ADVERTISEMENT
21فروری 2021 کو منعقدہونےوالی پنجابی ماں بولی ریلی میں شرکت کااعزازحاصل ہوا، پنجابی قوم پرست دوستوں کی دعوت کے ساتھ محبت بھرا اصرار،گو پچھلےسال لاہوراچکاتھا ،گومگو کی کیفیت موجود لیکن نظریاتی کمٹمنٹ ،پنجابی ایکٹوسٹ کی تیز سرگرمیوں کودیکھ کرفیصلہ کیاکہ پھر آبائی شہرلاہور کی یاتراکی جائے تاکہ پنجابی تحریک کی اٹھان کامشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرسکوں کیونکہ سمجھتاہوں کہ پنجابی کاز کے لئے پنجاب کے آدرش کےلئے جو بھی کام کررہا ہے وہ دراصل شہزادناصرکےلئے کام کررہاہے کیونکہ میرانظریہ پنجابی نیشنلزم ہے ،لاہورمیں بیٹھے دوستوں کی کامیابی اورکام ان کی کامیابی سے زیادہ میرے مشن کی تکمیل ہے اور خوابوں کی تعبیر۔
گرچہ اصرار بہت سےدوستوں کاتھا لیکن احمدرضا وٹو، محمد ظاہر،میاں آصف، اینکرطاہرملک ، پنجابی دانشوراورسیاستدان فرخ سہیل گویندی اور وانہ صاحبان کا زکرکئے بغیر بات مکمل نہیں ہوسکتی ۔ جب اتنے پرخلوص دوستوں کا اصرارہوتو دس ہزارمیل کا سفراور کرونا وبا کے سامنے ڈٹ جانے کا حوصلہ بھی پیداہوجاتا ہے ۔ بہت سے فیس بک فرینڈزجن سے زندگی میں ملا بھی نہیں انھوں نے بصدخلوص ومحبت اپنے گھرٹھہرنے کی دعوت دی جن کا شکرگذارہوں ،ہوٹل ٹھہرنا مناسب سمجھا کہ کسی میزبان کو پریشانی نہ ہو۔ فیصلہ فلیٹیزمیں قیام کاہوا کہ لوکیشن پنجاب اسمبلی ، مال روڈ، شملہ پہاڑی اورلکشمی چوک سے قریب ترہے ۔سکول زمانے کی یادیں بھی اس علاقے سے وابستہ تھیں کہ ابائی محلے لاہوری دروازے سے تانگے یا پیدل ہی لڑکے بالے فلم دیکھنے ایبٹ روڈ کےسینماؤں کارخ کرتے،
ویسےتواحمدرضاوٹواوردیگر صاحبان نے ائیرپورٹ آنے کےلئے کہالیکن فلیٹیزکا پک اپ تھاتومنع کردیا ،فلیٹیزپہنچتے ہی پہلی ملاقات ایم آصف پنجابی نیشنلسٹ سے ہوئی جو طویل فاصلہ طے کرکے ہوٹل پہنچے، ادھ گھنٹے میں احمدرضاوٹو ، صحافی تھیہم کے ساتھ گلدستہ لے کر ٓگئے ، محبت اورخلوص کامشکور۔ ڈنرکی دعوت لیکن اتنی دیرمیں اینکرطاہرملک کی کال اگئی کہ ڈنرمیرے ساتھ لارنس گارڈن کرناہے تو احمدرضاسے دوسرے دن کی ملاقات طے ہوگیئ ۔ رات گئے طاہرملک ، میاں جاوید اور ساشاملک سے گپ شپ ۔
اگلے دن دوپہرکو اقبال ٹاؤن احمدرضاوٹوسے ملنے جاناتھا کہ رانا احتشام کی کاہنہ سے کال اگئی تو ان کوساتھ لیکر اقبال ٹاؤن پہنچے، وہاں پی پی فیم ہمارے دوست شرافت رانا عرف سٹیو لامین اوربائکرزگروپ کے حکیم ارشد اورممونکا صاحبان بھی شریک محٖفل ہونے جہاں کھانے سے پہلے اور بعد میں پنجابی نیشنلزم پر دھواں دھاربحث ومباحثہ ہوا ،بہت کچھ سیکھنے کاموقع ملا۔
یہاں میڈم دیپ سعیدہ کازکر ضروری ہے کہ پنجابی نیشنلزم میں ان کا کرداربنیادی نوعیت کا ہے، وہ بظاہرسوشل میڈیاپر منظرعام پر نہیں لیکن تنظیمی بنیادپروہ فعال کردارادارکررہی ہیں ، انھوں نے اپنے افس میں اکیس فروری کو پنجابی ماں بولی ریلی کے انتظامات کے سلسلے میں میٹنگ بلائی جس میں شرکت کےلئے مجھے بھی دعوت دی ، میٹنگ میں بزرگ پنجابی سیاستدان طارق جٹالہ، پنجابی پرچارکے سربراہ احمدرضا وٹو، بھلیکھا کے مدثربٹ،پنجابی ادبی بورڈ کی پروین ملک ، میاں آصف ، پنجابی دانشورالیاس گھمن ، پروفیسرنبیل شاد اور دیگر شخصیات نے شرکت کی ( اتفاق سے ان کے نام میں بھول رہا ہوں )۔ میٹنگ کے آخرمیں دیپ سعیدہ نے شرکا کے اعزازمیں پرتکلف لنچ کا اہتمام کیا۔
ملاقاتیں ، فون کالز اور میسجزپر رابطہ تو گرچہ درجنوں پنجابی ایکٹوسٹ سے تھا لیکن اس آرٹکل کو پنجابی ریلی اور اس کے اثرات و کامیابی تک محدود رکھنا چاہتا ہوں تاکہ مضمون پر گرفت مضبوط رہے ،نامناسب پھیلاؤ نہ ہو لہازا جن فرینڈز کا زکر نہ ہوسکے وہ میری کوتاہی سمجھ کر نظرانداز کردیں۔
لب لباب یہ کہ اکیس فروری کی پنجابی ریلی کا براہ راست جائزہ لیتے ہیں ، دراصل ایک ریلی شملہ پہاڑی سے بھی نکلی تھی جس میں منہاس اور طاہرہ سرا تھیں ، اینکرطاہرملک سے وہیں ملنا تھا ، اس ریلی میں بھی کافی جوش وخروش تھا اوراس ریلی نے پرچار کی مین ریلی میں شامل ہونا تھا، شرکت کےلئے چئیرنگ کراس مال روڈ پہنچاتو وہاں میلے کا سماں تھا ، ناقابل یقین منظر، کوئی ایک ہزار کے لگ بھگ پنجابی مرد اور عورتیں زرد رنگ کے مفلر یا دوپٹوں کے ساتھ شریک، ہر ایک پرجوش، ایک کنٹینر پر مقررین پنجابی زبان کی بحالی اور پنجابی شناخت کےلئے شعلہ بیان تقاریرکررہے تھے دوسری طرف ریلی کے شرکا کا جوش وخروش دیدنی،گرچہ مجھے بھی مائیک تقریرکےلئے دیاگیا لیکن میں نے محسوس کیا کہ تقریرکی بجائے مشاہدہ زیادہ اہم ہے چنانچہ میں نے زیادہ توجہ پنجابیوں کے خیالات کو جاننے میں لی ،سب ایک فیملی کی طرح محسوس ہورہے تھے، زندگی میں پہلی بارسب سے مل رہاتھا ،قطعی محسوس نہیں ہورہا تھا کہ اجنبی ہوں ۔درجنوں ایکٹوسٹ نے گروپ فوٹوز لیں ، یہ مجھ سے اظہاردوستی نہیں پنجاب سے اظہار محبت تھا، میں تو پنجاب کےلئے سوچتا ہوں اور اسی سوچ و جذبے کے ساتھ یہ دیکھنے ایا تھا کہ پندرہ سال بعد پنجابی نیشنلزم کہاں کھڑا ہے ؟آج کم ازکم میں یہ بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ پنجابی نیشنلزم کا جو پودا پندرہ سال پہلے سوشل میڈیاکے زریعے لگایا گیا تھا وہ اب توانا ہورہا ہے ، اگر پہلے بیس افراد تھے تو سو افراد ہونے پر ہم خوش ہوئے کہ ہم لوگ بڑھ چکے لیکن پندرہ سال بعد صرف ریلی میں ہی کم ازکم ایک ہزارلوگ موجودتھے
اندازہ ہے کہ پنجابی نیشنلسٹوں کی کل تعداد تقریباً دس ہزار سے اوپر ہوچکی ، یقین ہے کہ چند سالوں میں یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچے گی ، جس کے بعد کسی بھی حکومت کو پنجابیوں کی ڈٰیمانڈ نظرانداز کرنا مشکل ہوجائے گا، بہت سے کم عقل یہ بات کہیں گے کہ ایک لاکھ سے کیا ہوتا ہے توان بے وقوفوں کو میں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ عام آدمی الیکشن میں صرف ووٹ ڈالنے جاتا ہے ، باقی اس کی کوئی سوچ نہیں ہوئی ،تو اصل پریشرگروپ نظریہ ساز اورایکٹوسٹ ہوتے ہیں جن سے حکومتوں اور اسٹبلشمنٹ کا سابقہ پڑتا ہے اوروہی تحریکیں چلا کرمطالبات منواتے اور قوانین میں تبدیلیاں کرواتے ہیں ،پنجابی نیشنلزم اب جڑپکڑچکا ہے ، تحریک بن چکا ہے اوراب یہ بڑھتا رہے گا کیونکہ اس میں عوامی رنگ ارہا ہے ، پنجابیوں کی ڈیرھ سو سال سے ٹھہری ہوئی سوچ تبدیل ہورہی ہے، پنجابی اب سوچنے لگے ہیں کہ ان کی بھی ایک زبان ہے کلچر ہے اور علاقہ ہے ،کیا اب وقت نہیں اگیا کہ ہم شاعرانہ بے وقوفیوں سے جان چھڑاکراپنی ماں دھرتی کے بارے میں عملی سیاسی سوچ اپنائیں۔
دوستو۔ خوشی ہے کہ جو سوچتا تھا وہ اپنی انکھوں سے لاہور پنجابی ریلی میں دیکھ ایا ہوں ، آخرمیں یہ کہوں گا کہ جو بھی پنجاب کےلئے کام کرے گا ، اس کے ساتھ ہوں ، میں پنجابی کاز کےلئے گذشتہ پندرہ سال سے نظریاتی جنگ لڑرہا ہوں کسی لیڈری کےلئے نہیں ، لہٰذا جو بھی پنجاب کےلئے کام کررہا ہے وہ میرا مشن پورا کررہا ہے،
پنجاب زندہ باد