محمدالیاس اردوکے صفِ اول کے افسانہ وناول نگارہیں۔ان کے افسانے اورکہانیاں عام انسان کی زندگی اورمسائل سے متعلق ہوتی ہیں۔ وہ ہراعتبارسے انسانی مساوات کے علم بردارہیں۔مردوعورت،امیرغریب،زبان،مذہب اور عقیدے کی بنیاد پرانسانوں کے درمیان فرق کے سخت خلاف ہیں۔یہی ان کے ناولوں اورافسانوں کابنیادی موضوع ہیں۔محمدالیاس اب تک چھ ناول”برف“،”کہر“، ”بارش“،”پروا“،”دھوپ“ اور”حبس“ تحریرکرچکے ہیں۔جبکہ ان کے گیارہ افسانوی مجموعے”لوحِ ازل پہ لکھی کہانیاں“،”مورپنکھ پہ لکھی آنکھیں“،”صدیوں پہ محیط اک سفر“،”منظر پسِ غبار“،”دوزخ میں ایک پہر“،”اندھیرنگری کے جگنو“،”آئینے میں گم عکس“،”گلیوں اوربازاروں میں“،”کٹریاں اورچوبارے“،”چڑیاں اداس ہیں“اور”سرخ گلاب“ شائع ہوچکے ہیں۔دوناولٹ پرمبنی ”عقوبت نفس“اورناولٹ ”رنگ ریز“بھی اشاعت پذیرہوئے۔عرفان جاویدنے محمدالیاس کی منتخب کہانیاں ”مورتیں“ کے نام سے شائع کی ہیں۔جبکہ صریر پبلشرز سے ان کی اپنی منتخب کردہ کہانیوں کامجموعہ”وارے کی عورت اوردوسری کہانیاں“ بھی شائع ہواہے۔نعیم اشرف نے محمدالیاس کی منتخب کہانیوں کاانگریزی ترجمہ کیا ہے۔
محمدالیاس کے بارہ افسانوں اورایک ناولٹ پرمبنی مجموعہ ”سرخ گلاب“سنگ میل نے شائع کیاہے۔انتہائی عمدہ کاغذپرشائع کتاب کی پرنٹنگ بھی بہت معیاری ہے۔بڑے سائزکے دوسوچوبیس صفحات کی کتاب کی قیمت نوسوروپے مناسب ہے۔حسب ِ روایت محمدالیاس نے سرخ گلاب کی ابتدا”ابتدامیرے اللہ کے نام سے جوبجاطور پرمتکبرہے مگراُس کی زمین پراَن کاکِیڑابھی گردن اَکڑائے پھرتاہے۔“ جب کہ کتاب کاانتساب بھی ایساہی معنی خیزہے۔”کچرے کے ڈھیروں سے کتے،بلیوں،چوہوں اورکیڑے مکوڑوں کی طرح پیٹ کی بھوک مٹاتی اولادِ آدم کے نام، جن کے حصے کارِزق اُن کے حکمران لُوٹ لے گئے۔“محمدالیاس کی تمام کتب کسی پیش لفظ،فلیپ اوررائے کے بغیر شائع ہوتی ہیں کہ’آپ اپناتعارف ہوابہارکی ہے‘۔”سرخ گلاب“ کے افسانوں اورناولٹ میں شگفتگی،موثراورقابلِ فہم طنزنے لطف دوبالاکردیاہے۔
”سرخ گلاب“ کاپہلاافسانہ”عینیت“ ہے۔یہ مختصرافسانہ ایک منفردموضوع پرانتہائی دلچسپ ماجراہے۔جس معاشرے میں بیٹیاں پیدا کرنے پرعورتوں کوکیاکچھ نہیں سہناپڑتا۔وہاں ایک عورت کاطرزعمل انوکھاہے۔پہلوٹھی کی بیٹی ہونے پربیٹے کی آرزوشدید ترہوجاتی ہے۔ خصوصاً ان فیملیزمیں جو بچے دوہی اچھے کے سنہری اصول پرکاربندرہتے ہیں۔لیکن افسوس دوسال بعدبھی بیٹی ہی پیداہوئی۔لوگوں نے آس دلائی کہ دوبیٹیوں کے بعدانشااللہ بیٹاہی پیداہوگا۔مگرخاتون نے معاملہ مقدرپرچھوڑنے کے بجائے عقل کی کسوٹی پرپرکھااورضبطِ تولیدکے جدیدسائنسی طریقے بروئے کارلائیں،جوموثرثابت ہوئے،مگربیٹے کی خواہش ماند نہ پڑی، تاہم جدید ترین سائنسی علاج کے بغیرمحض نصیب آزمانے کاحوصلہ نہ ہوا۔اندیشہ دامن گیررہاکہ موجودہ ازدواجی تعلق سے نرینہ اولاد کی تمناپوری کرتے کرتے بیٹیوں کی لائن لگ جائے گی۔عمرستائیس سال ہورہی ہے۔فیصلہ ابھی کرناہوگا۔میاں کوسامنے بٹھاکرخاتون نے کہاکہ”میڈیکل سائنس،توالد و تناسل، حتیٰ کہ جینڈرچوائس کی حدتک محیرالعقول ترقی کرچکی ہے۔ہمارے پاس اتنے مالی وسائل نہیں کہ ہم ان جدیدمعجزنماطبی تحقیق سے مستفید ہو کر ایک بیٹے کی حسرت پوری کریں۔جس مرد سے بیٹیاں پیداہوتی ہوں،اس سے بیٹے کی امیدسراسر حماقت ہے۔ہم دونوں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہی نہیں،باشعوراورمہذب بھی ہیں،لہٰذاہمیں یہی زیب دیتاہے کہ نہایت خوش اسلوبی سے الگ ہوجائیں۔میرے کزن، علی کے لیے جینڈرسلیکشن میتھڈسے ہنڈرڈپرسنٹ پازیٹورزلٹ حاصل کرنااس لیے مشکل نہیں کہ اس پراتناہی مالی بوجھ پڑے گا،جتناہم مہینے میں ایک بارپزامنگوالینے پرمحسوس کرتے ہیں۔وڈیولنک پرمیری علی سے دوٹوک بات ہوئی۔اس نے کہا: کزن!اٹس ویری ایزی۔نوپرابلم۔ یہاں اپنی مرضی سے لڑکی یالڑکاپیداکرناایساہی ہے،جیسے پاکستان میں بازارسے کوئی پرندہ خریدکرلے آئے۔آپ مجھے ڈیسنٹ انداز میں آزاد کر دیں،تاکہ خلع کے لیے قانونی چارہ جوئی کرنے کااذیت ناک مرحلہ نہ آئے۔“
کہانی میں ایک بہت پرانے سماجی مسئلے کواتنے انوکھے اندازمیں پیش کیاگیاہے،جوقاری کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا۔کسی پڑھی لکھی خاتون کی بھی ایسی جرأت معاشرے میں تصوربھی نہیں کی جاسکتی۔لیکن محمدالیاس نے تصویرکادوسرارخ بڑی ہنرمندی سے دکھایاہے۔
ہماری مسلمانی کہاں کہاں اورکس کس طرح آزمائی جاتی ہے۔یہ ماجرابڑے دلچسپ پیرائے اورانوکھے انداز میں ”نام کے مسلمان“ میں بیا ن کیاگیاہے۔اس افسانے میں میرٹ کاکس طرح خون ہوتاہے۔ایک قابل پروفیسرسیاسی اختلاف رائے پربرطرف کردیاجاتاہے جیسے مسائل کوبھی پیش کیاہے۔جیمس فریزرکاایک قول موجودہ حالات کے تناظرمیں بھی انتہائی معنی خیزہے۔”بدعنوان اورتیزدماغ حکمران،ایما ندار مگرکم عقل حکمران کے مقابلے میں عوام کوکم نقصان پہنچاتاہے۔“ بہرحال کسی بھی معاملے میں ذاتی نقطہ نظر رکھنے والے کی مسلمانی پرکیسے سوال اٹھتاہے،یہی افسانے کااصل موضوع ہے۔ ”امیرگل نے اب برسرِ مطلب بات کی۔کہنے لگا۔’صاحب! یہ اوپرتمہاراٹیرس کے پاس شہدکی مکھی نے بہت بڑاچھتالگادیا۔ایک دم زبردست شہدچھوٹی مکھی کا۔ہم کوہمارے پیرصاحب نے پاک کلام کااذن دے دیا۔بس وہ پڑھے گااورایک منٹ میں چھتانیچے۔آدھاشہدتمہارا،آدھاہمارا‘،’صوفی بھی بول پڑا۔سر! پچھلے سیزن بھی میں دیکھتارہا۔اس سے بڑا چھتا لگا لیکن آپ نے نہ اتروایااورمکھیاں ساراشہدکھاکراڑگئیں۔شہدمیں بڑی شفاہے سر!ٹی وی پرآپ نے مولاناکودیکھاہی ہوگا،جواسلامی شہدکے فائدے بتاتے ہیں۔‘امیرگل کونظراندازکرکے میں نے صوفی سے کہا۔’صوفی!میرے گھرمیں گذشتہ پندرہ سولہ برسوں سے مکھیاں چھتا بناتی آرہی ہیں۔تم پنجگانہ نمازاداکرتے ہواورصبح بلاناغہ تلاوتِ قرآن مجیدبھی کرتے ہو۔تمہارے دل میں رحم کااتنامادہ توہوچاہیے اور سمجھ بوجھ بھی کہ یہ معصوم مکھیاں میرے تیرے نہیں،اپنے اوراپنی اولادکے لیے شہدبناتی ہیں۔انسان کے لیے اورہزاروں نعمتیں ہیں۔ اشرف المخلوقات کے بھی کیاکہنے۔اس ننھی مخلوق کی اتنی محنت سے بنائی ہوئی غذاپرڈاکاڈالتے ہوئے ذراحیانہیں آتی۔اورہاں صوفی،یہ اسلامی شہدکیاہوا؟پھرتوہندو،سکھ اورعیسائی شہدبھی ہوگا۔‘کچھ دیربعدٹیرس پرآوازسنائی دی۔’خان یار! یہ بڑے لوگ نام کے ہی مسلمان ہو تے ہیں۔انڈیا میں جینی لوگ صرف سبزی اناج کھاتے تھے۔گوشت انڈہ بالکل نہیں اورشہد وغیرہ بھی۔امیرگل ترت بولا۔صوفی بھائی! پرو فیسراوریہ بندہ دونوں وہی جینی کافر ہیں۔ان کوگولی مارو۔یہ پڑھالکھاجاہل لوگ اتنابھی نہیں جانتاکہ اللہ کے حکم سے مکھی ہم مسلمان کے واسطے شہدبناتاہے۔“
مسلمان کی یہ انوکھی تعریف اورتعبیرمحمدالیاس ہی پیش کرسکتے ہیں۔افسانہ”کاٹھ کاالو“ میں ماں باپ کس طرح بیٹے کوپہلی بیوی سے برگشتہ کر تے ہیں کہ نوبت خلع تک آجاتی ہے۔اب وہ مصرہیں کہ بچے وہ خودپالے یانانا تیراسروکارنہیں۔تودوسری شادی کرکے گھربسا۔بیٹے کی یہ بات انہیں ناگوارگزرتی ہے کہ گیارہ بارہ گھنٹے کام کے بعدشکوے شکایات سننے کاحوصلہ نہیں۔آپ کی سنوں توبیوی ناراض،بیوی کی بات پر کان دھروں توناخلف اولاد کے طعنے سنوں،میں چھڑاہی بھلا۔ماں بتاتی ہے،بہت خوبصورت لڑکی تجھ سے پندرہ سال چھوٹی ہوگی۔اسکی شاد ی کے دعوت نامے تک چھپ گئے تھے مگررخصتی سے پہلے کسی بات پراختلاف ہوگیا۔رشتہ کیسے جڑتا؟اللہ نے وہ لڑکی ہمارے مقدرمیں لکھ رکھی تھی۔ماں باپ نے سوئی سے سلائی تک ایک ایک چیزبڑے شوق سے خریدی ہے۔کمرہ بھراپڑاہے جہیزسے۔شکرہے اللہ کا،میری عقل کام کرگئی اورتجھے فرنیچراورفرج ٹی وی وغیرہ خریدنے سے منع کردیا۔ڈبل سامان رکھنے کی گھرمیں جگہ ہی نہیں۔والدین بچوں کی زندگی کس طرح خراب کرتے ہیں اورمجبوروالدین کی مجبوری سے کیسے فائدہ اٹھایاجاتاہے۔یہ چشم کشااورعبرتناک کہانی ہے۔
ایمانداری سے سرکاری نوکری سے ریٹائرفردکی زندگی موقع پرست ملازمین سے کیسے مختلف ہوتی ہے۔اس کاذکر”درجہ سوم“ میں ہے۔”حق آشنا“ مذہب کے نام نہادنام لیوااورسرکاری فرائض میں غفلت نہ برتنے کالیکچردینے والوں کاطریقہ واردات کیاہوتاہے کہ ہلدی نہ پھٹکری اوررنگ چوکھاآئے۔یہ بھی مصنف کی بے مثال تحریرہے۔لیکن کتاب کاسب سے دلچسپ افسانہ”وصلت میں توقف“ ہے۔جوبچپن سے ایک دوسرے کے عشق میں گرفتارکزنزکی داستان ہے۔جوشیریں فرہاد اورلیلیٰ مجنوں سے زیادہ عشق میں ثابت قدم ہیں۔نوجوان کس طرح اپنی طلب کوپانے کے لیے دس سال دیارِغیرمیں انتہائی نامساعد حالات میں کام کرکے خالوکی شرائط پوری کرتاہے۔کہانی کادلچسپ ترین موڑاس کا اختتامیہ ہے۔جب اس سب کاتعلق کروناکی موجودہ صورتحال سے جڑجاتاہے۔دولہاطویل انتظارکے بعدوصل کے لیے بے قرار ہے کہ اچانک اسے چھینک آجاتی ہے۔دلہن فوراً دورہٹ کرکہتی ہے ہم نے جہاں اتناانتظارکیااورکرلیتے ہیں۔دولہامعمولی نزلہ کونظر اندازکرنے پراصرارکرتاہے کہ دلہن کوبھی چھینک آجاتی ہے اوروہ بخوشی ٹیسٹ کرانے تک انتظارپرراضی ہوجاتاہے۔کروناوباکس طرح ہماری روزمرہ زندگی پراثراندازہوئی ہے۔یہ کہانی اس کاعمدہ بیان ہے اورمحمدالیاس کے شگفتہ اسلوب نے اس میں چارچاندلگادیے ہیں۔
’صبرکی داد“ انتقام کی ایک انوکھی کہانی ہے۔”میٹروپولیٹن سٹی سے روزانہ ہزاروں ٹن کچراڈالنے کے لیے مناسب قطعہ اراضی حاصل کرنا حکومتی اہلکاروں کے لیے بڑامسئلہ تھا۔اس مقصدکی خاطرچندایکڑپرمحیط ایسی ناکار اوربنجرزمین درکارتھی،جوشہرسے باہراوردیہی آبادی سے دورلیکن پختہ سڑک سے اس تک رسائی آسان ہو۔ایسے میں عبدالخالق نامی شخص فرشتہ رحمت کی صورت سامنے آیا۔ اس نے ناقا بلِ کاشت رقبہ برائے فروخت پیش کیا،جوریتلے پتھروں اوربڑی چٹانوں پرمشتمل تھا۔عبدالخالق نے اپنی نوعیت کے اعتبارسے ناقابل فہم اوربظاہربے ضررشرط رکھی کہ صوبائی حکومت اس زمین کوصرف کچراڈالنے کے لیے ہی استعمال کرسکتی ہے اوراگراس نے اسے فروخت کرنا چاہاتو خریداری کاپہلاحق عبدالخالق کاہوگا۔ویسٹ مینجمنٹ کمپنی نے کام شروع کردیا اورکوڑاکچرایہاں پھینکاجانے لگا۔اس جگہ کامحل وقوع ایسا تھا کہ ہوااس پرسے گزرتے ہوئے بدبوکوایک کلومیٹردورسرداروں کی بستی میں پھیلادیتی۔موسم گرماکی برکھارُت نے بستی پرتباہی مچادی۔سرداروں کے لیے سانس لینادوبھرہوگیا۔کچراگاڑیاں روکنے پرپولیس نے نوجوانوں کے ساتھ بوڑھے سرداروں کوبھی تُوم ڈالا۔متاثرین کی کہیں شنوائی نہ ہوئی۔جوگی بھوم کی وہی زمین جس کاکوئی سوروپے فی کنال بھی خریدنے کوتیارنہ تھا۔اسے کس نے فروخت کیا۔آخر سراغ مل گیا کہ ڈی ایچ اے میں رہائش پذیرعبدالخالق نامی پراپرٹی ڈیلرنے اپنے اسسٹنٹ کمشنربیٹے کے مشورے پرگذشتہ برس غیرملکی ویسٹ مینجمنٹ کمپنی سے حکومتی معاہدہ ہوتے ہی دیہہ کارقبہ خریدلیانصف صدی پہلے دس سالہ عبدالخالق غریب بے سہارابیوہ ماں کے ساتھ اس شہرمیں آیاتھا۔اس نے میٹرک پاس کیا اورایک خداترس بزرگ حاجی سلیمان کی جائیدادکی دیکھ بھال کرنے لگا۔یوں تیس برس کی محنت کے بعدکامیاب پراپرٹی ڈیلربن گیا۔اولادکواعلی تعلیم دلائی۔بڑابیٹاوکیل بنا،منجھلے نے سی ایس ایس اوربیٹی نے ایم بی بی ایس کیا۔اسی سالہ بوڑھی والدہ کوبھرپورسکھ دیا۔نصف صدی قبل اس بزرگ خاتون کے کھیت مزدورشوہرکوسردارلہراسب خان نے احتجاج پرمارڈالااوربیوہ کو دھمکی دی قانون کاسہارالینے کے بجائے کہیں روپوش ہوجائے۔ورنہ کسی کواکلوتے بیٹے کابھی پتہ نہیں چلے گاکہ کب کس کھیت میں سطح زمین سے دس پندرہ فٹ نیچے دبادیاگیا۔“یہ بہت دلچسپ اورموثرکہانی ہے۔”نکوکار“ بھی ایک انتہائی دلچسپ اورمنفردموضوع پرتحریرکی گئی ہے۔جن سے محمدالیاس کے قلم کی وسعت بیان اورنئے موضوعات تراشنے کی اہلیت قارئین کے سامنے آتی ہے۔”اشفاق احمداورممتازحسین سالابہنوئی اورمثالی دوست ہیں۔ممتاز اپناگھرکرایے پرچڑھاکراشفاق کے گھرمنتقل ہوگئے۔اشفاق پینشن پرگزارہ کررہے ہیں۔دونوں نے اپنی بیویوں کوبیرون ملک اپنے بچو ں کے پاس بھیج دیاہے۔لیکن خاندان کے قریبی لوگوں کادونوں کااس طرح تنہارہناگوارانہیں اوروہ کسی طرح ان کی غلط حرکتوں کاثبوت حاصل کرناچاہتے ہیں تاکہ اسے بھیج کران کی بیویوں کوواپس بلوایاجاسکے۔اشفاق اورممتازاس سازش کاشکارہوتے ہیں یااسے ناکام بنا تے ہیں،یہ بہت دلچسپ داستان ہے۔
”مومن کی فراست“ایک طویل اورپراثرکہانی ہے۔جس میں افغان مہاجرین کی پاکستان آمدکے مضمرات،ان کے ملک میں شناختی کارڈ بنوانے اورجائیدادیں خریدنے،بچوں کوپولیوویکسین نہ دینے اورنوجوانوں کے نام نہادجہادکے پروپیگنڈے میں شکارہونے کے مسائل کو بہت خوبصورتی سے بیان کیاہے۔
ناولٹ ”رینی سرخا“کتاب کے اسی صفحات پرمحیط ہے۔اسی ناولٹ پرکتاب کانام ”سرخ گلاب“ رکھاگیاہے۔کہانی میں سیاست سے لے کرکرونادورتک کئی موضوعات کوبہت عمدگی سے پیش کیاہے،اوراس ناولٹ کے ذریعے محمدالیاس نے اردوادب کوریحان عرف رینی سرخا
عرف چیتھڑا کابے مثال اورجیتاجاگتاکرداردیاہے۔جو ہمیشہ زندہ رہے گا۔کہانی کاآغازفری لانس صحافی ظفریاب کی اس فکرسے ہوتی ہے کہ لا ک ڈاؤن کے دوران چیتھڑے کاکیابنے گا۔وہ غذاکیسے حاصل کرسکے گا۔کیونکہ لاک ڈاؤن میں ہاؤسنگ سوسائٹی میں اس کاداخلہ ممکن نہ رہے گا۔ چیتھڑے سے ظفرکی پہلی ملاقات انوکھی اورناقابلِ فراموش رہی تھی۔ایک روزظفرنے اتفاقاً اپنے کمرے سے نیچے کوڑے دان کی جانب نگاہ ڈالی توانسانی تذلیل کادل خراش منظردیکھا۔صبح کے اجالے میں صاف دکھائی دیاکہ میلے کچیلے لباس میں انتہائی سوکھاسڑابوڑھا پلاسٹک بیگ میں سے روٹیوں کے ٹکڑے نکال کرکھارہاہے۔بوڑھے نے سیرہوکرکھانے کے رخصت ہوگیا۔کچھ دن بعد ظفربوڑھے کے کھاکرروانہ ہونے سے پہلے اس کے پاس پہنچ گیااوردوستانہ اندازمیں اسے مخاطب کیا۔لیکن وہ جذبہ خیرسگالی کاجواب دینے کابھی روادارنہ ہوا۔ہمت ہارنے کے بجائے ظفرنے اپنانام بتاکرتعارف کرانے کوکہاتواس نے جواب دیا۔میراکوئی تعارف نہیں نہ کوئی ٹھورٹھکاناہے،نام چیتھڑاہے،کپڑے کاچیتھڑانہیں۔چیتھڑانماانسان یاانسانیت کاچیتھڑاسمجھ لو۔یہ اٹھایاہے کچرے پرسے،تناول ماحضر آپ فرمالیں۔تفتیش کرنے پرپتہ چلاکہ بے ضرربوڑھاریحان دوتین سال پہلے قتل کے الزام میں عمرقیدکاٹ کررہاہواہے۔وہ ایک قلعی گر محمد دین کا بیٹا،پوراپاگل اورکمیونسٹ دہریہ ہے۔کالج کے تھرڈایئرمیں ترقی پسندطلباتنظیم کاصدربن گیا۔بے حدجوشیلااورنڈر۔تقریروں میں شہرکی روایتی سیاسی شخصیت اوروفاقی وزیرکوہدف تنقیدبناتااورانہیں استحصالی قوتوں کامہرہ قراردیتا۔وزیرموصوف نے اپنے ایک قابل اعتماد ورکرکے کے بٹ کواس کے مقابل کھڑاکردیا۔ریحان کے ساتھ کئی بارتصادم ہواہرباریہی زیرِعتاب آیا۔تعلیم ادھوری رہ گئی کئی بارحوالات کی ہوابھی کھانی پڑی۔شادی اس لیے نہ کی کہ انقلاب برپاکرناتھا۔والدین کے انتقال کے بعدآبائی گھربیچ کرالیکٹرانک مارکیٹ میں دکا ن کھول لی۔جمعہ کی تعطیل کے دن دکان کاصفایاہوگیا۔قریبی تھانے میں رپورٹ کابھی کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ریحان نے پھرہمت کی ادھارپرسر ما یہ جمع کیااورہینڈی کرافٹ کی دکان خریدلی۔اسی مارکیٹ میں ایک کمرے کافلیٹ کرائے پرلے لیا۔قرض کی رقوم مرحلے وارواپسی مقدم رہی۔مسکین اورمعمولی شکل وصورت کی عورت مہینے میں دوبارفلیٹ پرآجاتی۔ایک رات دکان میں اچانک آگ بھڑک اٹھی،پٹھان چوکیدار اسے اطلاع کرنے کے بجائے فائربریگیڈکی طرف بھاگا۔ریحان نیچے آیاتوپولیس کے دوکانسٹبل اورتین شہری اوپرچلے گئے۔ ریحان کے فلیٹ میں برہنہ عورت قتل ہوئی پڑی ہے۔ریحان غریب عورت کے قتل کے جرم میں گرفتارکرلیاگیا۔عدالت میں وہ یہی کہتارہاہے ا س نے قتل نہیں کیالیکن اسے سزائے موت دی جائے اس لیے کہ رات کوپناہ میں آئی مظلوم عورت صرف اسے پھنسانے کے لیے ماری گئی۔کاش سنگ دل انسان صرف دکان جلادیتایامجھے ماردیتا۔کے کے علی اعلان کہتاپھرتاکہ دشمن کوجان سے مارنے کے بجائے زندہ رکھ کرذلیل کر نے سے انتقام کی آگ بجھتی ہے۔استغاثہ نے کیس اس طرح لڑاکہ عدالت نے سزائے موت کے بجائے عمرقیددی۔صحافی ہوتے ہوئے بھی ظفریاب یہ تفصیلات جان کربہت پریشان ہوا۔بوڑھے کامریڈکی داستانِ حیات اس کے ذہن پرمسلط ہوئی رہی۔تیسرے دن ایک مرغ خودبھونا اورچارروغنی نان لیے شولڈربیگ میں بوتل وغیرہ رکھ کربوڑھے کے ٹھکانے پرپہنچ گیا۔خودکوچیتھڑاکہنے والاظفرکودیکھ کراٹھ بیٹھا۔ظفریاب اورریحان کی گفتگوہی اس کہانی کاحاصل ہے۔جس کے ذریعے ریحان کامضبوط اوربھرپورکردارقاری کے سامنے آتاہے۔ وہ کہتاہے۔”تم سی آئی اے یاانٹیلی جنس کے بندے ہو،جسے میرے جیسے ناکارہ شخص کے پیچھے لگادیاگیا۔میرے اردگرددریاکنارے بلو ں میں رہنے والی اس انسان نمامخلوق کودیکھو! جوغلاظت سے لتھڑے کچرے سے رزق چنتے ہیں۔ایسی ذلتوں سے کمائی روزی سے جوچیز خرید کرلائیں،اس پرٹیکس اداکرتے ہیں۔ان ٹیکسوں سے حکمران کھربوں پتی بن گئے۔ان کے ادنیٰ کارندے،چمچے،چیلے،بچولیے،بھڑو ے،دلال، گماشتے،مالشیے،خایہ بوس،قلم فروش محرر،ضمیرفروش ڈھنڈورچی اوررکھیلیں بھی ارب پتی ہوگئے۔کہاں کہاں سے مال ِ مسروقہ بر آمد نہیں ہوا۔اداروں نے ان ثابت شدہ ڈاکوؤں کاکیابگاڑلیا؟ایک روپیہ وصول نہیں کرسکے۔ریاست کاحال اس بوڑھی نادار،لاوارث بیوہ کاساہوا۔میں ماضی کاقصہ ہوں۔المعروف رینی سرخا۔تمہارے بزرگوں نے یہ نام سناہوگا۔پاک صاف وطن میں کمیونسٹ کوسرخاکہتے ہیں۔ میں اس ملک کاآخری سرخاہوں۔باقی سارے سرخے،ڈاکوحکمرانوں کی خایہ بوسی کے منصب پرفائز ہوکراتراتے پھرتے ہیں۔ نظریے سے مخلص کمیونسٹ مایوس ہوکراپنی کھال میں سمٹ گئے،مگربدعنوان ڈاکوحکمرانوں کے حاشیہ بردار نہ بنے۔دین فروش ملاکی نسبت بد دیانت کمیونسٹ زیادہ قابلِ مذمت ہوتاہے۔بلکہ بددیانت کمیونسٹ ہوہی نہیں سکتا۔میں ہی آخری کمیونسٹ ہوں،آج مرایاکل۔“
ناولٹ کے بعض جملے قابلِ غورہیں۔
نحیف ونزاربیماربیوہ ریاست کی عصمت دری کئی دہائیوں سے ہوتی چلی آئی ہے لیکن اس مظلومہ کی شنوائی نہ ہوئی۔
خودکواللہ کانائب کہلانے پربضد انسان پھول سی بچیوں کے ریپ سے دریغ نہیں کرتا۔معصوم لڑکوں کے ساتھ جوظلم مدرسوں میں ہوتاہے اللہ کی پناہ۔روئے زمین پرکل مخلوق میں سے انسان ہی اس قبیح حرکت کامرتکب ہوتاہے۔
اشتراکیت میں عورت کی عزت وتکریم کاتصوربہت بلندہے۔اس سے بہت پہلے،اسلام میں عورت کوحقوق دیئے گئے۔
مذہبی پیشوانے مذہب کواستحصالی نظام ِ حکومت کوجوازمہیاکرنے اورتقویت پہنچانے کی غرض سے استعمال کیا۔
”سرخ گلاب“میں محمدالیاس کے دل کوچھولینے والے افسانے،کہانیاں اورناولٹ شامل ہیں اورکتاب کی تمام تحریریں اپنی موضوع کوعمدگی سے پیش کرتی ہیں۔بلاشبہ یہ اردوادب کاایک شاہکارمجموعہ ہے۔