سننے میں آ رہا تھا..
کوئی کہہ رہا تھا…..
ہمیں کسی سے پتہ چلا…..
کوئی بتا رہا تھا….
ہم نے یہ بات کسی سے سنی….
ہونٹوں نکلی کوٹھوں چڑھی!!
اے بہن سنتی ہو وہ کوئی بتا رہا تھا کہ نجمہ کا چکر کسی امجد کے ساتھ ہے۔
ہیں کیا واقعی…
ہاں بہن کہا نا کہ کوئی بتا رہا تھا…..
بس اس “کوئی” کے چکر میں …. . آج تک بیٹھی ہے نجمہ اپنے ماں باپ کے گھر… منگنی گئی بھاڑ جھونکنے مگر امجد کے تین جوان بچے ہیں۔
ارے سنو، کوئی کہہ رہا تھا کہ تمہارے میاں اب اس عمر میں آ کر بہت رنگیلے ہو گئے ہیں، پرسوں ہی کسی نے دیکھا گلی میں شریفن کے ساتھ کچھ نازیبا اشارے کر رہے تھے۔ چلیں جی اس “کوئی” نے اپنا شک کا پہلا بیج بو دیا۔ اب معاملہ یہ ہوا کہ برسوں کی رفاقت اور مزاج شناسائی کسی کام نہ آئی اور اس “کوئی” کی بات پر یقین کرتے ہوئے بیگم نے اپنے میاں جی کو شک کی عینک سے دیکھنا شروع کردیا… زیادہ دن نہیں گزرے کہ محلے والوں نے میاں بیوی کے مابین پہلے دھواں دار جھگڑے کا فری ٹکٹ میں مزا لیا، برتن الگ ٹوٹے۔ مزید کچھ عرصے بعد بیگم صاحبہ لڑ جھگڑ کر میکے جا بیٹھیں اور میاں جی اترے منہ کے ساتھ تندور پر اپنے لیے روٹیاں لیتے ہوئے دکھائی دیے۔
اس “کوئی” نے یقین جانیے بڑی ہی تباہیاں پھیلائی ہیں۔
میاں بیوی میں پھوٹ پڑوانی ہو یا پھر دلوں میں برائی کی پہلی میخ گڑوانی ہو۔
ساس بہو کو لڑانا ہو یا نندوں کو آزمانا ہو۔
باس کو ساتویں آسمان پر چڑھانا ہو یا اپنے دوست کو نیچے گرانا ہو۔
یہ “کوئی” آپ کو اس سب معاملے میں سب سے آگے ہی ملے گا لیکن مزے کی بات یہ کہ “کوئی” آخر ہے کہاں جہاں سے یہ سب خبریں نشر ہوتی ہیں… اس بارے میں کبھی پتہ نہیں چلے گا۔
ویسے یہ کوئی آخر ہے کون؟
کہاں رہتا ہے؟
کیا کرتا ہے؟
ایسا لگتا ہے کہ اس “کوئی” کا شجرہ نسب بھی ان نامعلوم افراد سے جا کر ملتا ہے جو آج تک معلوم نہ ہو سکے۔
اگر “کوئی” یہ جان لے کہ اس “کوئی” کی کتنی اہمیت ہے تو شاید وہ کالر کھڑے کرتے ہوئے مسندِ صدارت پر جا بیٹھے کہ آج یہ وقت آگیا ہے کہ اس “کوئی” پر اتنی بات کی جا رہی ہے۔
پہلے زمانے میں اس “کوئی” کا دائرہ کار اتنا وسیع نہیں ہوتا تھا اور معاملات دادی کے پان دان سے شروع ہو کر خاندان کے دسترخوان پر ہی نمٹ جاتے تھے مگر اس زمانے میں اس “کوئی” کو اتنی سہولتیں میسر ہیں کہ جیٹ جہاز بھی کیا تیزی سے سفر کرے گا جتنی تیزی سے اس “کوئی” کا کہا ہوا جملہ پاکستان سے نکل کر انگلستان پہنچ جاتا ہے۔
بعض اوقات ہمارے بزرگ بھی اس “کوئی” کو بڑا برجستہ استعمال کر جاتے ہیں کہ سامنے والا سوچتا رہ جائے کہ اس “کوئی” کا کوئی کرے تو کرے کیا آخر۔ ابھی کل ہی کی بات ہے شبّو کی دادی اپنی بہو سے کہہ رہی تھیں کہ….
” اے بہو کوئی بتا رہا تھا کہ لڑکے والے جہیز میں گاڑی بنگلے کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔”
بہو کے تجسّس کے مارے کان کھڑے ہو گئے اور وہ ساس کے نزدیک آ بیٹھیں کہ یقیناً ساس صاحبہ نے کوئی زبردست قسم کا مشورہ دینا ہے جس سے لڑکے والوں کے چودہ نہ سہی دس بارہ طبق تو روشن ہو ہی جائیں گے، مگر ساس صاحبہ بڑے اطمینان سے پان پر چونا لگاتے ہوئے گویا ہوئیں کہ…
اب لڑکے والے بھلے کتنا ہی جہیز کا مطالبہ کریں مگر بہو…..
“سب سے پہلے تو آپ نے گھبرانا نہیں ہے۔”
بہو کی تیکھی نظروں سے دیکھنے پر ساس جھٹ گڑبڑا کر بولیں کہ…
ارے بہو یہ میں نہیں کہہ رہی “کوئی” کہہ رہا تھا۔
گو کہ ہمارے معاشرے میں اس “کوئی” کا کردار کسی ولن سے کم نہیں ہوتا مگر ہمارا حال یہ ہوتا ہے کہ ہم اسی ولن کو سر آنکھوں پر بٹھا کر ہیرو بنا لیتے ہیں اور یقین جانیے اس “کوئی” کے ساتھ بہت عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں اور اس کوئی” کے لیے اپنا گلا کٹوانے تک کے لیے تیار ہو جاتے ہیں مگر مجال ہے جو نام زبان پر آنے دیں کہ یہ” کوئی” ہے کون۔
ہماری زندگیوں میں منفی کردار ادا کرنے والے اس” کوئی” کو ہمارے اطراف میں موجود ہمارے پیاروں سے زیادہ اہمیت حاصل ہو جاتی ہے اور موجود نہ ہوتے ہوئے بھی وہ دلوں میں پھوٹ پڑوانے کی جنگ جیت جاتا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اس سب کے باوجود بھی اس کی عزت میں کوئی کمی نہیں آتی اور وہ “کوئی” جو کوئی بھی ہوتا ہے سب سے زیادہ اہم، معزز اور با اعتبار قرار پاتا ہے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اس “کوئی” کا کبھی پتہ تو نہیں چل پاتا لیکن ایک خفیہ معاہدے کی رو سے لاشعوری طور پر اس “کوئی” کو بڑا پروٹوکول دیا جاتا ہے کہ اس “کوئی” کو اگر ظاہر کر دیا جائے گا تو کہیں اس “کوئی” سے ملنے والی اطلاعات کا سلسلہ موقوف نہ ہو جائے تو اس لحاظ سے دیکھا جائے تو “کوئی” ہم سب کے لیے بہت اہمیت بھی رکھتا ہے۔ اس کے ساتھ ہماری کافی دلی وابستگی ہوتی ہے اور جانے انجانے میں ہم اس “کوئی” کی شناخت کو خفیہ رکھتے ہوئے اس کو تحفظ بھی فراہم کر رہے ہوتے ہیں- خاص معاملات میں اکثر اوقات یہ “کوئی” ہمارے اپنوں سے زیادہ ہمارا اعتماد جیت لیتا ہے اور جب بھی کوئی اپنوں سے زیادہ اہم ہو جاتا ہے تو پھر تباہی تو لازم ہے۔
اس “کوئی” نے نہ جانے کتنی طلاقیں کروائیں، نہ جانے کتنے ہنستے بستے خاندان اجاڑے، بہن بھائیوں کے محبت بھرے دلوں میں نفرت کے بیج بو دیے، جو آج تناور درخت بن چکے ہیں، رشتے داروں کو ایک دوسرے سے متنفر کر دیا، دوست کو دوست سے جدا کر ڈالا مگر پھر بھی اس “کوئی” کے کلیجے میں ٹھنڈک نہ پڑی۔ خاندان سے نکل کر ایوانوں تک میں اس “کوئی” کی بازگشت سنائی دیتی ہے- ٹی وی پر مذاکرے ہو رہے ہوں یا دو بدو مناظرے.. کسی کے لیے کوئی نہ کوئی ایک نشست ضرور خالی رکھی جاتی ہے کہ جب چاہا جو الزام لگانا ہوا اس کوئی کے سر پر تھوپ دیا اور کہہ ڈالا کہ کوئی کہہ رہا تھا۔ حاضر شخص سے زیادہ اس غیر حاضر “کوئی” کی بات اہم گردانی جاتی ہے اور ایوانوں کے اندر اکھاڑ پچھاڑ شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ اقتدار کے تختے تک الٹ دیے جاتے ہیں۔
عموماً تمام تر افواہوں کے پیچھے یہ مسٹر کوئی ہی ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں ملک بھر میں بجلی کا طویل بریک ڈاون کیا ہوا بس ان کوئی صاحب کی تو لاٹری ہی کھل گئی کیونکہ ہر کوئی کہہ رہا تھا کہ
…. کوئی کہہ رہا ہے کہ ملک میں مارشل لا لگا دیا گیا ہے۔
کوئی کہتا کہ پاکستان انڈیا کی جنگ ہونے جا رہی ہے اور بات ایٹمی حملے تک جا پہنچی ہے۔
وہ وہ افواہیں پھیلائی گئیں کہ الامان و الحفیظ۔ وہ تو صد شکر کہ صبح جا کر بجلی کی ترسیل بحال ہونا شروع ہوئی تو کوئی صاحب خاموش ہو کر کونا پکڑ کر بیٹھ گئے ورنہ اس دن پاکستان میں بالا ہی بالا بہت کچھ ہو جانا تھا اور لشتم کے پشتم اکھڑ جاتے۔
مسٹر کوئی کو سوشل میڈیا کا بھی بڑا سہارا حاصل ہے۔ اس “کوٸی” نے سوشل میڈیا پر بھی بہت فساد ڈالے ہیں۔ کوٸی تو ہے، کسی سے تو چکر ہے اور اففف۔۔۔ یہی بڑا گھن چکر ہے۔ فیس بک پر دو لوگوں کی دوستی میں اس “کوٸی” نے بہت معاملات خراب کیے ہیں- ذرا کسی نے کسی کی پوسٹ پر توجہ دی اور کوئی صاحب ایکٹو ہوگئے- کسی نے کسی کو ٹیگ کیا اور ادھر کوئی دوسرے صاحب ہوشیار ہو گئے- لے دے کر جب تک معاملہ بلاک تک نہیں پہنچتا یہ کوئی صاحب کو سکون نہیں ملتا۔
ویسے آج کل کی نوجوان نسل جہاں تھوڑی باغی سوچ کی حامل ہے، وہیں بہت عقلمندی کا مظاہرہ بھی کر جاتی ہے۔ ان لوگوں کے پاس کسی کا کوئی کھاتہ نہیں ہوتا اور یہ جو جی میں آئے کرتے ہیں اور دھڑلے سے کرتے ہیں۔ صرف نوجوان نسل پر ہی کیا موقوف، بہت سے جی دار بھی اس “کوئی” کو خاطر میں نہیں لاتے اور اکثر ہمیں اس طرح کے جملے سننے کو ملتے ہیں کہ “کوئی کچھ بھی کہہ لے مجھے کسی کی نہیں سننا-” اور اس طرح یہ بہادر اور عقلمند لوگ اس “کوئی” کے جال میں پھنسنے سے بچ جاتے ہیں۔ بشرطیکہ وہ کوئی جو کوئی بھی ہو، اپنا خیر خواہ نہ ہو۔ شاید ایسے ہی جی دار لوگوں کے لیے بہت عرصہ پہلے کرشن بہاری نور نے کہا تھا….
جس کا کوئی بھی نہیں اس کا تو خدا ہے یارو
میں نہیں کہتا کتابوں میں لکھا ہے یارو!!!!
ویسے بڑے بزرگوں کو ہمیشہ ہی یہ کہتے سنا کہ ایک چُپ، سو سکھ، مگر آج کل اس کا عملی مظاہرہ ذرا مختلف انداز میں دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکثر اوقات جب اپنا اختلافی مدعا بیان کرنا ہو تو ہم سب مسٹر کوئی کے کندھوں پر اپنی بات رکھ کر خوب بندوق چلا لیتے ہیں۔
اب آتش کا حساب کتاب تو دیکھیں کہ وہ “زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے” کے مصداق معاملاتِ دل، دل میں ہی دبا بیٹھے کہ انہوں نے یہ گوارا نہ کیا کہ اپنے دل کی بات کسی اور سے کہلوا بھیجتے مگر ہم سب نے اس کا کیا زبردست توڑ نکالا کہ جو بات خود اپنے نام سے کسی سے دو بدو اور روبرو کہنے کی ہمت نہ ہو اس بات کو “کوئی” کا سہارا دے کر خود ہی اُس کے گوش گزار کر دیتے ہیں کہ اب مرچیں لگیں یا ہچکیاں آئیں۔۔ایک پنتھ دو کاج…. مسٹر کوئی تو پہلے سے ہی گمنام ہیں۔ ہاں مگر من کی بات کہہ کر کچھ افاقہ ضرور محسوس ہوجاتا ہے، کھانے میں سواد آجاتا ہے اور پیٹ کی مروڑ بھی خاصی کم ہو جاتی ہے۔
اب مقابل سوچتا رہے کہ یہ بات کہی کس نے ہوگی آخر۔
سانوں کی… من کا بوجھ تو ہلکا ہوا نا!!
ویسے آپس کی بات ہے کہ ہم سب ہی ایک ہی تھیلی کے چٹّے بٹّے ہیں- وہ ایسے کہ ہمارے اندر بھی کوئی ایک ایسا چھپا ہوا بیٹھا ہے کہ ہم سب بھی زندگی میں کبھی نا کبھی ایسا کوئی بن بیٹھتے ہیں۔
بس ہمیں اس چھپے رستم والے “کوئی” کا کردار ادا کرنے سے پہلے یہ ضرور سوچ لینا چاہیے کہ اس کوئی کی وجہ سے کسی کا ہنستا بستا گھر تو تباہ نہیں ہو رہا یا کسی کی زندگی میں آگ تو نہیں لگ رہی- ہماری تفریح اور سکون کی قیمت پر کوئی دوسرا بے سکون تو نہیں ہو رہا۔
دیکھ لیں یہ فیصلہ کوئی اور تو نہیں کر سکتا، اس لیے یہ فیصلہ اب آپ کو ہی کرنا ہے۔