے گھر میں پیدا ہونے والی رفیہ ملاح کا لہجہ و انداز اسی مچھیروں والا ہے جو دریاء کی دشت سے نہیں ڈرتے وہ شہری مافیائوں سے کیا خوف کھائیں گی ۔ہزاروں مڈل کلاسی بچوں کو بہترین اسکولوں میں داخله دلانے والی اس خاتون کا کیپ دس پندرہ سالوں کے بعد تیار ہوکر نکلے گا تو وہ کسی وڈیرے، جاگیردار، ایم پی اے، ایم این اے کے آگے نوکری کے لیے بھیک مانگے گا بلکہ کراچی کے ان اسکولوں کے بچے دنیا کے بہترین اداروں میں اہم عہدوں پر ہونگے وہ اس شہر کراچی کو ،اپنے صوبے اور ملک کا نام روشن کرینگے ۔جن خواتین کا میں نے ذکر کیا ہے یہ وہ افسران ہیں جن کے آگے بہت سارے مرد مرید بن کر ان سے، سیکھنا چاہتے ہیں ۔میں نے محض دو خواتین افسران کا ذکر کیا ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ کئی خاتون افسران ہونگی جو مردوں کے معاشرے میں مثالی کردار بن سکتی تھیں لیکن افسوس کہ انہیں موقع نہیں ملا، کئی سیکڑوں ایسی بھی خواتین ہونگی جن کے اندر کا ایڈمنسٹریٹر گھر کی دہلیز پر دب کر باہر نکل نہیں سکا،اور ایسے خواتین کے لیے شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔۔دل کے ارماں آنسوؤں میں بہہ گئے، ہم وفا کرکے بھی تنہا رہ گئے۔
(نوٹ.. ضروری نہیں کہ ان خواتین افسران کے حوالے سے میری تحریر سے کوئی اتفاق کرے ،ہر ایک کے اپنے اپنے تجربات ہیں)۔