”ہاں میں انکاری ہوں“سندھ ہائی کورٹ کے سابق جج ڈاکٹرظفراحمدخاں شروانی کی ذاتی اورپیشہ ورانہ زندگی کی چندیادوں پرمبنی انتہائی دلچسپ کتاب ہے۔جس میں پاکستان کے عدالتی نظام کوبہت باریک بینی اورسادہ انداز میں پیش کیاگیاہے اوربے شمارایسے انکشافات کیے گئے ہیں جواس سے قبل کبھی سامنے نہیں آئے۔نچلی عدالتوں میں عوام کوکن مشکلات کاسامناکرناپڑتاہے اورکس کثیرتعداد میں مقدمات زیرالتواہیں،اس کاصرف ذکرنہیں کیاگیابلکہ اس کاحل بھی پیش کیاگیاہے۔ایساحل جسے ظفراحمدشروانی نے عملی طورپربھی ثابت کیاہے۔یہ ایک دردمنداورحساس دل رکھنے والے جج کی آپ بیتی ہے۔اس سے قبل جسٹس اجمل میاں،ڈاکٹرنسیم حسن شاہ،جسٹس صمدانی،جسٹس حاذق الخیری اورحال ہی میں جسٹس ارشاد حسن خان کی آپ بیتیاں شائع ہوئیں۔جسٹس سجادعلی شاہ کی”لاء کورٹس ان اے گلاس ہاؤس“اوراسے ترجمہ کی آکسفرڈیونیورسٹی پریس سے اشاعت کااشتہاراخبارات میں آیالیکن یہ آپ بیتی اوراس کاترجمہ کبھی منظرعام پرنہیں آیا۔ارشادنامہ کے بعدسجادعلی شاہ کی کتاب کاذکر ”ہاں،میں انکاری ہوں“ میں منیراے ملک نے بھی کیاہے۔یہ پاکستان کے بیحداہم دورکے چیف جسٹس کی آپ بیتی ہے۔اسے شائع ہونا چاہیے۔
جسٹس (ر) ظفراحمدشروانی پاکستان کی عدلیہ کی تاریخ کے ان چندمنفردججوں میں سے ایک ہیں جنھوں نے جنرل پرویزمشرف کے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکارکیاتھا۔انہوں نے 1975ء میں جامعہ کراچی سے ایل ایل بی کیا۔تین سال بطوروکیل خدمات انجام دینے کے بعدجج کاپیشہ اختیارکیا اورانتیس برس کے طویل عدالتی کیریئرمیں سول جج سے سندھ ہائی کورٹ کے جج کے منصب تک پہنچے۔ضلعی عدالتوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی متعارف کرانے اورمتبادل نظامِ انصاف کے طورپرثالثی عدالتوں کاقیام ان کی پیشہ ورانہ زندگی کے اہم اقدامات ہیں۔
ایڈوکیٹ سپریم کورٹ حامدخان صاحب کہتے ہیں۔”ظفرشروانی کی آپ بیتی”ہاں میں انکاری ہوں“قانون کے پیشے سے تعلق رکھنے والو ں کے لیے بیش قیمت مشاہدات،تجربات اورمشوروں پرمبنی دلچسپ کتاب ہے۔اندازاتنادلچسپ ہے کہ ساری کتاب ایک یادونشستوں میں پڑھی جاسکتی ہے۔میں ممنون ہوں کہ انہوں نے ”شروانی“اور”شیروانی“ کافرق سمجھاکرمیری معلومات میں اضافہ کیا۔ظفرشروانی صاحب نے ایڈیشنل جج ہوتے ہوئے 3نومبر2007ء کوپی سی او کاحلف لینے سے انکارکرکے دراصل ایک بڑے مقصد کے لیے ایثاراور جرأت کی مثال قائم کی۔انہوں نے عہدے کوضمیرکی آوازپرقربان کیا۔اس قسم کاجرأت مندانہ فیصلہ کرناخاص طورپران ججوں کے لیے بہت مشکل ہوتاہے جوماتحت عدلیہ سے آئے ہوں۔“
سابق جج سندھ ہائی کورٹ جسٹس رشیداے رضوی کاکہناہے۔”جناب جسٹس ظفراحمدخاں شروانی کی کتاب ان کی آپ بیتی بھی اوراس کے ایک قابل ذکرحصے کاتعلق جگ بیتی سے بھی ہے جس میں انھوں نے اختصارکے ساتھ عدلیہ بحالی تحریک کے چندواقعات کاذکرکیاہے یقین سے نہیں کہاجاسکتاکہ مستقبل میں عدلیہ پرحملے کی صورت میں کیاججزدوبارہ اتنی تعدادمیں کسی حملے کامقابلہ کرسکیں گے اوراپناکیریئراورملاز مت داؤ پرلگاسکیں گے یانہیں۔عدلیہ کی آبرو اوروقارکے لیے ظفراحمدخاں شروانی اوران کے ساتھیوں کے ایثاروکردارکوجتناسراہاجائے وہ کم ہے۔ان ججوں کی جرأت،کرداراورجدوجہدنے آج کے ججزکویہ حوصلہ بخشاہے کہ وہ ہرایسے اقدام کاڈٹ کرمقابلہ کرنے کیلیے پرعزم ہیں جس میں عدلیہ کی آزادی پرآنچ آتی ہو۔“
سینئرصحافی اورمدیراعلیٰ اردوڈائجسٹ الطاف حسن قریشی نے کتاب کے بارے میں کہا۔”سندھ ہائی کورٹ کے سابق جسٹس ڈاکٹرظفراحمد خان نے اپنی ذاتی اورپیشہ ورانہ زندگی پرمبنی چیدہ چیدہ واقعات بڑے شگفتہ پیرائے میں بیان کیے ہیں جن میں گہرے مشاہدات کانچوربھی ہے،متنوع تجربات کی دمکتی کہکشاں بھی ہے اورحیرت انگیزانکشافات کاایک بیش قیمت خزینہ بھی۔بیان سادہ ہے،مگراس میں تہ درتہ معنویت پوشیدہے۔انھوں نے بڑے قرینے سے لوگوں کے معاشرتی رویوں کاجائزہ لیاہے اورعدالتی نظام کودرپیش مسائل کی نشاندہی کی ہے۔وہ کمال جرأت کے ساتھ آمروں کے احکام بجالانے سے انکارکرتے اوربڑی استقامت سے وکالت اورعدالت کی ذمے داریاں ادا کرتے ہوئے صراطِ مستقیم پرقائم رہے۔ان کی شخصیت کی تشکیل میں اُن کے خاندان کی اخلاقی عظمت،شرافت،علمی اورتہذیبی متانت نے کلیدی کرداراداکیا۔انھوں نے ایک واقعے کے ذریعے اس پاکیزہ احساس کی تصویرکشی کی ہے جوخواتین وحضرات میں پایاجاتاتھا۔“
ظفراحمدخاں شروانی نے ”ہاں میں انکاری ہوں“ کاانتساب”اپنے والدین کے نام جن کی تعلیم وتربیت اوراصولوں کی پاسداری نے مشکلا ت کے باوجودباعزت طریقے سے جیتے کاحوصلہ دیا۔“ جس سے ان کے کردارکی مضبوطی اورعملی زندگی کے چیلنجوں کاسامناکرنے کی اہلیت کاپس منظرواضح ہوتاہے۔
تسنیم الحق فاروقی نے بتایا۔”ظفرصاحب کوآپ بیتی قلم بندکرنے میں مشکل پیش آرہی تھی،ایک بھرپورزندگی گزارنے کے بعدان کے لیے یہ فیصلہ کرنامشکل تھاکہ کس بات کاکیسے ذکرکیاجائے،دوسروں کے بارے میں کیالکھناہے اورکون ساسچ لکھنامناسب نہیں۔میں نے تجویزدی کہ آپ اپنی زندگی کے بارے میں مجھ سے گفتگوکرتے رہیں،میں اسے ریکارڈکرکے یہ گفتگوقسط واراکیڈمی کے چینل پرڈالتا رہوں گایوں کتاب کاپہلاخاکہ تیارہوجائے گا۔یہ آپ بیتی چوبیس قسطوں یوٹیوب پربھی دستیاب ہے۔ان انٹرویوزکوکتابی صورت شروانی صاحب کی بھتیجی ماریہ شروانی نے دی۔جنھوں نے بڑی عرق ریزی سے ان تمام اقساط کوٹرانسکرائب کیا۔“
سابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ جسٹس حاذق الخیری نے ”ایک نظر“ کے عنوان سے لکھا۔”یہ ڈاکٹرظفرخاں شروانی سچے،ایماندار، فرض شناس اورخوددارانسان کی داستانِ حیات ہے جن کے خاندان نے انتہائی ناسازگارحالات میں پاکستان ہجرت کی۔ان کے والدین نے اولادکوعزتِ نفس کے ساتھ حلال روزی کی تلقین کی اورتعلیم کے حصول کویقینی بنایا۔میں انھیں ذاتی طورپرجانتاہوں اوریہ بھی کہ وہ مشکل حالات میں سرخروہوکرنکلے،اپنے ضمیرکاسودانہیں کیا۔زندگی کے تجربات سے ہرکوئی گزرتاہے اورجب ان کااظہارنہ کیاجائے توایک خلش سی دل میں رہ جاتی ہے۔یہ ہی احساس تھاجس نے شروانی کومجبورکیاکہ وہ ”ہاں میں انکاری ہوں“ جیسی خودنوشت تحریرکریں تاکہ دوسرے بھی ان کے تجربات سے کچھ حاصل کرسکیں اورملک کے بعض واقعات کی حقیقت آشکارہوسکے۔شروانی زندگی کے مشکل مراحل سے گزرے اورجم کرحالات کامقابلہ کیا۔ہمیشہ سچ کاساتھ دیا،عدالتی زندگی نے ان کے دشمن بھی پیداکیے لیکن ان کی نیک نامی پرحرف نہ آسکا۔انھوں نے عدالتی نظام کونہ صرف برتاہے بلکہ ان کی خامیوں پہ بھی گہری نظررکھی۔“
نامورصحافی اورمصنف محمود شام کاکہناہے۔”جسٹس ظفرشروانی جس دور میں منصف کی کرسی پربیٹھے یہ سیاسی،سماجی اوراقتصادی اعتبارسے بڑا بحرانی دوررہاہے۔عدلیہ کومنتخب اورغیرمنتخب آمروں کی طرف سے بڑے جبرکاسامناکرناپڑاہے۔غیرمنتخب آمرتوعبوری آئین پرحلف لینے پرمجبورکرتاہے۔منتخب آمرتواپنے لشکرلے کرسپریم کورٹ پرحملے کردیتاہے۔ججوں میں پھوٹ پڑوادیتاہے۔ اس بحرانی عہدکے قصے شروانی صاحب نے بہت شائستگی سے بیان کیے ہیں۔یہ گلہ کیاجاسکتاہے کہ بہت سی دوسری آپ بیتیوں کی طرح انہوں نے زیب داستاں کچھ نہیں بیان کیا۔مرچ مصالحہ نہیں لگایا۔اپنی عظمت میں زمین آسمان کے قلابے نہیں ملائے۔ججزکے دائرہ اختیارپران کے مشاہدات اورتجزیہ لائق تحسین ہے۔آج کل عدالتیں بہت سے انتظامی اختیارات میں بھی دخل دینے لگی ہیں۔شروانی صاحب نے ان کی بجاطورپر مخالفت کی ہے۔ڈسٹرکٹ کورٹس پران کے مشاہدات بہت خیال انگیزہیں۔ذیلی عدالتوں کے نظام میں بہت سی اہم اصلاحات انہوں نے خود بھی کیں،اوراس سلسلے میں مشورے بھی دیے۔اندازبیاں بہت دلکش،زبان سادہ،لہجہ مشفقانہ ہے۔سارے ابواب میں دردمندی موج تہ نشیں کی صورت رواں رہتی ہے۔میں یہ توقع بھی رکھوں گاکہ جب نیاایڈیشن شائع ہوتوان ابواب کی تفصیلات کااضافہ ضرورکریں۔جہاں بڑے لوگ ملزموں کے طورپرپیش ہوتے ہیں اورایک جج کوکیاکیاپیشکش کی جاتی ہیں اوراس کے ساتھ کیاکیادھمکیاں دی جاتی ہیں۔کس طرح منظورنظرافراد چیف جسٹس بنادیے جاتے ہیں،اورناپسندیدہ معززججوں کوکیسے دیوارسے لگایاجاتاہے۔“ظفراحمدشروانی صاحب نے کتاب کاپہلاباب ”شیروانی یاشروانی؟“ کے عنوان سے لکھاہے۔جس میں بتایا۔”ہماراجدی پشتی تعلق سابق سوویت یونین،وسط ایشیائی ریاست آذربائیجان اورافغانستان کے درمیان واقع مردم خیزخطہ’شروان‘ سے ہے۔صدیوں پہلے یہاں کے باشندوں نے ہندوستان ہجرت کی،توان میں ہمارے آباواجدادبھی شامل تھے،جنھوں نے ہندوستان کی بودوباش اختیارکرلی۔تاہم اپنی شناخت برقراررکھی اوراپنے شہرکی نسبت سے اپنے نام کے ساتھ شروانی لکھنے لگے۔پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعدبہت سے لوگ پاکستان چلے آئے۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی وطن عزیزمیں کثیرتعدادمیں شروانی افرادمقیم ہیں،جن کی زبان،ثقافت اورپس منظرجدا ہے۔تیس چالیس برس قبل ہمارے خاندان نے کراچی میں شروانی موٹرزکے نام سے کاروبارشروع کیااورشوروم کے باہرجلی حروف میں ”شروانی موٹرز“ لکھوایا۔ایک روزایک صاحب میرے پاس آئے اوربورڈ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا،دیکھیں کتنی بڑی غلطی ہے، آپ نے شیرانی کے نیچے نقطے نہیں لگائے۔جب میں نے تفصیل سے وضاحت کی اورشیروانی اورشروانی کے مابین فرق سے آگاہ کیا،توبڑی مشکل سے قائل ہوئے۔دراصل لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ نقطے والی شیروانی ہے۔حالانکہ زیبِ تن کرنے والی شیروانی کاشروانی سے کوئی تعلق نہیں بلکہ شروان کے رہنے والے شروانی کہلاتے ہیں۔
ماضی میں محلے کے بزرگوں کابچوں کی تربیت میں بڑاحصہ ہوتاتھا۔والدین کارویہ کیساہوتاتھا ظفرشروانی بتاتے ہیں۔”لیاقت آباد میں ہمارے اورچچا کے علاوہ صرف ایک گھرپڑھالکھاتھا۔اردگردقصائی رہتے تھے۔میرے والدان سے کہتے،’میں سارادن دفترمیں رہتا ہوں، میرے یہ بچے تمہارے بھی ہیں،اگرانہیں غلط جگہ اٹھتے بیٹھتے دیکھو،توبلاترددسرزنش کرسکتے ہو۔ہم بھی محلے کابڑوں کااحترام کرتے،ہمیشہ چاچا،چاچی،خالہ،خالوہی پکارتے۔اگرچہ وہ قصائی تھی،لیکن ہم نے ہمیشہ ان کے احترام میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔والدکوکمشنرآفس میں سرکاری ملازمت مل گئی۔توان کی والدہ،میری دادی نے کہا۔’بیٹا!سرکاری نوکری توکررہے ہو،لیکن میری بات یادرکھنااگرتم نے حرام کما نے کاکبھی سوچابھی تومیں تمہیں دودھ نہیں بخشوں گی‘۔“
یہ ماضی میں ہماری تربیت کاحصہ تھا۔اب یہ بچوں کومحلے کے بزرگ توکیااپنے بڑے بھی کچھ نہیں کہہ سکتے۔والدین اوراہل خانہ کاناجائز آمدنی کے بارے میں یہی عمومی رویہ ہوتاتھا۔جبکہ آج ہرپیسے والے کی عزت ہے،چاہے وہ پیسہ کسی بھی ذریعے سے آیاہو۔دنیاکاکوئی پیشہ نہیں جہاں صرف اچھائی ہو،برائی نہ ہو۔اچھے برے راستے کاانتخاب ہرانسان کے اپنے ہاتھ میں ہوتاہے۔ظفرشروانی کے مطابق وکالت میں میرے استادشیخ حیدرایڈوکیٹ کہاکرتے تھے۔’میں نے کبھی جھوٹ نہیں بولااورآپ سے بھی یہی توقع رکھوں گاکہ اس پروفیشن میں جھوٹ سے پرہیزکریں۔‘
عدلیہ میں شمولیت کے مختلف مراحل ہوتے ہیں۔سول جج کی سطح پرآنے کے لیے تین سال کاتجربہ درکارہوتاہے،جب کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈسیشن جج کے لیے چھ سے آٹھ سال،ہائی کورٹ جج کی سطح کے لیے دس سال کاتجربہ درکارہوتاہے۔سپریم کورٹ میں براہ راست تقرری کی بھی آئین میں گنجائش ہے،کسی بھی ہائی کورٹ میں صلاحیت کی بناپرچیف جسٹس کی حیثیت سے تقرری ہوسکتی ہے۔تاہم جج بننے کے لیے قابلیت ہوناضروری ہے،محض تجربہ اورسینیارٹی کافی نہیں ہوتی،ایک سول جج کوہائی کورٹ پہنچنے میں کم ازکم تیس سال لگتے ہیں۔پانچ سے آٹھ برس میں سول جج کی سینئرسول جج پروموشن ہوی ہے۔اس کے بعدمرحلہ وارڈسٹرکٹ اینڈ سیشن تک پہنچنے کے بعدریٹائرمنٹ میں وقت بچتاہے،توہائی کورٹ کے لیے منتخب کیاجاتاہے۔ترقی کے لیے پوراایک طریقہ کارموجود ہے،تاہم بعض اوقات نااہل لوگوں کوبھی ترقی دے دی جاتی ہے۔جب ظفرشروانی نے سول جج کے لیے درخواست دی اس وقت پبلک سروس کمیشن سے زبانی انٹرویوکے بعدکورٹ میں سول جج تعینات کیے جاتے تھے۔پچھلی دودہائیوں اس طریقہ کارمیں خاصی تبدیلیاں ہوچکی ہیں۔ہمارے نظامِ انصاف کے بارے میں ظفرشروانی صاحب نے ایک واقعہ بیان کیاہے۔”ایک علاقے میں جرائم کی شرح بڑھ گئی تووہاں ایس پی نے ماتحتوں سے کہاکہ ایساکروکہ تھانے کے ریکارڈمیں جتنے بھی جرائم پیشہ لوگ ہیں،ان کے خلاف جھوٹے کیس بناکرانہیں عدالتو ں کے چکرلگانے میں الجھادو۔کچھ عرصے بعدمذکورہ ایس پی کاتبادلہ ہوا،تووہ کرائم ریٹ کم ہونے پرخوش اورمطمئن تھے۔آٹھ دس سال بعد جب ان کی اسی علاقے میں آئی جی کی حیثیت سے تقرری ہوئی،توانہوں نے پچھلے اقدام کے بارے میں بازپرس کی۔انہیں بتایاگیاکہ آپ کے زمانے میں جوکیسزبنائے گئے تھے وہ ابھی تک چل رہے ہیں۔استفسارپربتایاگیا۔کیس بناناتوآسان ہے،انہیں پایہ تکمیل تک پہنچاناہمارے بس میں نہیں،وہ توکورٹ کے ہاتھ میں ہے،جوگواہ طلب کرتی ہے،جوموجود ہی نہیں ہوتے اورکیس چلتارہتاہے۔“
1977ء میں ڈاکٹرظفراحمدخاں شروانی نے سول جج کے لیے درخواست دی۔ان کاخیال تھاکہ بطورجج،معاشرے کی بہت خدمت کی جا سکتی ہے۔یہی سوچ کرانہوں نے وکالت چھوڑکرجج بننے کافیصلہ کیا۔ستمبر1978ء میں ان کی پہلی تقرری خیرپورمیں ہوئی۔اندرون سندھ عدالتوں میں کارروائی سندھی میں ہوتی ہے۔انہوں نے جلد سندھی بھی سیکھ لی۔انہوں نے خیرپورکے چند دلچسپ واقعات لکھے ہیں۔ ’ایک روزفون پراطلاع ملی کہ میرے بھائی ٹرین پرخیرپورسے گزریں گے،میں ان سے ملنے رکشہ پرچلاگیا۔آدھے گھنٹے بعدواپس آیا تو میز پر ٹیلی گرام رکھاہواتھاجوخیرپورکے مشہوروکیل نے رجسٹرارہائی کورٹ اورڈسٹرکٹ جج کومیرے خلاف بھیجاتھاکہ میں بغیراجازت کراچی چلاگیاہوں۔میں نے فوری طورپرڈسٹرکٹ جج صالح میمن کواطلاع بھجوائی کہ میں کورٹ میں موجود ہوں اورٹیلیگرام جھوٹ پرمبنی ہے۔انہوں نے فوری طورپران وکیل صاحب کے خلاف ایکشن لینے کاحکم صادرکردیا۔وکیل صاحب نے جواب میں کہاکہ میں جج کوسبق سکھاناچاہتاتھااوراس قسم کی کاروائیاں اکثرکرتارہتاہوں۔“
کتاب کانام ”ہاں،میں انکاری ہوں“ رکھنے کے بارے میں شروانی صاحب کاکہناہے کہ اس پیشے میں آنے کے بعدمیں نے اپنی تہذیب اورتربیت کے مطابق کام کرنے کی کوشش کی لیکن اس شعبے میں قدم قدم پرجھوٹ،فریب،مکاری اورریاکاری کاسامناکرناپڑا۔اچھے لوگوں کی تعدادکم کم نظرآتی ہے۔اس ماحول میں منفی رویوں کے خلاف رہاتوانکاری ٹھہرایاگیا۔یہی کتاب کانام رکھا۔
چیف جسٹس افتخارچوہدری صاحب کومعطل کیاگیا،توان کی بحالی کے لیے ملک گیرتحریک چلائی گئی،منیرملک نے اپنی تقریر میں کہاجوجج تحریک کے حامی ہیں۔استعفے ہائی کورٹ کوبھیج رہے ہیں،وہ اپنے استعفے ہمیں دیں۔میں نے فوراً اپنا استعفٰی انہیں دے دیا۔دوبارہ بطور جج ہائی کورٹ سرکٹ بنچ حیدرآبادبھیج دیاگیا۔وہاں چندروزہوئے تھے کہ تین نومبرکاتاریخی دن آگیا۔اس موقعے پرمیراموقف واضح تھا،میں نے اس غیرقانونی اقدام کے خلاف پی سی او حلف لینے سے انکارکردیا۔انکارکرنے والوں میں چیف جسٹس صبیح الدین احمد،جسٹس امیر ہانی مسلم،جسٹس گلزاراحمدجسٹس سجادعلی شاہ،جسٹس فیصل عرب،جسٹس مشیرعالم،جسٹس خلجی عارف،جسٹس سرمدجلال عثمانی،وغیرہ شامل تھے۔میں آج بھی پی سی اوحلف نہ اٹھانے کے فیصلے پرمطمئن ہوں۔جسٹس افتخارچوہدری بحال ہوئے توبیشترجج بحال کردیے گئے لیکن ظفر شروانی صاحب کوبحال نہیں کیاگیا۔
اتوار14مارچ 2010ء کوظفرشروانی کی عمرساٹھ سال ہوگئی۔اس وقت وہ جوڈیشل ممبر،کسٹم اپلیٹ ٹریبونل،کراچی تعینات تھے،مرکزی حکومت نے تین مہینے پہلے ان کی خدمات سندھ ہائی کورٹ سے مستعارلی تھیں۔ان کے پاس دوآپشن تھے۔تین سالہ مدت پوری کریں یا بروزہفتہ آخری ورکنگ ڈے پرذمہ داری سے سبکدوش ہوجائیں۔انہوں نے چارج چھوڑنامناسب سمجھا۔پرویزمشرف کے پہلے پی سی او کے تحت سعیدالزماں سمیت سپریم کورٹ کے چندججوں نے حلف نہ اٹھانے کی جرأت کی اورعہدوں سے برخواست ہوئے۔ اگراس وقت بھی وکلاء برادری،سول سوسائٹی اورعوام جرأت دکھاتے جوانہوں نے2007ء میں دکھائی تھی توقوم کوآٹھ سال مزیدانتظارنہ کرناپڑتااور تبدیلی کاسفراسی وقت شروع ہوجاتا جواس تحریک کے بعدشروع ہوا۔کچھ عرصے پہلے ”پچاس سال بعدایک کیس کافیصلہ“ کی سرخی سے خبرشائع ہوئی۔جس شخص کاکیس تھا،وہ کورٹ کے باہربھیک مانگ رہاتھا۔ہمارے عدلیہ میں کیسوں کافیصلہ ہونے میں دہائیاں بیت جاتی ہیں۔قومی عدالتی پالیسی سازکمیٹی کے جاری کردہ اعدادوشمارکے مطابق سپریم کورٹ،وفاقی شرعی عدالت،ہائی کورٹس اورضلعی عدلیہ میں 31جولائی 2020ء بیس لاکھ مقدمات زیرِ التواتھے۔جبکہ بیس فیصد تنازعات نظامِ عدل اوراسی فیصدغیرقانونی اورغیررسمی جرگہ اورپنجایت میں پیش ہوتے ہیں۔ یہ حقیقت ریاست،معاشرے اورعوام کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے اورنظام عدل پرشہریوں کے عدم اطمینان اورریاست کی ناکامی کاثبوت ہے۔صرف چارہزارججوں کے ساتھ بیس لاکھ کیسزکاخاتمہ! بقول سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ”اگرسپریم کورٹ کے تمام جج،تمام اعلیٰ اورماتحت عدالتیں دن رات کام کرتی رہیں،تب بھی ان مقدمات کوختم نہیں کرسکتیں۔“
ظفراحمدشروانی کاکہناہے کہ اگردستیاب وسائل کوباکفایت اورموثراندازمیں استعمال کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔موجودہ ججز کی تربیت میں کیس مینجمنٹ کامضمون شامل کرکے اس ٹیکنیک کواستعمال کیاجائے توزیرالتوامقدمات کی تعداد خاطرخواہ حدتک کم ہوسکتی ہے۔ساری دنیااس تیکنیک کواستعمال کرکے مطلوبہ نتائج حاصل کررہی ہے۔اسی طریقہ کارکے تحت اپنی ملازمت کے دوران میں نے بطور ڈسٹرکٹ جج کراچی سینٹرل،کراچی ایسٹ اورحیدرآبادمیں کیسز کی تعداد میں حیران کن حدتک کم کرکے بہترین نتائج حاصل کیے تھے۔اس تبدیلی کااعتراف وکلاء، سائلین اورایشین ڈویلپمنٹ بینک نے بھی اپنی رپورٹوں اورآسٹریلیافیڈرل کورٹ کی جج محترمہ جسٹس کیتھی بربن سن نے کراچی ایسٹ کے دورے کے بعدایک خصوصی خط میں کیاتھا۔
ظفرشیرانی صاحب نے ایک واقعہ بیان کیا۔”میرے ایک دوست وکیل ایک کیس لے کرآئے،میرے منصب کاخیال کرتے ہوئے کہا۔’یورآنر!اس کیس میں مجھے اسٹے چاہیے۔‘ میرے انکارپروہ بے تکلف ہوگئے،کہنے لگے،’یاردے دو،تم مجھے اسٹے کیوں نہیں دوگے۔‘مجھے ان کے رویے پرحیرت ہوئی اورکیس ملتوی کرتے ہوئے کہا۔آپ یہ کیس کسی اورعدالت میں چلائیں،کیونکہ آپ میرے دوست ہیں اورآپ نے دوستی کااظہارکیاہے‘۔“
مقدمات میں تاخیرکی وجوہات میں تحریری قانون میں پیچیدہ اورمشکل زبان کااستعمال ہونا اورعدالتی زبان کاانگریزی ہونابھی ہے، صرف ناخواندہ افرادہی کونہیں اچھے خاصے پڑھے لکھے شخص کوبھی نہ قانون کی زبان سمجھ آتی ہے نہ اس کی موشگافیاں اس کے پلے پڑتی ہیں۔یہ بات سمجھ سے بالاترہے کہ جب پاکستان کی قومی زبان اردوہے جوملک کی اکثریت سمجھتی اوربولتی ہے توتمام قوانین اردومیں کیوں نہیں بنتے اورسپریم کورٹ کے فیصلوں پرعمل نہیں ہوتاکہ اردوکوفوری طورپردفتری زبان کے طورپررائج کیاجائے۔انگریزکوپروا نہیں تھی کہ اس کے بنائے قوانین غلاموں کی سمجھ میں آتے ہیں یانہیں مگرآزادی کے بعداب بھی قوانین انگریزی میں کیوں بنائے جاتے ہیں۔ججزکی تنخواہوں اورمراعات میں خاطرخواہ اضافہ ہواہے اس کے علاوہ جوڈیشل الاؤنس اوریوٹیلیٹی بلزسمیت دیگرالاؤنسزبھی ملتے ہیں۔ججوں کی پینشنزمیں بھی اسی حساب سے اضافہ ہواہے۔مگرافسوس عوام کو عدالتوں میں قابل ذکرسہولیات میسرنہیں۔نہ ان کے مقدمات کے فیصلے جلدکیے جاتے ہیں نہ کورٹ میں عزت سے بیٹھنے کی کوئی جگہ ہوتی ہے اورنہ خواتین کے لیے علیحدہ باتھ رومزکی سہولیات دستیاب ہیں۔جج صاحبان کیسزکی تاریخ مقررکرتے وقت یہ خیال بھی نہیں کرتے کہ اس دن چھٹی تونہیں یاآپ خود چھٹی پرجانے کاارادہ تونہیں رکھتے،تاکہ سائلین کوخواہ مخواہ کورٹ میں حاضری نہ دینی پڑے۔ضلعی عدالتوں میں جج سے زیادہ وکیل کاکنٹرول ہوتاہے۔
ظفراحمدشروانی عدالتی امور پراظہارخیال کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔”آئین کی شق184(3) سوموٹوایکشن کے تحت حکومتی کاموں میں ججز کو مداخلت کی اجازت نہیں ہے۔اگرایسی بات ہوتی،توسپریم کورٹ باقاعدہ رولزبناتی۔کوئی بھی جج اپنے معاملے میں جج ہوہی نہیں سکتا مگرجسٹس افتخارچوہدری نے غلط روایت قائم کی۔جب اپنے بیٹے پرالزام لگا،توکیس کی سماعت خودکی پھربعدمیں جب انہیں باورکرایا گیاکہ آپ یہاں نہیں بیٹھ سکتے،توانہوں نے بینچ توڑدی،لیکن اس وقت تک وہ اپناکام کرچکے تھے۔میں نے ہمیشہ اصولوں پرچلنے کوترجیح دی،اس سے بہت سے دوست ناراض ہوئے پرکبھی برائی نہیں کی۔مشکل راستہ تھالیکن اللہ نے ثابت قدم رکھا۔کبھی کسی فیصلے پرافسوس نہیں ہوااوررب کریم نے کبھی مایوس نہیں کیا۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی KCDRاورالیکشن ٹریبونل میں کام کیااورسندھ ہائی کورٹ انسپکشن ٹیم کا چیئرمین بھی رہا۔“
موجودہ حکومت کوچاہیے کہ ایساوسیع کمیشن تشکیل دے جس میں تمام مکتہ فکرکے ذہین اورتجربہ کارافرادشامل ہوں۔کمیشن عوامی رائے کومدنظر رکھتے ہوئے ان تمام قوانین کاجائزہ لے،اورجوقوانین موجودہ دورکی ضرورتوں کوپورانہیں کرتے یاان کی کوئی افادیت نہیں ہے،ان کی جگہ نئے قوانین یاترامیم تجویزکرکے رپورٹ تیارکرے۔جس پرپارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں تفصیلی بحث کے بعدقانون سازی کرکے ضابطہ فوجداری اورضابطہ دیوانی کے نئے قوانین منظورکرکے عدلیہ میں نافذ کیے جائیں۔
ظفراحمدخاں شروانی کی آپ بیتی”ہاں،میں انکاری ہوں“ بہت قابلِ قدرہے۔اسے ہرقانون پرعمل کرنے والے کوضرورپڑھناچاہیے اور اسے نصاب میں بھی شامل کیاجاناچاہیے۔کتاب میں دی گئی تجاویز پربھی عمل کیاجائے توہمارے عدالتی نظام میں بہت بہتری آسکتی ہے۔