آج کلاس روم میں ایک سٹوڈنٹ کے سوال نے مجھے یک دم بچپن میں پہنچادیا، وہ کہتی ہے کہ لڑکیوں کو سکول بھیجتے وقت والدین اتنی نصیحتیں کیوں کرتے ہیں، میں پانچویں سے چھٹی جماعت میں گئی، پہلے والدہ ،دادی اور پھر ایک روز والد نے بھی کچھ احتیاطیں اور اردگرددھیان رکھنے جیسی باتیں کیں، یہ سب اتنی زیادہ تھیں کہ اس ننھے ذھن پر ایک بھاری بوجھ سا لاد دیاگیا۔ وہ دن اور آج سوچوں کی آمدورفت اس قدر برق رفتار رہی کہ اکثردماغ غصے سے بھرجاتا حتیٰ کہ بڑوں سے الجھ پڑتی۔ آخر لڑکیوں اور عورتوں کے لئے ہی یہ سب کچھ کیوں ہوتا ہے۔
ایسا کرو، ایسا نہ کرو، ادھر جاو، ادھرمت دیکھو، یہ کھاؤ، یہ تمہارے لئے اچھانہیں۔ کیا پہننا ہے، کیسے چلنا ہے، کس سے تعلق رکھنااور کن سے گریز کرناہے، اور نہ جانے کئی قسم کی ہدایات ۔
یہ طالبہ ایک سادہ سے مگر مطمئن نہ کرنے والا جواب ذھن میں رکھے، میں نے روایتی طور پر اسے ٹال مٹول کرکے آئندہ کسی موقع پر تفصیل سے بات کرنے کاوعدہ کرکے اپنی اور اس سمیت تمام بچیوں کی جان چھڑائی۔
یہ حقیقت بھی ہے، اس سوال کا تسلی بخش جواب آج تک ملا نہیں ، ہاں البتہ عورت نے خود سے کئی تاویلیں تلاش کرلی ہیں، جن میں سے کچھ درست اور کچھ نامناسب قراردی جاچکی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اس بات کااحساس ہوا کہ ہم لوگ کئی معاملات میں گھر کے دوسرے افراد خصوصاً مرد حضرات کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ کہیں آنا جانا، اگرچہ ہم عورتیں خود بھی آزاد ہیں، لیکن اس کے باوجود حیثیت اور مرتبے کی تفریق ہمیں مجبور کردیتی ہے کہ نقل وحرکت کے لئے کسی دوسرے مرد، باپ، بھائی ، شوہر یا بیٹے کا ساتھ ضروری ہے۔
یہ آزادی کاسوال بھی بہت اہم اور کسی حد تک حل طلب ہے، اس کا جواب بھی سماج میں بسنے والی عورتوں نے نکال لیا ہے، لیکن اب بھی بڑی تعداد حدودوقیود کی تعریف ڈھونڈنے میں لگی ہیں۔ ان کے اوپر عائد کی گئی پابندیاں انہیں شاید سوچنے بھی نہیں دیتیں کہ کیاکسی قسم کی آزادی بھی ان کا حق ہے۔ آخر کار یہ آزادی کتنی اور کہاں تک ہونی چاہیے، عورت اس میں کیاکچھ کرناچاہتی ہے۔
سماج میں ہرکام عورت کررہی ہے، سائیکل، گاڑی چلانے سے لیکر جہاز اُڑانے تک، گھرکاانتظام، دفتر، کاروبار یہاں تک کے حکومت کے معاملات بھی سنبھال رہی ہیں۔ کوئی بھی مشکل کام عورتیں بھی کررہی ہیں۔ انہیں اب بھی مردوں پر ایک حدتک فوقیت حاصل ہے، کہ مرد بچے جنم نہیں دے سکتے۔ اللہ نے یہ صلاحیت اسی کو سونپی ہے۔
میں یہی باتیں ایک دن بچیوں سے کہی، ان کاردعمل بظاہر حیران کن تھا، لیکن ان کا کہناتھا یہ چند عورتوں کا طرہ امتیاز ہے، اس سے اکثریت کی آزادی وابستہ نہیں، زیادہ ترکی زندگیاں دوسروں پرانحصار کئے ہوتی ہیں۔ پہلے باپ، بھائی،شادی کے بعد شوہراور بڑھاپے میں بیٹوں کے مرہون منت رہنا پڑتاہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس روز میں نے اپنی ساتھی ٹیچرزسےمردوں کےحقوق پر بحث کی، ان کا کہناتھا سب کچھ انہیں مل جاتاہے بلکہ وہ خود سے لے لیتے ہیں، انہیں کون روکتا ہے۔ میرے خیال میں مرووں کو عورتیں کئی معاملات میں پابند کردیتی ہیں،کئی بار خواہشات اور مطالبات کی دوڑ میں انہیں دباؤ میں لے آئی ہیں، وہ غلط راستو ں کاچناؤ کرلیتے ہیں پھرگھرسے بھی دور ہوجاتے ہیں۔ یہیں سے ان کی نئی دنیا کاسفر شروع ہوجاتاہے، عورت اور مرد کے رشتے میں دراڑیں بھی یہیں سے پڑنے لگتی ہیں۔ کئی بار ایسا بھی ہوجاتاہے کہ ان کے حقوق میں سے حصہ مانگنے لگتی ہیں۔ آزادی کی جنگ دونوں فریقوں کو کبھی کبھار مفلوج کردیتی ہے۔ خاندان کا توازن بگڑجاتا ہے۔
میری ایک ساتھی کاکہناتھا کہ عورت اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پرکڑھتی، روتی ،چلاتی ہے، مگر کہیں وہ مردکاحق ماررہی ہوتی ہے۔
میرا کہناتھا اس سب کے نتیجے میں دونوں کے درمیان سوچ کااختلاف بڑھتا جاتاہے، گھر کا ماحول بھی خراب ہوجاتا ہے۔ ہم لوگ عورتوں کے حقوق کی جنگ کبھی نہیں جیت سکتیں، کیونکہ ایک فرد کبھی کچھ نہیں کرسکتا، قانون بھی گھرسے باہر ہی رہ جاتے ہیں۔ حکومتوں کی کوششیں اسی وقت بارآور ہوپاتی ہیں جب کوئی زیادتی یا ظلم کامعاملہ قانون نافذ اور انصاف دینے والے اداروں کی حدود تک پہنچ جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اپنی ڈائری میں نہ جانے کیوں ایسے سوالات اور مسئلے ضبط تحریر میں لاتی ہوں ،جن کا کوئی جواب اگرمل بھی جائے مگر زمینی حقائق ساتھ نہیں دیتے، کبھی دل مطمئن ہوجاتا ہے لیکن زیادہ تر سوچیں چیزوں کا بگاڑ دیکھ کرزیادہ الجھ بھی جاتی ہیں اور ذھن دکھ کی وادی میں لے جاتا ہے۔
شاید عورت ازل سے ابد تک انہیں سوالوں کے جواب تلاش کرتی رہے گی اور اپنے حق کی جنگ لڑتے اپنی روح زخمی کرتی رہے گی، لیکن مردبھی اپنے حق میں شراکت داری کے خلاف تگ ودو میں یونہی جھوٹ اور بداعتمادی کے دریا میں ڈبکیاں لگاتے رہیں گے۔