خوابوں کا اب کہاں پر، جانے شجر اُگے گا
کچھ بیج بو رہی ہیں، خانہ بدوش آنکھیں
سالِ گزشتہ، کووڈ کے بدترین اثرات کے ساتھ جہاں ہر ایک کے ذہن و دل کو متاثر کرتا رہا وہیں فکر و فن سے وابستہ ادبی شخصیات نے اس کو اپنی راہ کی رکاوٹ نہیں سمجھا بلکہ اس عہدِ کورونائی میں بھی اپنی حساس طبیعت کے زیرِ اثر اپنے تصورات، تجربات اور مشاہدات کو اپنے شعری سخن میں مہارت سے سمیٹا-
زمیں پہ بوجھ تھا طاہر، مرے گناہوں کا
میں اپنا درد نہ لکھتا وبا کے موسم میں
کچھ عرصہ قبل طاہر حنفی صاحب کا تیسرا شعری مجموعہ “خانہ بدوش آنکھیں” موصول ہوا- خوبصورت اور منفرد کلام نے مستقل اپنی گرفت میں لیے رکھا اب حقِ کتاب اسی طرح ادا کیا جا سکتا ہے کہ اس کتاب میں شامل خوبصورت کلام کو اپنے باذوق قارئین تک پہنچایا جائے-
طاہر حنفی صاحب نے اپنے پہلے شعری مجموعے ” شہرِ نارسا” کے ذریعے ہی اپنے منفرد ادبی لہجے اور اعلیٰ تخیل سے قارئین کے دل موہ لیے تھے پھر 2019 میں “گونگی ہجرت” قارئین کو ایک الگ ہی دنیا میں لے گئی جس کے رنگ بہت مختلف اور انداز بہت جدا تھا- مختلف جذبات و احساسات کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اصلاحی پہلو کی خواہش اور برائی کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہوجانے کی ترغیب و ہمت دلاتی ہوئی شاعری پڑھنے والوں کو قدم قدم پر چونکاتی رہی-
دو سال کے قلیل عرصے میں ہی تیسرے مجموعہ کلام ” خانہ بدوش آنکھیں ” کا اجراء طاہر صاحب کی ادب سے سنجیدہ محبت اور جہدِ مسلسل کا بین ثبوت ہے-
زیرِ تبصرہ کتاب کا پہلا اور غالب حصہ غزلوں پر جب کہ دوسرا اور تیسرا حصہ بالترتیب نثری نظموں اور آزاد نظموں پر مشتمل ہے- غزلوں میں منفرد ردیف کا استعمال کیا گیا ہے اور غزلوں کی طرح نظموں پر بھی آپ کی گرفت مضبوط ہے-
آسودگی نچوڑ کر ٹکڑوں میں بٹ گیا
ایک لمحہ وصال جو آنکھوں میں کٹ گیا
ایک نئے لہجے اور توانا آواز کے ساتھ طاہر حنفی صاحب کا اسلوب بہت جداگانہ ہے- روایتی شاعری کے برعکس وہ جدّت پسندی کے نئے رحجان کی طرف زیادہ مائل نظر آتے ہیں- انکی خوبصورت غزلیں اور فکر انگیز نظمیں بیشتر جگہوں پر جدید طرزِ احساس کے ساتھ زندگی سے حقیقی مکالمہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں-
“شہر نارسا” اور “گونگی ہجرت” نے جیسے آپ کی سوچ کے پر کھول کر رکھ دیے ہیں اور باطل کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہونے کے سفر میں لاکھوں مداحوں کی شمولیت کو اپنی طاقت بنا لیا ہے اور قلم کی یہ طاقت آپ کے تیسرے شعری مجموعے “خانہ بدوش آنکھیں” میں نمایاں ہے-
عزت کسی غریب کی یونہی نہیں لٹی
اس میں زمیں کے سارے خداؤں کا ساتھ ہے
سر میں جھکاؤں گا نہیں، باطل کے سامنے
طاہر ! تو کر معاف مجھے ، یا نہ کر معاف
آپ کا نڈر اور بے باک لہجہ آپ کی ادبی پہچان ہے- اکثر مواقع پر آپ کے اندر کا نڈر انسان بے دھڑک، بغیر کسی خوف کے اقتدارِ اعلیٰ کے ایوانوں کے بلند ستونوں کو بھی ہلا دینے کی سعی کرتا نظر آتا ہے، اور مظلوم کی آواز بن کر ظالم کے خلاف ڈٹ جاتا ہے-
تو کاش ان کو دیکھتا،تیرے ہی لوگ تھے
جو لے کے غم کی شال کہیں چیختے رہے
طاہر! وہ کون لوگ تھے،جن پر ستم ہوا؟
جو نوچتے تھے بال، کہیں چیختے رہے
اپنے اردگرد کے حالات و واقعات، رویوں اور تضادات پر آپ کی بھرپور نظر ہے اسی وجہ سے آپ کی شاعری معاشرتی زندگی کے جملہ نشیب و فراز کا بھرپور احاطہ کرتی ہے-
کہ چیر ڈالا گیا، پہلے بے گناہ مجھے
مرے وجود کا چنتے ہیں اب برادہ لوگ
سمندر آگیا ہے خودسری پر
زمیں لرزیدہ ہے اس بے بسی پر
کہیں کہیں ہمیں طاہر حنفی صاحب کا شعری لہجہ زندگی کی ٹھوکروں کو محسوس کر کے وقتی طور پر شکستہ ہوتا محسوس ہوتا ہے مگر جلد ہی وہ اس پر اپنے عزم و حوصلے سے قابو پا کر اس تاثر کو زائل کر دیتے ہیں اور قارئین کو ایک ایسا نیا راستہ دکھاتے ہیں جہاں پر امید بھی ہے اور ثابت قدمی بھی-
اس بار کر سکوں گا میں کس کس سے اختلاف؟
قسمت، نصیب، زندگی، سب ہیں میرے خلاف
وہ پیار، وہ خلوص و عقیدت کہاں ہے اب؟
پہلے سے وہ نہیں رہے، دکھتا ہے صاف صاف
اپنی قسمت کے لکھے پر راضی رہ
کبریا کے حکم کی تعظیم کر
ہم تو چٹان کی مانند رہیں گے یونہی
آندھیوں میں نہیں یہ پاؤں اکھڑنے والے
زندگی کے بنجر صحرا میں لامتناہی سفرِ مسلسل کے دوران پپڑی زدہ سوکھے ہونٹوں سے سیراب نہ ہو سکنے والی پیاس کی اذیت کو کمال خوبصورتی سے شعری پیراہن پہنایا ہے کہ قاری شعر کی پر درد منظر کشی کے ساتھ بیان کردہ شعری تمثیل میں کھو کر رہ جاتا ہے-
صحرا کی ریت پانی کی چھاگل کو لے اڑی
پہنے بدن نے آبلے جب پیاس کے لیے
دشت کے قدموں کو کل تک لب اس نے لگائے اپنے
آج وہیں دیتا پہرہ ہے یہ خاموش سمندر
گرچہ معاشرتی و سماجی بدلتے رحجانات آپ کے شعری لہجے میں بے ساختہ طنز کے تیر گھول دیتے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ فکری و اصلاحی پہلو بہرحال نمایاں نظر آتا ہے –
رانی بھی بادشاہ بھی سارے غلام چپ
کردار ہیں کہانی کے سب آج شام چپ
جاہل عدو سے باتوں سے بدلہ نہ لے تو دوست
اس سے بڑا نہیں ہے کوئی انتقام، چپ
نابینا بیچتا ہے بصارت کو راہ میں
گونگے نے جب سے نطقِ پزیرائی چھین لی
حنفی صاحب کی شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ آپ کے منتخب کردہ الفاظ خوشبو کی طرح قاری کے جسم کے ساتھ اس کی روح تک کو مہکا دیتے ہیں اور اس میں موجود معنویت اور معاشرتی اصلاحی پہلو آپ کی شاعری کو عشق، محبت، ہجر و وصل کے مخصوص فریم سے باہر نکال کر انسانی ذات کی ڈھکی چھپی گرہیں کھولنا شروع کردیتی ہے اور خوبصورت پہلو بھی یہی ہے کہ پھر قاری بھٹکتا نہیں بلکہ ایک متعین کردہ سمت کی جانب شاملِ سفر ہو جاتا ہے-
میں نے بھی اپنی عمر میں لاکھوں کیے گناہ
میں بھی گناہ گار ہوں، مجھ کو ہے اعتراف
میرے ساتھ یہ میرا دل بھی ہے مجرم
یہ بھی ساتھ ہوگا، سزا کے سفر پر
لوگوں کی دین کی اصل روح سے دوری اور محرومی آپ کے شعری لہجے میں بے چینی کی فضا پیدا کر دیتی ہے- اسی دوری کی وجہ سےپیدا ہونے والے معاشرتی بگاڑ پر آپ کا احتجاج اس شعر میں ایک بے ساختہ تڑپ کے ساتھ نظر آتا ہے-
گھر اس لیے بنائے خدا کے زمین پر
شاید خدا کہیں نظر آئے زمین پر
کوئی تو آج بولے ”خداؤں“ کے ظلم پر
کوئی تو حشر آج اٹھائے زمین پر
مردہ ضمیر جسموں کا ، اک قافلہ ہے بس
زندہ بشر کوئی نہیں ، ہائے زمین پر
انسان کی اصل داستان بقا سے فنا میں نہیں بلکہ فنا ہو کر دائمی بقا میں پوشیدہ ہے- ان اشعار میں مٹی اور انسان کا تعلق اور اس سے منسلک فنا ہوجانے کی کیفیات کا بغور مشاہدہ اور اندازِ بیاں کیا ہی خوب ہے-
ہمارا جسم مقتل میں پڑا ہے، ریت کے اوپر
مگر جو کٹ گیا تھا سر، وہ ہے مٹی میں پوشیدہ
جہنم نام ہے جس کا، عذابِ قبر کی صورت
ہے وابستہ جو اس سے ڈر، وہ ہے مٹی میں پوشیدہ
اگر جنت کے نظارے کی ہے خواہش، تجھے اے دوست
تو اس کے واسطے تو مر، وہ ہے مٹی میں پوشیدہ
ارضِ پاک سے محبت اور عقیدت کا خوبصورت اظہار ملاحظہ کیجئے-
ہم تو مشت خاک ہیں اس خاک کی املاک ہیں
ہم پہ جو بھی قرض ہے وہ خاک ہی کا قرض ہے
انسان ساری عمر اپنے خوابوں کے بوجھ تلے دبا رہتا ہے-
یہ بن تعبیروں کے خواب اور تشنہ حسرتیں بالآخر اس کے لیے ایک مشکل بوجھ بن جاتی ہیں جنکو اپنے کاندھوں پر ڈھونا آسان نہیں ہوتا- خوابوں کے بوجھ تلے تھکن سے چور وجود کے ساتھ زندگی کی باقی ماندہ مسافت مشکل ترین ہوجاتی ہے- اس ساری کیفیت کو کیا ہی خوبصورتی کے ساتھ اس نظم کے قالب میں ڈھالا ہے کہ قاری اس نظم میں پیش کردہ ندرتِ خیال اور اسلوب کی روانی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا-
نظم
“سفرِ آخرت سے ذرا پہلے”
بہت دیر سے
مجھ کو وحشت نے باہوں میں جکڑا ہوا ہے
کہ اسلام آباد کے ایچ ایٹ ایسے
شہرِ خموشاں کا بھی گورکن فون اٹھاتا نہیں ہے
مجھے اس سے یہ پوچھنا ہے،
وہاں کیا جگہ کچھ بچی ہے ؟
میں اپنی ادھوری کہ جو نامکمل سی کچھ خواہشیں ہیں،
ادھورے سے ان آنکھوں میں خواب ہیں جو،
انھیں اپنے ہاتھوں سے خود ہی لحد کھود کر دفن کر دوں،
کہ کل کو میں راہِ عدم کو چلوں تو کہ مجھ نامکمل، مکمل سے انساں
کی کوئی بھی حسرت ، تہِ خاک نہ ہو!!
ایک اور نثری نظم ملاحظہ فرمائیں کہ جس میں جدائی جیسے اذیت ناک لمحات کو جدید دنیا کے حسبِ حال رہتے ہوئے نہایت دلکشی سے بیان کیا ہے-
نثری نظم
“مستعار خوشبو”
تمہیں یاد ہے
واشنگٹن کے ایر اینڈ سپیس میوزیم سے نکلتے ہوۓ
تم نے کہاتھا
کہ آج ہی ہیوسٹن میں
ناسا کو خط لکھو
کہ جب بھی وہ خلا میں
نیا مشن بھیجیں تو
ہمارے خوشیوں بھرے
اکٹھے گزارے ہوۓ یادگار لمحوں اور منافقت سے پاک ساعتوں کی ایک گٹھڑی وہاں چھوڑ آئیں
آج
تینتیس برس بعد
اپنے واشنگٹن کے کیپیٹول اپارٹمنٹس کے
پتے پر ناسا کا جوابی خط
اسی ڈائری سے ملا ہے
جہاں ماؤںٹ ورنن جاتے ہوۓ بحری بجرے میں
تم نے کالے گلابوں کا جوڑا
یہ کہہ کر رکھا تھا
کہ مجھے گر بھولنا ہو
تو یہ پھول
دریاۓ پوٹامک میں
پھینک دینا
ناسا نے لکھا تھا ہم آپ سے رابطے میں رہیں گے
لیکن آج کی رات
تم نےسییٹل میں
ایپل کے دفتر میں
یادوں کی وہی گٹھڑی
اپنے باس کے کہنے پر
ناسا کی بجائے
آسمان cloud کے
سپرد کر دی
اب اگر آج ناسا
مجھے ای میل میں وہ مانگ لے تو میں کیا کروں گا
کہ کالا گلاب ابھی
میرے بستر کنارے
اسی ڈائری میں پڑا ہے
جس میں تمہاری خوشبو ایسٹ سے ویسٹ کوسٹ اور شادرا اسلام آباد سے
مستعار لی ہوئی ہے
حنفی صاحب کی شاعری نئے اور جدید ادبی رحجانات کے زیرِ اثر پروان چڑھتے ہوئے سماجی رویوں کی کمزوریوں کو بے نقاب کر رہی ہے- یقیناً عصرِ حاضر کے ادبی خزانے میں “شہرِ نارسا” اور “گونگی ہجرت” کے بعد “خانہ بدوش آنکھیں ” ایک خوبصورت اضافہ ہے جسکی بازگشت مستقبل میں بھی سنائی دیتی رہے گی-