گھر کیا ہوتا ہے کنبہ کسے کہتے ہیں ، بچے کیسے پالے جاتے ہیں کیسے وہ تابعدار، فرمانبردار اور محبت کرنے والے بنتے ہیں، ماں باپ کیسے رول ماڈل ہوتے ہیں خاندان کیسے بنتا ہے دل کیسے جڑتے ہیں تالیف قلب کیا ہوتی ہے، سب کو ساتھ لیکر کیسے چلا جاتا ہے، دلوں میں گھر کیسے کیا جاتا ہے، ایک آدمی صرف ایک آدمی، ایک منحنی سا آدمی کیسے ساری دنیا کو فتح کرلیتا ہے یہ سب کچھ دیکھنا ہو تو انوار احمد زئی صاحب کی زندگی کو دیکھئے ان کی شاندار زندگی کو دیکھیں اس کتاب کو پڑھیں کہ جس کا نام انوار احمد زئی ہے،
انوار احمد زئی چلے گئے سب کو چلے جانا ہے ازل سے یہ ہورہا ہے ابد تک یہی ہوگا، لیکن یہ کیا کہ رونے والے روئے چلے جارہے ہیں زخم ہے کہ بھرتا ہی نہی ہے دل ہے کہ سنبھلتا ہی نہی ہے۔ عزیز احمد زئی، صائمہ ارشد کو تو چھوڑیں کہ وہ بیٹا بیٹی ہیں، مسرور احمد زئی کو بھی جانے دیں کہ چھوٹے بھائی ہیں ان کو رونا چاہیے اور ان تینوں کو تو رونا ہی تھا ایسے باپ اور ایسے بھائی کے جانے پر رویا ہی جاتا ہے، لیکن یہ کیا کہ سارا حیدرآباد رورہا ہے جس سے زندگی میں کبھی انوار بھائی کا تعلق رہا وہ گلوگیر ہے،
جمعہ کو آرٹس کونسل کراچی میں انوار احمد زئی مرحوم کی کتاب بادل چزیرے کی تقریب رونمائی تھی جس طرح اپنی زندگی میں انوار بھائی لوگوں کو جمع کرکے رکھتے تھے آج بھی سب ان کے نام پر جمع تھے، بادل جزیرے خاکوں کا مجموعہ ہے اور کتاب کا پہلا خاکہ ہے جنت مکانی محترم حضرت غلام مصطفی خاں صاحب کا، انوار بھائی آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے بھی غلام تھے اور اپنی اس غلامی کی نسبت پر فخر کرتے تھے وہ اب جہاں ہیں وہاں بھی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں میں شامل ہوں گے( انشاءاللہ)، اس کتاب پر بولنے والے اور انوار بھائی کے لئے رونے والوں میں گلوگیر صائمہ ارشد، عزیز احمد زئی، مسرور احمد زئی، محمد احمد شاہ، رضوان صدیقی، مہتاب اکبر راشدی، محمود شام، شفیق الرحمن پراچہ، ڈاکٹر پیرزادہ قاسم رضا صدیقی شامل تھے، ان سب انوار احمد زئی صاحب کا تعلق دیرینہ تھا خصوصا رضوان صدیقی، مہتاب اکبر راشدی، اور شفیق الرحمن پراچہ صاحب زندگی بھر کے ساتھی تھے ان کی گواہی ایک پاکباز اور نیک انسان کے لئے تھی ۔
بادل جزیرے کتاب کیا ہے حرف حرف نگینہ ہے، سارا حیدرآباد اور اس کا بانکپن اس کتاب میں سمٹ آیا ہے، محترم غلام مصطفی خاں صاحب کے خاکہ سے شروع ہونے والی یہ کتاب کہ جس کا آخری خاکہ مرحومہ اہلیہ نسیم نکہت سیما کا ہے کہ جس کو لکھنے کے لئے انوار بھائی نے قلم کے بجائے انگلیاں فگار کی ہیں ۔ ان دو خاکوں کے درمیان اساتذہ کرام ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر فرمان فتحپوری، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی شاعر و ادباء میں محترم احمد ندیم قاسمی، اختر انصاری اکبرآبادی اور دیگر نابغہ کے خاکے موجود ہیں۔ دوستوں میں جوہر حسین، نایاب حسین اور ادریس بختیار کے خاکے موجود ہیں
انوار احمد زئی امیر آدمی نہی تھے کوئی سرمایہ دار، جاگیردار، زمیندار بھی نہی تھے، ہمیں امیر آدمی اور بڑے آدمی میں فرق کرنا پڑے گا انوار بھائی ایک بڑے آدمی تھے وہ بہت بڑے آدمی تھے وہ غنی آدمی تھے وہ سخی آدمی تھے ان کی زندگی برکت بھری زندگی تھی ان کی محفلیں برکت بھری ہوتی تھیں۔
میں شکرگزار ہوں جناب مسرور احمد زئی کا کہ جو اس کتاب کے مرتب اور بڑے صاحب فکر و فن ہیں میں امید کرتا ہوں کہ کہ خانوادہ انوار احمد زئی ان کی فکر کو عام کرنے میں اپنا کردار ادا کرتا رہے گا ۔