یہ ان بہت سے سوالوں میں سے ایک سوال ہے جو پچھلی نصف صدی کے دوران بار بار پوچھے جاتے رہے ہیں لیکن جن کے جواب آج تک کبھی پوری تشفی ، پورا اطمینان نہیں دے پائے ۔ جادو کی کیمیا بھی بھلا کبھی بیان کی جا سکی ہے؟
پینتالیس برس قبل ، یعنی 1975 میں ، جب میں نے ایک بے نام مترجم کی حیثیت سے سب رنگ کے دفتر میں قدم رکھا تھا تو میں نہیں جانتا تھا کہ میں کسی طلسم کدے میں داخل ہو رہا ہوں جہاں ایک نئی ، انوکھی اور بے مثال دنیا تخلیق کرنے کی تیاریاں مکمل ہیں اور شکیل عادل زادہ نامی کوئی جادوگر اردو لکھنے پڑھنے والوں کے لئے حیرت اور مسرت کا ایک جہاں آباد کرنے کا فارمولا ایجاد کر چکا ہے ۔
اب حسن رضا گوندل نے اور بک کارنر جہلم نے سب رنگ میں شائع ہونے والی ، عالمی ادب کی شاہ کار کہانیوں کے تراجم کو مرتب کرنے کا یہ بڑا کام شروع کیا ہے تو وہ پورا زمانہ ، وہ ساری فضا ، اعلی ترین ادب کو پڑھنے کی وہ ساری سنسنی ، روح کو پھر سرشار کر رہی ہے ۔ سمندر پار کی یہ شاہ کار کہانیاں کیسے حاصل کی جاتی تھیں ، کیسے ترجمہ کرنے کے بعد سب رنگ کے دربار میں پیش کی جاتی تھیں ، ہم جیسے مترجم کیسے ان کہانیوں کے منتخب ہو جانے کا انتظار کرتے تھے ، اور ان کی اشاعت ہمارے دلوں کو کیسے فخر سے اور خوشی سے بھر دیتی تھی ، یہ ایک علیٰحدہ داستان ہے ۔
موصول ہونے والے ان تراجم کو سب سے پہلے شکیل عادل زادہ خود نہیں جانچتے تھے ۔ پہلے ایک جیوری ان تراجم کا جائزہ لیتی تھی ۔ جن تراجم میں سب رنگ کے خاص معیار پر پورا اترنے کا امکان ہوتا تھا ، وہ منتخب ہو کر شکیل بھائی تک پہنچتے تھے ۔ حتمی فیصلہ شکیل عادل زادہ ہی کرتے تھے ۔
یہی وہ پورا عمل تھا جو معیار کی بنیاد بنا ۔ اس معیار کی ، جس کے آج اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی حوالے دئیے جاتے ہیں ، جو آج بھی سکہ رائج الوقت سمجھا جاتا ہے ، اور جس کی بدولت دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کے ذوق کی فقید المثال تربیت ہوئی ۔
اب یہ کہانیاں کتابی شکل میں ہمارے سامنے آتی جاتی ہیں ۔ لطف کا ایک بحر بے کنار ، جس کے ساحلوں پر آسودگی کی سنہری دھوپ چمکتی ہے ۔ یہ کہانیاں پڑھئے ، اور دیکھئے کہ خوشی کیسے آپ کی روح میں اترتی جاتی ہے ۔