بجٹ اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ ہے یا قوم و معاشرے کی معاشی و سماجی زندگی کی تصویر گری؟ یہ بحث طویل اور زیادہ منطقی ہے۔ ہمیں وفاقی بجٹ 21ء جو تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی تیسرے سال میں داخل ہوتے وقت دوسرا بجٹ تھا اس لئے کہ پچیس جولائی 2018 کے انتخابات سے پہلے مسلم لیگ نون کےوزیر اعظم جناب شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں 2018ء 19ء کا بجٹ پیش کیا تھا۔ اب سیاسی پارٹیوں سے زیادہ بجٹ کے معاملات بیروکریسی، ماہرین معیشت اور عالمی اداروں آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے رہنما طئے کرتے ہیں۔
آج کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ صاحب کل پیپلز پارٹی اور پرویز مشرف صاحب کے مشیر تھے خود سرتاج عزیز صاحب جناب نواز شریف کے مشیر خزانہ و خارجہ رہے ہیں جو عوامی انتخابی اور فلاحی شخصیت نہیں تھے یہی حال ہے جناب شوکت عزیز کا ہے جو پرویز مشرف کے دست راست وزیر خزانہ اور بالآخر پاکستان کے وزیراعظم رہے۔
پاکستان تحریک انصاف نے اس دوڑ میں سب سے آگے بڑھ کر سٹیٹ بینک کے سابق گورنر جناب عشرت حسین صاحب کو ریفارمز،بچت، سادگی اور اصلاحات کمیشن کا سربراہ مقرر کیا ہے کیا اسٹیٹ بینک کے سابق سربراہ سادہ طرز زندگی،بچت اور ہمارے معاشرتی و سماجی امور کے تجزیے اور ریفارمز کے لیے معقول ومناسب سفارشات دے پائیں گے ؟ کیونکہ ہماری سول وملٹری بیوروکریسی اور خود بینکاری، عدلیہ اور میڈیا نے اپنے لئے مراد و مفاد ات کا ایک جال بچھا کر اپنے مزاج و تصور کو قوم اور معاشرے کے مزاج اور تصور سے یکسر بدل دیا ہے تازہ ترین رپورٹ کے مطابق پاکستان کے بیروکریسی کے شاہانہ خرچے و مراعات عالمی اداروں سے بھی زیادہ ہیں، عوام اور مراعات یافتہ طبقہ اور مفلوک الحال عوام میں آسمان و زمین کا فاصلہ ہے اس لیے ایک مراعات یافتہ شخص جس نے زندگی بھر غم و بھوک کا تصور ، غریب اور امیر کے تصورات انسانی کو قریب سے نہ جانتا ہوں۔
اسٹیٹس کو کے اسیر وروایات کا پابند ہو اور مزاج اور تصور زندگی میں میں اعلی طبقے کی نمائندگی کا حامل ہو کیسے سادگی ،بچت اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا فارمولا تجویز کر سکتا ہے۔ وفاقی بجٹ 42 صفحات کا تھا اور وفاقی پی ایس ڈی پی 78 صفحات پر مشتمل تھا۔ بجٹ کے اوپر معاشی اور ٹیکنیکل مباحث کی طویل سیریز ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کے خوبصورت و عالیشان عمارت میں کرونا فری اور یخ بستہ ماحول میں اس کے ہر پہلو اور ہر مدورقم کا تیا پانچا کرتے ہیں۔ ہمیں کرونا بحران میں وفاقی بجٹ سے اصل لچسپی ومدعا اتنی ہے۔ کہ کیا یہ بجٹ انتظامی، ترقیاتی ،دفاعی اور سودی و استحصالی ہونے کے ساتھ فلاحی، تعلیمی، سائنسی اور ہمارے ہمارے معاشرے کی اخلاقی و سماجی ڈھانچے کی اسر نو تشکیل و تعمیر کی طرف پہلا قدم اٹھانے کی ذہنیت اور پیش رفت کا تصور و خاصہ بھی رکھتے ہیں۔ پچھلے تیس سالوں میں انیس سو اٹھاسی 1988ءسے 2018 ء تک پاکستان میں اسٹیس کو حکمران رہی جس میں محترمہ بینظیر بھٹو ، جناب نواز شریف شریف اور پرویز مشرف صاحب منصب قیادت پر فائز رہے مگر معشیت عوام کے لئے پیلی ٹیکسی، بے نظیر انکم سپورٹ کے چھوٹی رقومات، لعنتی سودی قرضوں اور مہنگائی و معاشی استحصال، لوٹ مار و بد انتظامی سے آگے نہیں بڑھ سکی۔
بحیثیت قوم نہ ہم ایشین ٹائیگر بن سکے اور نہیں سود سے پاک معشیت میں مسلمان قوم کی طرح زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔ ان تینوں لیڈروں کے پشت پر اصل حکمرانی ملٹری اور سول بیورو کریسی ،سیاسی و قبائلی جاگیردارانہ اشرافیہ اور جہالت و فرقہ واریت پر مشتمل مذہبی اجارہ داری کے ساتھ عالمی معاشی اداروں اور ہماری مکار وچا لاک میڈیا اور سول سوسائٹی کی حکمرانی رہی جس میں عوام قدم قدم پر خوار ہوتے رہے جناب عمران خان نے اس تیس سالہ اسٹیٹس کو چیلنج کرنا شروع کیا ، قطع نظر اس کے کہ ان ظاہری و باطنی قوتوں نے تبدیلی سرکار کے قائم کرنے میں بھی کلیدی کردار ادا کیا
اس لئے کہ عوامی بیداری اور انتخابی عمل سے زیادہ محلاتی منصوبے یہی قوتیں ترتیب دیتے ہیں۔ تبدیلی سرکار دو سال تک سابقہ مسائل کا راگ الاپتے رہے کہ مارچ 2020ء سے کورونا بحران نے ریاست کی قوت و ہیئت کو چیلنج کردیا۔
ان بارہ پندرہ ماہ میں قومی قیادت ،پارلیمنٹ ،عدلیہ، کور کمانڈرز کانفرنس کے اعلامیہ اور عوام سے الگ سوسائٹیوں کے معزز مافیا و میڈیا کے مالکان ، جن کےتصورات و برتاؤ اور سطحی سوچ اور ممکنہ اقدامات ہونے کے باوجود فیصلہ سازی اور عمل درآمد میں تاخیر اس وقت عالمی آفت میں سب سے بڑا قومی اور انسانی جرم ہے جس کے بے لاگ تجزیے اور بھرپور علمی و سائنسی محاکمہ پر ہی کرونا بحران کے آئندہ چند ماہ اور ممکنہ دو تین سال کے حفاظتی عمل اور کروڑوں انسانوں کی زندگی ،
صحت،خوراک، تعلیم و ثقافت اور عقیدہ وحدت کا انحصار ہے،
اٹھارویں آئینی ترمیم کے نفاذ کے بعد انتظامی اختیارات اور محکمہ جاتی سروسز میں وفاق اور صوبے برابر برابر کے ذمہ دار ہیں جمہوری و آئینی رویے اور مہذب محاسبے کے پیش نظر یہ اچھی روایت ہے کہ ریاست پاکستان میں اس وقت عملاً تین چار اقسام کے انتخابی حکومتیں قائم ہیں یعنی وفاق، پنجاب، گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا اور ایک حد تک بلوچستان میں ایک جیسی حکومت یعنی پی ٹی آئی، باپ اور یاروں کی حکمرانی ہے جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی جیالوں سندھی بیوروکریسی اور بھٹو کے طرز حکمرانی کے آخری نشانی کے طور پر بے بس اور لاچار عوام کے نام پر وڈیروں اور شاہی جاگیرداروں کی حکمرانی ہے
آزاد کشمیر میں کسی حد تک مسلم لیگ نون جناب نواز شریف اور فوجی اسٹبلشمنٹ کی حکمرانی ہے
یوں ایک ہی ریاست میں تین طرح کے سیاسی و انتظامی افروچ رکھنے والے سیاسی اشرفیہ کی بظاہر حکمرانی ہیں
ہمارے معاشرے میں سچی بات یہ ہے کہ اب فوج و عدلیہ اور بیوروکریسی و میڈیا بھی کھلے اور چھپے دونوں طرح سے حکمرانی اور عقل کل کی دعویدار ہیں۔ اس لیے ان چار حقیقی معنوں میں قوتوں کے ساتھ عوام اور سیاسی جماعتوں کا
اوپن قومی مکالمہ ہوناچاہئے کہ آخر 24 کروڑ عوام کے لئے کس طرز کی حکمرانی آج کی دنیا میں مناسب اور ممکن العمل ہے اور ہمارے معاشرتی و سماجی اقدار کی روشنی میں حکمرانی اور مثالی طرز حکمرانی کے لیے کیا سنجیدہ و بھرپور اقدامات کی ضرورت ہے۔
وفاقی بجٹ میں سود،استحصال،مکارانہ چالیں اور عوام کے لئے پرفریب دعوے و کثیر رقومات تقسیم کرنے کے ہندسےہیں
مگر یہ بجٹ فلاحی، علمی وسائنسی، سیاسی و سماجی اور عوام دوست نہیں ہیں۔
اس لیے کہ کورونا کی یقینی بیماری اور خطرناک چیلنجز سے نمٹنے کے لیے قومی ووفاقی سطح پر ایک آواز ہو کر اقدامات کے بجائے ، قوم کا آئندہ ایک سال 2021ء بھی افراتفری، صوبوں اور وفاق کے الگ الگ فیصلوں اور بغیر سماجی ذہنیت کی تبدیلی و آگاہی کے کے ہمارے معاشرے میں مایوسی، موت اور بدترین طرز حکمرانی کی حکمرانی رہی۔ ہمارے معاشرے میں سب سے زیادہ عوام، ڈاکٹرز اور طبی عملہ اور درد کا مارا ہوا انسان،بچے ،خواتین اور نیم مذہبی طبقے ہی متاثر رہے گا ،،
سود کی لعنت سے نجات کرونا کے بحران میں درد زدہ صورتحال میں استغفار و توبہ النصوح اور مالک ارض و سماء کے سامنے گھڑ گھڑانےکا بہترین موقع ہے
کہ ہم بحیثیت قوم و معاشرہ سودی معاشی نظام کے استحصال و ظلم سے نجات کا ذریعہ و موقع گردانتے،سود کی لعنت کیسے ہمارے معاشرتی و معاشی نظام کے رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے اور یہ عالمی قرضوں و بد نام زمانہ اداروں ورلڈ بینک و آئی ایم ایف سے زیادہ کس طرح ہمارے اندرونی ساحروں اور سود خوروں کی کارستانی ہے
اس پر جناب انصار عباسی صاحب کی تحقیقی رپورٹ عوام اور خواص کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے
وہ رقم طراز ہین کہ “گزشتہ کئی سالوں سے ہر بجٹ کے موقع پر میری کوشش رہی کہ میں حکمرانوں کی توجہ خاص طور پر بجٹ میں سود کی ادائیگی کے لیے مختص رقم کی طرف مبذول کرائوں لیکن چاہے پیپلز پارٹی کی حکومت ہو، نون لیگ کی یا پھر موجودہ پی ٹی آئی حکومت، کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ ایک طرف سود کا معاملہ اس لیے بہت سنگین ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ ایک ایسا کبیرہ گناہ ہے جس کے ارتکاب سے دنیا و آخرت میں سوائے گھاٹے کے کچھ نہیں ملتا۔
دوسری طرف ہم دیکھ بھی رہے ہیں کہ ہمارے بجٹ کا بہت بڑا حصہ ہر سال سود کھا جاتا ہے لیکن اس بارے میں نہ کسی فکر کا اظہار کیا جاتا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی تدبیر کی جا رہی ہے کہ اس لعنت سے ہماری جان چھوٹ سکے۔
بجٹ دستاویزات کو پڑھیں تو سود کی ادائیگی کے لیے رکھی گئی رقم کو دیکھ کر دل جیسے بیٹھ سا جاتا ہے لیکن اس کا عمومی طور پر پارلیمنٹ کے ممبران اپنی تقاریر میں ذکر تک نہیں کرتے، میڈیا کو بھی جیسے سود کے لیے مختص رقم نظر ہی نہیں آتی۔
سال 2020-21ء کے بجٹ کا کل تخمینہ 7136ارب روپے ہے جس میں سے ایک خطیر رقم یعنی 2946ارب روپے سود کی ادائیگی کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔ دفاع کے لیے رکھی گئی رقم سود کی رقم سے پچاس فیصد سے بھی زیادہ کم ہے جو 1289ارب روپے ہے۔ سول حکومت کے کل اخراجات 476ارب روپے ہیں یعنی سود کی رقم سے تقریباً چھ سو فیصد کم۔
سود کی رقم کل ترقیاتی اخراجات کے لیے متعین رقم سے چار سو فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ یہ وہ ظلم ہے جو پاکستان اور اس کے عوام پر ہر سال ڈھایا جا رہا ہے اور ہر گزرتے سال کے ساتھ اس ظلم میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ظلم اس لحاظ سے کہ ہماری دنیا بھی تباہ ہو رہی ہے اور آخرت بھی لیکن اس بارے میں کسی کو کوئی فکر ہی نہیں۔
اس بارے کتنی بحث ہوتی ہے کہ ملک کے دفاعی بجٹ کو کیسے کم کیا جائے، سول حکومت کے اخراجات گھٹائے جائیں تاکہ پیسے عوام کی ترقی اور خوشحالی پر صرف ہو سکیں لیکن کوئی سود کے لیے مختص اتنی خطیر رقم کو کم اور ختم کرنے کی بات نہیں کرتا۔
سب روتے ہیں کہ تعلیم و صحت اور عوام کی فلاح اور اُن کی خوشحالی کے لیے بہت کم رقم بجٹ میں رکھی جاتی ہے، کہتے ہیں ہمارے ہاں اچھے اسپتال نہیں، معیاری تعلیم فراہم نہیں کی جاتی کیونکہ تعلیم اور صحت کے لیے بہت کم پیسہ رکھا جاتا ہے، اکثر یہ بحث کی جاتی ہے کہ دفاعی بجٹ کو کم کرکے تعلیم و صحت اور ترقیاتی اسکیموں پر پیسہ لگائیں لیکن سود کے خاتمہ کی بات کی جاتی ہے اور نہ ہی اس کے لیے اتنی خطیر رقم رکھے جانے پر کوئی اعتراض اٹھایا جاتا ہے۔
بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سود کی رقم کا تعلق اُس قرضہ سے ہے جو پاکستان نے بین الاقوامی اداروں یا دوسرے ممالک سے لیا ہے، یہ بات درست نہیں ہے۔ سود کے لیے مختص رقم کا تقریباً نوے فیصد پاکستان کے اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے، یعنی اگر ہم پاکستان کی حد تک سود کی لعنت سے جان چھڑا لیں تو سود کے لیے مختص اس خطیر رقم کا کم و بیش نوے فیصد ملک و قوم کی خوشحالی پر خرچ کیا جا سکتا ہے۔
ہماری بیرونی قرضوں سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ اس بارے میں سنجیدہ سوچ بچار کی ضرورت ہے جس پر حکومت، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتوں اور میڈیا‘ کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ سود ہے کہ پاکستان کے بجٹ کے ایک بڑے حصے کو ہر سال کھانے کے باوجود روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
جس تناسب سے ہر سال سود میں اضافہ ہو رہا ہے اُس کو اگر روکا نہ گیا تو سود بجٹ کو تو کھا ہی رہا ہے وہ ہمیں بھی اور پاکستان کو بھی کھا جائے گا۔ سود غیر اسلامی فعل ہے اور غیر آئینی بھی، لیکن ہر سال ہماری پارلیمنٹ سودی نظام اور سود کی ادائیگی کے لیے کھربوں روپے بجٹ میں مختص کرکے اسلام مخالف اور آئین مخالف اقدام کا حصہ بنتی ہے جو اُن کے اپنے حلف کی بھی خلاف ورزی ہے،،
سود کی اس رقم کا اندازہ کریں ،کہ ہر سال 2946 ارب یعنی تین ہزار ارب روپے
جو عوامی ٹیکسوں اور عوام وخواص کے خون پسینے سے اداہوتے ہیں اس کا ذمہ دار کون ہے؟؟؟!
کیا کورونا کی اس درد ناک صورتحال میں عوام ومیڈیا ملکر ان معاشی دہشت گردوں کے خلاف قوی و نتیجہ خیز آواز بلند کرنے کے لیے قومی موومنٹ تشکیل دے سکتے ہیں کیونکہ یہی توانائی نئے معاشرے کی تشکیل و تعمیر کا خشت اول بن سکتی ہے۔