گزشتہ سال سے کئی میرے شناسا اللہ کے حضور لوٹ رہے ہیں، خبر ملی کہ آج مولانا وحید الدین خان صاحب کا بھی انتقال ہوا. طالب علمی کے زمانے سے ہی میں مولانا خان صاحب کی کتابیں پڑھتا تھا، جماعت اسلامی ہند کے قرآنی حلقہ میں اجتماعی مطالعہ کے دوران اکثر ان کی تفسیر سے استفادہ کیا، مجھے یاد ہے کہ میرے پاس پرانے رسالوں میں سب سے زیادہ ‘الرسالہ’ ہی موجود ہیں. خان صاحب کی تفسیر کے علاوہ مجھے ان کی سب سے زیادہ جس کتاب نے متاثر کیا وہ ‘عظمت قرآن ہے’ ، خان صاحب زُود نویس تھے، انہوں نے قریب 200 کتابیں رقم کیں اور تقریباً سبھی میری ذاتی لائبریری میں موجود ہے، ان کا اسلوب خوبصورت تھا. ذاتی طور پر مولانا خان صاحب کی فکر سے مجھے کبھی بھی اتفاق نہیں ہوا البتہ ان کے اسلوب نے ہمیشہ متاثر کیا، ہر چھوٹی چھوٹی بات کو آخرت سے ملانا ان کا خاصہ تھا. مولانا خان صاحب کے ساتھ میری لمبی خط و کتابت بھی رہی، ہر بار وہ خط کا جواب خود لکھتے. مولانا مرحوم کے ساتھ میری دو لمبی ملاقاتیں ان کے گھر واقع نظام الدین میں ہوئی ہیں . جب میں پہلی دفعہ ملنے گیا تو باہر تعینات سیکورٹی والے نے کہا کہ پہلے فون پر appointment لیجیے میں نے مولانا کو ذاتی نمبر پر فون لگایا انہوں نے خود اٹھایا اور پوچھا کہ کیوں ملنا چاہتے ہو؟ اس کے بعد کہا کہ ملاقات کے لئے میرے سوال کا جواب دینا ہوگا. انہوں نے سوال کیا صبر کب تک؟ میں نے جواب دیا نماز کب تک. انہوں نے کہا کہ آپ میرے کتب خانہ میں تشریف لائیے ، وہاں میں گھنٹوں بیٹھا رہا مولانا بیچ بیچ میں alpenlebe. مٹھائی کی تواضع کرتے رہے، میں دیکھ رہا تھا میرے اور مولانا کے درمیان جو گفتگو ہو رہی تھی، وہ اس کو نوٹ کر رہے تھے کبھی کبھی مجھ سے وضاحت بھی طلب کر رہے تھے، مجھ سے پوچھا کشمیر کی موجودہ تحریک سے کشمیری عوام کو کیا فائدہ پہنچا؟ میں نے کہا کہ ہم اس دور سے نکل چکے ہیں جب ہمارا نعرہ ہوتا تھا ‘جو کرے گا شیخ کرے گا.’ مولانا نے سب نوٹ کیا. میں حیران تھا کہ اس پایہ کی شخصیت مجھ جیسے عامی کی بات بھی نوٹ کر رہے ہیں. خان صاحب کے سفر نامے میں شوق سے پڑھتا تھا، ہر چھوٹے بڑے واقعہ کو آخرت سے ملانا ان کا خاصہ تھا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا کے ہاں علم سے زیادہ معلومات ہوتی تھی. چند سال قبل فروری میں مولانا نے ‘الرسالہ’کا کشمیر نمبر شائع کیا جس کو بڑے پیمانے پر پھیلایا گیا، اس شمارے میں شیخ العالم کے حوالے سے ایک نظم کو غلط طریقے سے پیش کیا گیا تھا میں نے مولانا کو اس کے بارے میں آگاہ کیا اور بتایا کہ آپ کشمیری نہیں جانتے شیخ العالم کی نظم کا جو مفہومِ ہے وہ آپ کے موقف کے الٹ ہے لیکن مولانا نے نہ رجوع کیا اور نہ ہی جواب دینے کی زحمت اٹھائی حالانکہ ان کا معمول تھا کہ اگر کوئی پوسٹ کارڈ پر بھی خط لکھتا وہ اس کا جواب دیتے، مولانا ہمیشہ مسلمانوں کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ایک بار میں نے انہیں فون کیا اور بتایا کہ پروفیسر ایس آر گیلانی کو پھنسایا گیا ہے آپ اپنے ذاتی اثر رسوخ سے ان کی مدد کیجیے اس سلسلے میں میں نے آپ کو سارے documents بھیجے ہیں. مولانا کا جواب تھا کہ مسلمانوں کی عادت ہے کہ وہ پہلے کوئی کام کرتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ ہم نے نہیں کیا، میں نے مولانا کو کہا کہ حیرت ہے جو کاغذات میں نے آپ کو بھیجے ہیں اس میں ہندوستان کے غیر مسلم دانشوروں نے بھی دکھایا ہے کہ وہ کس طرح بے گناہ ہیں. پھر میں نے مولانا کو کہا کہ آپ بدگمانی کے خلاف خوب لکھتے ہیں لیکن یہاں خود ہی بدگمانی کرتے ہیں. سید مودودی، علامہ اقبال اور سید قطب کے خلاف ایسا لکھتے کہ قاری کو محسوس ہوتا کہ ان افراد کے ساتھ مولانا کو ذاتی رنجش ہے.
یہ بھی حقیقت ہے کہ مولانا خان صاحب کے اسلوب نے ہزاروں افراد کو اسلام کے قریب لایا آپ کا مطالعہ گہرا تھا. جدید علوم پر بھی اچھی نگاہ تھی، بات رکھنے کا اسلوب بھی تھا. مولانا بارہمولہ کشمیر بھی آئے ہیں. مجھے ایک ملاقات میں اس کا احوال بھی سنایا، قرآن کریم کی ان کی تفسیر ‘تذکیر القرآن’ بنیادی طور پر تاثراتی تفسیر ہے لیکن وہ مختصر فقرے، وہ نکات قاری کو اپنی طرف مائل کرتے ہیں کل ہی میں جب سورہ البقرہ کی آیت 83 کا مطالعہ کر رہا تھا تو حسن سلوک کے ساتھ “لوگوں سے اچھی بات کرو” کے بارے میں غور و فکر کر رہا تھا تو مولانا کی تفسیر دیکھ کر دل مطمئن ہوا اسی وقت اپنے دوست کو کہا کہ اس کی ایک تصویر بناو آج انہوں نے جب تصویر بنا کر بھیجی تو مولانا کا انتقال ہوا تھا، مولانا لکھتے ہیں ‘آدمی کا اصل امتحان “یتیموں اور مسکینوں” بالفاظ دیگر کمزور افراد کے ساتھ ہوتا ہے، کیونکہ جو طاقتور ہے اس کا طاقتور ہونا خود اس بات کی ضمانت ہے کہ لوگ اس کے ساتھ حسن سلوک کریں، مگر کمزور آدمی کے ساتھ حسن سلوک کے لیے اس قسم کا کوئی اضافہ محرک نہیں، اس لیے سب سے زیادہ حسن سلوک جہاں مطلوب ہے وہ کمزور لوگ ہیں، حقیقت یہ ہے کہ جہاں ہر چیز کی نفی ہو جاتی ہے وہاں خدا ہوتا ہے ایسے آدمی کے ساتھ وہی شخص حسن سلوک کر لے گا جو فی الواقع اللہ کی خوشنودی کے لئے ایسا کر رہا ہو، کیونکہ وہاں کوئی دوسرا محرک موجود ہی نہیں. جب معاملہ کمزور آدمی سے ہو تو مختلف وجوہ سے حسن سلوک کا شعور دب جاتا ہے، کمزور آدمی کو مدد دی جاتی ہے اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ پانے والے کے مقابلہ میں دینے والا اپنے کو کچھ سمجھنے لگتا ہے، یہ نفسیات کمزور آدمی کی عزت نفس کو ملحوظ رکھنے میں رکاوٹ بن جاتی ہیں، کمزور کی طرف سے متوقع نیاز مندی کا اظہار نہ ہو تو فوراً اس کو نا اہل سمجھ لیا جاتا ہے اور اس کا اظہار مختلف تکلیف دہ صورتوں میں ہوتا رہتا ہے ایک دو بار مدد کرنے کے بعد یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ شخص مستقل طور پر میرے سر نہ ہوجائے اس لیے اس سے چھٹی لینے کی خاطر اس کے ساتھ غیر شریفانہ انداز اختیار کیا جاتا ہے. ‘(تذکیر القرآن صفحہ 40) مولانا خان صاحب نے اسلام کے خلاف پھیلانے والے پروپیگنڈہ کا بھی خوب اور عقلی جواب دیا، مولانا نے دین کے مختلف موضوعات پر لکھا. آج کے دور میں جب مظلومیت اپنے عروج پر ہے مولانا خان صاحب کا موقف سے متاثر ہونے کے لیے نہایت ہی موثر اسلوب اور دلائل ہونے چاہیے، مولانا نے بہرحال ایک بڑی تعداد کو متاثر کیا. مولانا کی سب سے خوبی یہ ہے کہ انہوں نے اپنے اہل خانہ کو دین اور ملت کے کاموں میں لگایا، ڈاکٹر ظفر اسلام خان صاحب ہندوستانی مسلمانوں کی موثر آواز ہے، ڈاکٹر ثانثین خان نے عمدہ لکھا بھی ہے اور تقریریں بھی کرتے ہیں، ان کی پوتی بھی عمدہ کام کر رہی ہے، رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مولانا کی لغزشوں کو معاف کریں اور آپ کو علین میں جگہ دے.