70 کی دہائی کا واقعہ ہے- لاڑکانہ کے پس ماندہ علاقے وارہ میں نومنتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو دورے پر آئے- ان کے ساتھ وزیراعلٰی اور کئی صوبائی وزراء بھی تھے-
ایک نوجوان نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا- نوجوان کا تعلق بریلی سے ہجرت کرنے والے ایک خاندان سے تھا لیکن وہ اہل زبان کی طرح سندھی بھی بول لیتا تھا- سفید شلوار قمیص اور پیروں میں معمولی سے چپل پہنے نوجوان نے بھٹو صاحب کو بتایا کہ وارہ میں کوئی پکی سڑک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اسکول، کالج یا رورل ہیلتھ سینٹر ہے- اس نے بتایا کہ پرائمری اسکول گوٹھ کے لوگوں نے اس کے والد کوششوں سے خود بنایا ہے جس کے لیے زمین ایک مخیر ہندو نے عطیہ کی ہے-
بھٹو صاحب اس نوجوان کے پراعتماد لہجے پر حیران بھی ہوئے اور بہت خوش بھی-
مزید حیرانی اس وقت ہوئی جب پروگرام کے اختتام پر انہوں نے نوجوان کا قریب بلا کر پوچھا: تمہیں کیا چاہیئے؟ کیا پڑھے ہوئے ہو؟ نوجوان نے کہا کہ کراچی سے گریجویشن کرکے آیا ہوں، پرائمری اسکول میں پڑھاتا ہوں- بھٹو صاحب نے پوچھا: افسر بنوگے؟
نوجوان نے جواب دیا: ٹیچر افسروں کو پڑھاتا ہے-
بھٹو صاحب نے وہاں موجود وڈیروں اور وزراء کو مخاطب کرکے کہا: تم لوگ نوکریوں اور پرمٹوں کی فائلیں لے کر آئے ہو اور یہ ماسٹر علاقے کے لیے سہولتیں مانگ رہا ہے، کچھ شرم کرو!
گذشتہ روز جب میں اور سہیل صدیقی گورنمنٹ مسلم اسکول کے استاد محترم رئیس احمد صاحب کے گھر حاضر ہوئے تو دیر تک ان کی باتیں سنتے رہے- اٹھتے ہوئے پوچھا کہ سر، یہ فلیٹ کب خریدا؟ یہاں کب منتقل ہوئے؟
انہوں نے مسکراتے ہوئے فرمایا: “میاں سرکاری اسکول سے بطور پرنسپل ریٹائر ہونے والا ایمانداری سے اپنا فرض منصبی ادا کرے اور بیوی بچوں کی تربیت کرے، ٹیوشن نہ پڑھائے تو مکان مشکل ہی سے بناپاتا ہے- آج بھی کرائے کے فلیٹ میں رہتا ہوں اور ایک نجی اسکول میں پڑھاتا بھی ہوں”-
میں عظمت کے اس پہاڑ کو خاموشی سے دیکھتا رہا اور خاموشی سے الٹے قدموں چلتا ہوا فلیٹ کے دروازے سے باہر نکل آیا- دل نہیں چاہا کہ پشت ان کی طرف کرکے دو قدم بھی چلوں! پیلے اسکولوں کے سفید کردار والے اساتذہ ۔۔۔ آپ ہی اس معاشرے کی اصل پہچان تھے، سفاک معاشرے نے وہ مقام نہیں دیا جس کے آپ لوگ حق دار تھے!