سید قیام الدین جو قیام نظامی کے نام سے معروف ہیں، بچپن سے ہی شرافت، دیانت اور نرم مزاجی سے بھرپور شخصیت رہے ہیں۔ جب خود زیر تعلیم تھے بھرپور محنت کرتے تھے۔ جب پڑھانے لگے تو شفقت کا پیکر بن گئے۔درس و تدریس ہمیشہ سے ان کا شوق رہا۔ مجھے یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے مجھے کندھوں پر بھی بٹھایا۔ پڑھنا اور لکھنا سکھایا۔ تقریریں کرنا بھی میں نے ان سے ہی سیکھا۔ اتنا نرم مزاج شخص میں نے اپنی زندگی میں چند ہی دیکھے ہیں۔ اپنے بڑے بھائی قیام نظامی کو قہقہہ لگاتے شازو نادر ہی دیکھا ہے۔ جب خوش ہوتے مسکرا دیتے۔ کسی نکتے پر بات کرتے تو دلائل کے ساتھ۔ کوشش کرتے کہ کسی کے ساتھ بحث میں نہ الجھیں۔ نرم گوئی کا یہ حال کہ اختلاف کرنے والوں سے بھی انکساری کے ساتھ پیش آتے۔ جب میں بچہ تھا کسی تماشے یا بھیڑ بھاڑ میں اپنے ساتھ لے جاتے تھے اور مجھے اپنے کندھے پر بٹھا لیتے تاکہ میں سارے مناظر دیکھ سکوں۔ میرے گھر سے اسکول خاصہ دور تھا۔ میرے گھر سے دو سائیکلیں چلتی تھیں۔ ایک کو قیام بھائی (بڑے بھیا) چلاتے اور میں ان کے سامنے بیٹھتا تھا جبکہ دوسری سائیکل کو امام بھائی چلاتے اور پیچھے کیرئیر پر اشرف بھائی بیٹھتے۔ قومی تہوار کے موقعوں پر ڈھاکہ میں چراغاں دکھانے کے لئیے بھی یہی دونوں بڑے بھائی اپنی اپنی سائیکلوں پر جاتے۔ مذہبی اور قومی تہواروں کے موقعے پر گھر کو سجانے کے لئیے قیام بھائی رنگ برنگے جھنڈے اور دیگر سامان لا کر ہمیں دیتے اور بتاتے تھے کیسے اور کب یہ کام کرنے ہیں۔ پڑھاتے وقت سختی بھی کرتے تھے۔ میں نے ان سے مار بھی کھائی ہے۔ سوچتا ہوں تب میں اور بعد میں کتنا فرق پڑ گیا تھا۔ جن کے اشاروں پر میں بچپن میں چلتا تھا اب ہر گھریلو مسلے پر وہ میرے فیصلوں کے منتظر ہوتے ۔ اولادوں کی شادیوں کے معاملات ہوں یا خاندانی اونچ نیچ مجھ سے پوچھے بغیر کوئی قدم نہ اٹھایا۔ جب میں بڑا ہوا مجھے اپنا بازو قرار دینے لگے۔ جب میں امریکہ سدھارا زارو قطار روتے تھے۔ اپنے بیٹوں سے کہتے ارشد میرا بازو تھا۔
قیام بھائی میرے آئیڈیل تھے۔ میرے بھائی، میرے سرپرست اور ایک بہترین انسان تھے۔ اسکول میں بھی میرے استاد ہوئے اور گھر پر میرے ایک ٹیوٹر بھی۔ اسکول کے زمانے ہی سے مجھے چھوٹے چھوٹے مضامین لکھواتے اور اس وقت تک لکھواتے رہے جب تک میری تحریر میں پختگی نہ آ گئی۔ تقریر کی پریکٹس کرواتے اور اس کے اندر اتار چڑھاؤ کے انداز بتاتے، جملوں کی ادائیگی کے انداز اور اس کے گر بتاتے تھے۔ میں نے ڈھاکہ اور پھر کراچی کے جلسوں میں وہ مناظر بھی دیکھے ہیں جن میں میں اسٹیج پر بیٹھتا اور مائیک پر تقریر کر ہا ہوتا اور میرا یہ عظیم بھائی مجمعے میں بیٹھا امام اور اشرف بھائی کے ہمراہ میری تقریر پر تالیاں بجا رہا ہوتا تھا۔
قیام بھائی کی ایمانداری بھی مثالی تھی اور اس کی تربیت ماں نے دی تھی۔ جب یہ چھوٹے تھے گھر کے باہر کھیلتے ہوئے کوئی معمولی سا کھلونا گھر لے آئے۔ والدہ نے پوچھا یہ تمہارا کھلونا ہے؟ بھائی نے جھوٹ نہیں بولا۔ سچ بتایا فلاں بچے کا ہے۔ والدہ نے پہلے تو کہا کہ جا کر دے آؤ پھر وہ واپس آئے تو والدہ نے چولہے سے جلتی ہوئی لکڑی نکالی اور ان کی ہتھیلی پر رکھ دی۔ جلنے کانشان ان کے مرنے تک تھا۔ پڑوسیوں نے ماں کا بیٹے پر ظلم قرار دیا مگر یہی بچہ بڑا ہوکر معاشرے میں ایمانداری کی مثال بن گیا۔
میرے بھتیجے سب مجھ سے شوخ بھی ہیں۔چار برس پہلے کی بات ہے۔ میں شکاگو سے کراچی آیا ہوا تھا۔ ان کے چھوٹے بیٹے عون احمد نظامی جو حافظ اور عالم بھی ہیں کسی معاملے پر مجھ سے الجھ پڑے۔ بڑے بھیا وہاں پر موجود نہ تھے مگر جب اس واقعے کی اطلاع انہیں ملی تو انہیں سخت رنج ہوا۔مجھے فون کیا اور روتےہوئے کہنے لگے کہ میں تم سے بیٹے کی جانب سے معافی مانگتا ہوں۔ میں شرم سے زمین میں گڑ گیا۔ چار بھائیوں میں وہ سب سے بڑے اور میں سب سے چھوٹا۔ اس کے باوجود وہ معافی مانگ رہے تھے۔ مجھ پر اعتماد کا عالم یہ تھا کہ اپنی دونئی کتابوں (جلد منظرعام پر آئےگی)کے بارے میں مسلسل فون پر بات کرتے اور جو مشورہ میں دیتا من و عن اسے تسلیم کرتے تھے۔بلکہ حد تو یہ ہوئی کہ وفات سے ایک ماہ قبل میں نے ان سے بات کی کہ چند ابواب سے دو تین سطریں نکال لی جائیں۔نہ صرف انہوں نے اجازت دی بلکہ یہ بھی کہا کہ تمُ جو چاہو تبدیلی کرلو۔ میں نے وعدہ کیا کہ شکاگو واپس جانے سے پہلے ایک کتاب شائع کرواکے آپ کو پیش کروں گا۔ مگر وائے قسمت وہ چلے گئے اور کتاب اگلے دس دنوں میں چھپ کر منظر عام پر آئے گی۔ وہ نہ رہے مگر ان کے علم کی روشنی معاشرے میں ضرور پھیلے گی۔