اٹھارویں صدی کے جنوبی ہندوستان میں انگریز سامراج کے خلاف مزاحمت کی تاریخ رقم کرنے والے سلطان فتح علی ٹیپو پہ آج بھی زمانہ ناز کرتا ہے۔جودبنگ شخصیت،نڈر قیادت اور رعایا کے لئے بہترین منتظم جیسی خوبیوں کے مالک تھے۔سلطان حیدر علی جیسے باپ کا جانشین اور قابلیت کے ہر معیار پہ پورا اترنے والا ٹیپو کے سوا کون ہو سکتا ہے۔
ریاست میسور جسے ٹیپو نے سلطنت حیدریہ کی بجائے سلطنت خدادا کا درجہ دے رکھا تھا جو اس کے اس احساس کی دلیل ہے کہ کائنات کے تمام اختیارات کا مالک فقط رب ذوالجلال ہے۔اور حاکم وقت اس اختیار کو بطور امانت استعمال کرتا ہے۔
سلطنت میسور اپنے زمانے کی حسین ترین سلطنتوں میں شمار ہوتی تھی۔اس کا نظم و نسق مثالی تھا۔رعایا خوشحال اور مطمئن تھی۔ آج بھی برٹش انڈیا میوزیم میں موجود دستاویزی ثبوت اس کی گواہی دیتے ہیں۔
سلطان ٹیپو نے اپنی ریاست میں زرعی اور صنعتی اصلاحات نافذ کی جن کی بدولت زرعی پیداوار اور صنعتی میدان میں اس کا ڈنکا بجنے لگا۔غیر حاضر زمینداری نظام کو توڑ کر زمینیں کاشت کاروں کے سپرد کی گئیں جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے انھیں آباد کر دیا۔کاویری ندی پہ ڈیم تعمیر کیا گیا جس نے زراعت کو چار چاند لگا دئیے۔اور یہ آج بھی کرشنا راجہ ڈیم کے نام سے مشہور ہے۔
ٹیکسوں کا استحصالی نظام آسان کر دیا جس میں ہر زمینی قطعے پر لگان کی بجائے فقط پیداوارپہ لاگو کیا گیا۔اس انقلابی اصلاحات کی بدولت کاشتکار کی خوشحالی کے ساتھ ساتھ سلطنت کے خزانہ عامرہ میں بھی کثیر لگان جمع ہوتا ۔جو ٹیپو کے نظام نسق کی عمدہ مثال ہے۔
قابل جوہری ہیرے کی پہچان رکھتا ہے۔سلطان ٹیپو نے بھی باصلاحیت صنعت کار وں اور با ذوق دست کار وں کو سلطنت خداد میں اپنے جوہر دکھانے کے لئے ہر ممکن مدد فراہم کی جس کی بدولت میسور میں کپڑا سازی،برتن سازی،قالین بافی و دیگر فنون کی آبیاری کی بدولت معیشت کا پہیہ رواں دواں ہونے لگا۔ریشم بانی کو فروغ دیا گیا۔اس صنعتی فروغ کی بدولت اشیاء کی برآمدات میں زبردست اضافہ ہوا۔میسور کا کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا جہاں خوشحالی نے ڈیرے نہ ڈالے ہوں۔فرانسیسی اور برطانوی افراد بھی میسوری لوگوں کا رشک کرتے تھے۔
مذہبی رواداری کی اعلٰی ترین مثال قائم کرتے ہوئے ٹیپو نے سلطنت خداداد کا وزیر پورنیا نامی ہندو کو بنایا،علم پرووری کو دیکھا جائے تو لالہ مہتاب رائے کو اپنا پرسنل سیکریٹری تعینات کیا۔لالہ مہتاب کو اردو اور فارسی سے خوب شغف تھا ۔اور سلطان کی ساری خط و کتابت وہی کرتا تھا۔انچے شمیا نامی ہندو کو پولیس اور ڈاک کا نظام سونپ رکھا تھا۔اکثر قلعوں کے کماندار ہندو تھے جن میں کشن راؤ اور شتاب رائے نمایاں ہیں۔
اکثر سفراء بھی ہندو تھے جن میں مول چند اور سوجان رائے مغل دربار میں تعینات تھے۔سردار ہری سنگھ میسور کی فوج کا افسر اعلٰی تھا۔جبکہ سیوا جی بھی فوج کا ایک کماندار تھا۔۔ٹیپو کی فوج میں ایک دستہ فرانسیسیوں کا بھی تھا۔سقوط میسور کے وقت یہ ہندو کماندار سلطان ٹیپو کے ہمراہ انگریز سامراج سے لڑتے ہوئے اپنی جان دے کر امر ہو گئے۔
برطانوی مؤرخ لیوس رائس نے “میسور گزٹ” جو اس نے سلطان کے وزیر پورنیا سے حاصل کردہ دستاویزات کی روشنی میں ترتیب دیا ہے،میں سلطان کی طرف سے مندروں اور مساجد کو دی جانے والی سالانہ کا گرانٹ کا تفصیلا” ذکر کیا ہے۔فرانسیسوں کی فرمائش پر ٹیپو نے میسور میں چرچ بھی تعمیر کروایا۔
اپنے والد سلطان فتح علی کے ہمراہ ٹیپو نے انگریزوں کے خلاف دو جنگوں میں حصہ لیا اور ان جنگوں میں انگریز سامراج کو منہ کی کھانا پڑی۔ان جنگوں کے شکست خوردہ انگریز جرنیلوں میں کرنل بیلی،کرنل بریتھ ویٹ اور بریگیڈئیر جنرل سٹوارٹ شامل ہیں۔
1782میں اپنے والد کی وفات کے بعد سلطان ٹیپو نے اقتدار نشین ہوتے ہی جہاں سلطنت کی خوشحالی کی طرف توجہ دی وہیں سلطنت کے دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے بری فوج کو منتظم کیا اور بحری بیڑا بھی تیار کیا جس کے لئے اس نے فرانسیسیوں سے مدد لی۔ایسٹ انڈیا کمپنی کی ریشہ دوانیوں کاسدد باب کرنے کے لئے نظام آف دکن،مغل بادشاہ شاہ عالم اور والئی جودھ پور کو احساس دلایا کہ ملی یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے انگریز سامراج کو برصغیر سے نکال باہر کیا جائے۔
اس مقصد کے لئے سلطان ٹیپو نے ایران،ترکی ،فرانس اور افغان فرمانرواؤں کو بھی خطوط بھیجے۔مگر نظام آف دکن ،مغل بادشاہ شاہ عالم نے ٹیپو کی بجائے انگریز سامراج کا ساتھ دیا اور سلطنت خداد کا یہ شیر تن تنہا انگریز سامراج اور ملت فروش قوتوں کے سامنے سینہ سپر ہوا۔
میسور کو فتح کرنے کے لئے انگریز سامراج کو چار جنگیں کرنا پڑیں۔پہلی دو جنگوں میں انگریز وں کو بھاری نقصان اٹھانے پڑے۔تیسری جنگ میں انگریزوں نے نواب آف ارکاٹ،نظام آف دکن اور مغل بادشاہ شاہ عالم کو اپنی ریشہ دوانیوں کا نشانہ بنا کر اپنی فوج کے سازو سامان کا بندوبست ان سے حاصل کردہ تاوان سے کیا۔اور اپنے روایتی غدار خرید جیسے کارگر فارمولے کا سہارا لے کر میسور پہ چڑھائی کی ۔دو سال کی مسلسل لڑائی کے باوجود میسور فتح نہ ہوا۔البتہ سلطان ٹیپو اکیلا اپنی ریاست کا دفاع کرتا رہا یہ جنگ صلح پہ ختم ہوئی۔
انگریز سامراج کے ہندوستان پر مکمل قبضے کی واحد رکاوٹ ریاست میسور تھی اور سلطان ٹیپو اس راستے کا سب سے بڑا کانٹا تھے۔ایست انڈیا کمپنی نے میسور پہ چوتھی جنگ مئی 1799 میں مسلط کی۔سلطان ٹیپو نے بھی بھرپور دفاع اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے نابغوں کو سبق سکھانے کی ہر ممکن تیاری کی۔کمپنی نے اپنے مشہور کمانڈر کرنل ویلزلی کو میدان میں اتارا ۔کرنل ویلزلی نے 1815 میں واٹر لو کی جنگ میں نپولین کو بھی شکست سے دوچار کیا۔اور بعد میں جنرل ولنگٹن کے نام سے شہرت پائی۔
انگریز سامراج نے اس جنگ کی تیاری کے لئے ہر حربہ اختیار کیا جس میں سر فہرست سلطان ٹیپو کے قریبی رفقاء میر صادق اور پورنیا کو خریدا گیا۔ساتھ ہی نواب آف ارکاٹ،نظام آف دکن اور شاہ عالم کو ساتھ ملایا۔مرہٹوں کی ساری طاقت کو میسور میں جھونکنے کا فیصلہ کیا۔ادھر سلطان ٹیپو اپنے زور بازو پر طاقت خداوندی کے ہمراہ جنگ میں کود پڑا ۔گھمسان کی جنگ میں ابتدائی طور پر ٹیپو کا پلڑا بھاری ہونے لگا۔انگریز سامراجی طاقتوں نے میر صادق،میر غلام علی (لنگڑا،بدرالزمان نائطہ،میر قمرالدین ،میر معین الدین ،میر قاسم پٹیل اور پورنیا کی غداری کی بدولت فوج کے بڑے حصے کو سلطان ٹیپو کی وفاداری سے الگ کر دیا۔سرنگا پٹنم کے قلعے کے دروازے اپنوں کے ہاتھوں فتح ہوئے۔پھر بھی سلطان ٹیپو جواں مردی سے مردانہ وار لڑتا رہا۔صلح کی ہر پیشکش کو ٹھکراتا رہا۔شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے کے اپنے ہی مقولے کی مثال بنتے ہوئے سلطان ٹیپو اپنوں کی غداری کی بدولت انگریز فوج کے ہاتھوں شہید ہو گیا۔
سلطان کی موت کی خبر سن کر جنرل ہیرس نے فاتحانہ چیخ ماری کہ”آج کے بعد ہندوستان ہمارا ہے”۔
تاریخی اعتبار سے 35 سال تک انگریز سامراج کے خلاف مزاحمت کی تاریخ رقم کرنے والے سلطان ٹیپو کے آخری لمحات کی کہانی بیٹسن بڑے دل سوز انداز میں لکھتا ہے کہ
“آخری لمحات میں ٹیپو سلطان تابڑ توڑ حملوں کی بدولت گر پڑے ،ایک انگریز فوجی نے ان سے تلوار چھنینے کی کوشش کی تو ٹیپو نے اس پہ حملہ کر دیا۔اسی دوران وہ بے ہوش ہو گئے اور ایک دوسرے انگریز نے ان کی ہیروں سے جڑی تلوار دوبار حاصل کرنے کی کوشش کی تو سلطان نے وہی تلوار اس کے سر پہ دے ماری”
بعد میں میجر ایلن نے لکھا ہے کہ سلطان ٹیپو کی موت کی تصدیق کے لئے ان کی لاش کو دیکھا گیا تو ان کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں۔
ان کا جسم اتنا گرم تھا کہ ایک لمحے کے لیے مجھے اور کرنل ویلیزلی کو ایسا لگا کہ کہیں وہ زندہ تو نہیں۔ لیکن جب ہم نے ان کی نبض دیکھی اور دل پر ہاتھ رکھا تو ہمارا شک دور ہوا۔ ان کے جسم پر تین اور ماتھے پر ایک زخم تھا۔4مئی1799 کے دن سلطان نے جام شہادت نوش کیا۔ہر سال مئی کا مہینہ شیر میسور کی یاد دلاتا رہے گا۔
سلطان کی شہادت کے بعد ان کی ذاتی لائبریری جس میں دو ہزار کے لگ بھگ بیش قیمت کتابیں تھیں جو احادیث،فنون،تاریخ اور فلسفہ سے متعلق تھیں۔اس لائبریری کو بعد ازاں لندن منتقل کر دیا گیا۔
انگریز فوج کی جانب سے ایک ہیرے سے بنا ستارا اور ٹیپو کی تلوار کرنل ویلیز لی کو پیش کی گئی۔ میجر ایلگزینڈر ایلن نے اپنی کتاب ‘این اکاؤنٹ آف دا کیمپین ان میسور’ میں لکھا ہے کہ ہیرس نے ٹیپو کی ایک اور تلوار بیئرڈ کو تحفے میں دے دی اور سلطان کے تخت میں جڑے شیر کے سر کو ونڈسر کاسل کے خزانے میں بھیج دیا گیا۔
ٹیپو سلطان اور موراری راؤ کی ایک ایک تلواریں لارڈ کارنوالس کے پاس یادگار کے طور پر بھیج دی گئیں۔
سلطنت خداد کا سلطان ٹیپو انگریز سامراجیت کے لئے تین دہائیوں سے زیادہ خوف کی علامت بنا رہا۔اور اپنی زندگی میں انگریز سامراجیت کا سکہ برصغیر پہ چلنے نہ دیا۔
مہاتما گاندھی نے بھی ٹیپو کو اپنا ہیرو قراردیا تھا ۔
برصغیر کی تاریخ میں سلطان ٹیپو کو مقامی ہونے کی وجہ سے بھی تمام طبقات نے اپنا ہیرو تسلیم کیا مگر یہ سچ ہے کہ سلطنت خداد کا یہ سلطان مسلم دنیا کے لئے تین سو سالوں سے قابل رشک اور قابل فخر سرمایہ ہے۔ اقبال نے میسور کے سلطان کی قبر پہ کھڑے ہو کر کہا تھا ؎
آں شہیدان محبت را امام
آبروئے ہند و چین و روم شام