کرونا کی بیماری بھی عجب بیماری ہے۔ اچھا بھلا آدمی کرونا کا شکار ہوتا ہے اور تنہائی میں چلا جاتا ہے۔ ڈاکٹر کہتے ہیں خود کو کسی کمرے میں بند کر لو، ملنا جلنا چھوڑ دو، کمرے سے باہر نہ نکلو، کسی سے بات چیت نہ کرو، گپ شپ سے پرہیز کرو۔ اب آدمی تو پھر آدمی ہے، کسی سے نہ ملے، حال دل نہ کہے، دوسروں کے لڑائی جھگڑوں میں نہ پڑے، غیبت نہ کرے، بدگمانی اور بدزبانی نہ کرے توبھلا وہ آدمی ہی کیا اور زندگی کا لطف و مزہ ہی کیسا۔ ہمارے ایک عزیز آخری فلائٹ سے اپنی بیگم کے ساتھ اپنے گھر امریکا گئے تو عجب ہی ماجرا ہوا۔ دونوں میاں بیوی نے خود کو قرنطینہ کر لیا، مطلب یہ کہ کمرے میں خود کو نظر بند کرلیا۔ بہو ان کی میز پہ کھانا سجا کے خود کو بھاگ کر کچن میں چھپا لیتی تھیں اور وہیں سے آواز لگاتی تھیں:
’’کھانا لگ گیا ہے آکے کھا لیجئے‘‘
آواز سن کے دونوں میاں بیوی باری باری سہمے سہمے سے ڈرے ڈرے سے کمروں سے نکلتے تھے، جلدی جلدی کھانا زہر مار کرتے اور دوبارہ اپنے ٹھکانوں پہ پہنچ کے دھڑام سے دروازہ بند کر لیتے۔ پھر کیا کرتے؟ ہمیں نہیں معلوم۔ بند کمروں کے اندر کوئی کیا کرتا ہے، یہ تو وہی جانے۔ بدقسمتی سے ہماری بیگم کی طبیعت بھی پچھلے دنوں ناساز ہوئی۔ گھر والوں کو شبہ ہوا، ہو نہ ہوکرونا ہی ہے۔ آثار بھی کچھ ایسے ہی تھے۔ مجبوراً انھیں بھی قرنطینہ کرنا پڑگیا۔ انھیں کمرے کے باہر ہی ٹرے میں کھانا لگا کر دروازے پرچھوڑ دیا جاتا۔ وہ دروازہ کھول کر ٹرے کو اندر کھینچ لیتیں، ہمیں ان سے بات چیت کرنا ہوتا تو باہر کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے پاس ماسک سے چہرہ چھپا کر چلے جاتے۔ جو کچھ کہنا ہوتا کہتے، جو کچھ ان سے سننا ہوتا سنتے اور پھر دل تھام کے واپس آجاتے۔ پھر کیا ہوا؟ آپ سنیں گے تو ہنسیں گے۔ ان کا کرونا کا ٹیسٹ کرایا گیا۔ ٹیسٹ کرنے والے آئے تو ان کی حالت بھی پتلی تھی۔ کمرے کے اندر فُل حفاظتی ڈریس میں آئے، پہلے پورے کمرے کا چھڑکائو کیا، کرونا کے بدنام زمانہ جراثیم سے ماحول کو پاک صاف کیا اور پھر ٹیسٹ لیا، نو دس ہزار روپوں کا جرمانہ کیا اور چلتے بنے۔ دو روز بعد ٹیسٹ کی رپورٹ آئی تو رزلٹ نیگیٹو تھا۔ بچّوں نے خوشی کے نعرے لگائے، کرونا کو شکست دے کر۔ پورے گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ رشتہ داروں نے فیس بک اور واٹس اپ پہ مٹھائیوں کی مانگ کی __ اور کیوں نہ کرتے صحت یابی کے لیے دعائیں جو کی تھیں۔ داماد محترم نے جوخود کرونا میں مبتلا ہوکر صحت یاب ہوچکے تھے اور ہم پہ پابندی لگا دی تھی کہ خبردار بیگم کے کمرے کا رخ نہ کرنا، فون کرکے ہمیں اجازت دی کہ اب آپ بلا تکلف اپنی بیگم کے قریب جاسکتے ہیں، انھیںچھو سکتے ہیں، ان سے ان کا حال احوال بھی پوچھ سکتے ہیں کہ اس میں اب کوئی مضائقہ نہیں۔ بھائیو! سچ پوچھو تو یہ بیماری ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ یہ میاں کو بیوی سے، ساس سسر کو بہو اور بیٹے سے، دوستوں کو دوست سے اور عزیزوں کو رشتہ داروں سے جدا کر دیتی ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ہفتے بھر سے ہم یہی سوچے جارہے ہیں ہماری چھوٹی بیٹی آمنہ کہنے لگیں: ’’شکر خدا کا، امّی اعتکاف سے نکل آئیں۔‘‘ ہم چونک پڑے۔ یا اللہ! یہ بچّی سچ ہی تو کہہ رہی ہے۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں جو اعتکاف کرنے والا مسجد کے حجرے میں خود کو قید کر لیتا ہے، نہ کسی سے ملتا جلتا ہے، نہ دوسروں سے گپ شپ کرتا ہے اورمجبوراً یا اتفاقاً کرتا بھی ہے تو دنیاوی باتیں تو بالکل نہیں کرتا۔ افطار اور سحری بھی حجرے کے اندر ہی کرتا ہے۔ نمازیں اور تلاوت وغیرہ بھی پردے کے پیچھے ہی ہوتے ہیں۔ بس نماز باجماعت کے لیے نکلتا ہے اور پھر واپس پردے کے پیچھے چھپ جاتا ہے اور عورتیں جو گھروں میں اعتکاف کرتی ہیں، وہ بھی قرنطینہ کی طرح خود کو ایک کمرے میں بند کر لیتی ہیں، وہ تو نماز کے لیے بھی باہر نہیں نکلتیں۔ کمرے ہی کے اندر ذکر و فکر میں لگی رہتی ہیں۔ توہم نے سوچا کہ کیا فرق ہے، اعتکاف اور قرنطینہ میں۔ دونوں ایک ہی جیسے ہیں۔ تنہائی اور اکیلا پن۔
اعتکاف میں بھی تنہائی
قرنطینہ میں بھی تنہائی
ہم نے زمانۂ طالب علمی میں پڑھا تھا کہ گو تم بدھ کو جب زندگی سمجھ میں نہ آئی تو ایک رات وہ بیوی بچّوں کو چھوڑ کے جنگل کو نکل گیا اور برسوںحالت تنہائی میں رہا۔ کھانا پینا چھوڑ دیا، یہاں تک کہ بدن کی پسلیاں نظر آنے لگیں، تب ایک رات اسے آسمان سے روشنی سی اترتی نظر آئی جسے نروانا کا نام دیا گیا۔ پھر وہ واپس آبادی میں آیا اور اس نے بدھ مت کی تعلیمات دنیا کے سامنے پیش کیں۔ ہم نے یہ بھی پڑھا ہے کہ جو صوفیہ، سادھو اور درویش زندگی کو سمجھنا چاہتے ہیں۔ وہ جنگلوں اور ویرانوں کو نکل جاتے ہیں۔ وہاں وہ برسوں تنہائی میں رہتے ہیں، سوچ بچار کرتے ہیں اور جب حقیقت، یعنی اپنی حقیقت سمجھ میں آجاتی ہے تو واپس لوٹ آتے ہیں اور جو کچھ سمجھ میں آیا ہے وہ دوسروںکو سمجھاتے ہیں۔ تو یہ تنہائی کیا ہے اور یہ آدمی کی حقیقت کیا ہے، اعتکاف اسی لیے ہے کہ آدمی اپنی حقیقت پر غور کرے، جب اسے اپنی حقیقت سمجھ آجائے گی تو وہ اپنے پیدا کرنے والے کو بھی پہچان لے گا۔ ہم خدا کو اس لیے نہیں پہچان پاتے کہ ہم اپنے آپ ہی کو نہیں سمجھتے۔
بات ذرا دُور نکل گئی، ہم تو یہ کہہ رہے تھے کہ قرنطینہ کی تنہائی میں آدمی کیا کرتا ہے۔ ہماری بیگم تو تلاوت کرتی رہیں۔ نماز پڑھتی رہیں اور ماسک لگا کے عزیزوں رشتہ داروں سے موبائل پہ بات چیت کرتی رہیں۔ دوسرے بھی یہی کرتے ہوں گے۔ اور یہ نہ کریں تو اور کیا کریں۔ آج کل کی زندگی ایسی ہوگئی ہے کہ اپنی حقیقت پر غور و فکر کی فرصت ہی کس کو ہے۔ یونانی فلسفی سقراط کہا کرتا تھا کہ بھئی میں تو ایک ہی بات جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔ کسی نے کہا بھائی سقراط اگر تم بھی کچھ نہیں جانتے تو دوسروں میں اور تم میں فرق ہی کیا ہوا۔ سقراط تو پھر سقراط تھا، بولا: بھائی! دوسرے یہ بھی نہیں جانتے کہ وہ کچھ نہیں جانتے__ تو یہ جاننا کیا ہے؟
اپنے آپ کو جاننا کہ ہم کون ہیں؟ ہم کہاں سے آئے ہیں؟ مر کر کہاں جائیں گے؟ ہم پہ کیا گزرے گی؟ دنیا میں جو کچھ ہم کر رہے ہیں اس کا مطلب کیاہے؟وغیرہ۔ جب ہم یہ جان لیں گے تو پھر یہ بھی معلوم ہو جائے گا کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ اور کن چیزوں سے بچنا چاہئے یہ جو ہماری ذات سے دوسروں کو تکلیفیں پہنچتی رہتی ہیں، چاہے زبان سے پہنچے یا معاملات سے، وہ اسی لیے ہیں کہ ہم خود کو بھی نہیں جانتے اور دوسروں کو بھی نہیں پہچانتے۔
آپ کیا کہیں گے، یہی ناکہ بھائی اتنی گہری یعنی Deep باتوں پر کون سوچے؟ اب میں کیا عرض کروں آپ سے کہ کورونا کا جرثومہ اسی لیے آیا ہے کہ انسان سوچے، قرنطینہ کی تنہائی اسی لیے فرصت دیتی ہے کہ آپ سوچیں۔ وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو سوچتی ہیں۔ نجات اسی کو ملتی ہے جوسوچتا ہے۔ خدا نے انسان کو ذہن اس لیے دیا ہے کہ وہ سوچے۔ اس لیے نہیں دیا کہ سازشی تھیوری تیار کرے۔
آیئے __ آج سے ہم سوچنا شروع کریں۔ اپنے بارے میں __ صرف اپنے بارے میں۔ دوسروں کے بارے میں نہیں۔ کیوں کہ دوسرے ہم سے الگ تو نہیں۔ جیسے ہم ہیں ویسے ہی دوسرے ہیں۔
وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں
یہ ہمارے عظیم شاعر میر تقی میر نے کہا تھا۔ کیا آپ نے انھیں پڑھا ہے؟ نہیں پڑھا تو پڑھیے۔ مگر آپ پڑھیں بھی تو کیسے۔ آپ نے پڑھنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ پڑھنے کو میسجز جو آنے لگے ہیں۔ ان سے فرصت ملے تب نا۔