حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان فرماتی ہیں کہ رمضان المبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بعض اوقات فجر ایسی حالت میں آ جاتی تھی کہ آپ حالت جنابت میں ہوتے تھے ۔اور وہ جنابت ایسی نہیں ہوتی تھی جو خواب کی وجہ سے ہوتی ہے پھر آپ غسل فرما لیتے تھے اور اس وقت آپ روزے سےہوتے تھے ۔ ( متفق علیہ )
رمضان کے زمانے میں بعض اوقات یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آدمی کو رات کے جنابت لاحق ہو تو تو کیا اس کے لئے یہ لازم ہے کہ سحری بند ہونے اور روزہ شروع ہونے سے پہلے پہلے نہا لے ۔اس سوال کا جواب اس حدیث سے ملتا ہے ۔حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ بعض اوقات ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی وسلم پر فجر کا وقت آگیا اور روزہ شروع ہونے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل فرمایا ۔پھر اس کی وضاحت بھی فرما دی کہ یہ غسل وہ نہیں تھا جو خواب میں لاحق ہونے والی جنابت سے لازم آتا ہے۔ معلوم ہوا کہ اس طرح کی حالت میں روزہ شروع کیا جاسکتا ہے اور اس سے روزے میں کوئی خرابی یا قباحت واقع نہیں ہوتی۔
اب ذرا غور کیجیے کہ اگر یہ بات حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان نہ فرماتیں تو مسلمانوں کو کیسے معلوم ہوتی اور اگر معلوم نہ ہوتی تو انہیں اپنی پرائیویٹ زندگی میں کیسی دقتیں اور الجھنیں پیش آتیں۔ دوسرے الفاظ میں یہ اللہ تعالی کا بڑا فضل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اور آپ کے گھر والوں کی ایک بہت بڑی قربانی تھی کہ انہوں نے اس زندگی کے اس پہلو تک کو لوگوں سے چھپا کر نہیں رکھا۔ بلکہ اس کے متعلق ضروری معلومات دیں تاکہ لوگوں کو اپنی زندگی کے اس پہلو کے متعلق رہنمائی مل سکے ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بڑا عظیم الشان ایثار تھا جو رسول اللہ صلی اللہ وسلم نےاور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں نے کیا۔
آج کچھ بے وقوف ایسے بھی ہیں جو اس چیز کے متعلق اعتراض کرتے ہیں کہ حدیث میں یہ کیسی باتیں آ گئی ہیں جو ازواج مطہرات نے بیان فرمائی ہے ۔انہیں معلوم نہیں کہ اگر مومنین کی مائیں امت کو یہ باتیں نہ بتاتیں تو امت کو ان چیزوں کے متعلق ہدایات کہاں سے ملتیں۔