دو دن بعد آٹھ مارچ ہوگا یعنی عالمی یومِ خواتین۔ اس دن بہت سی عورتوں کی کہانیاں بیان کی جائیں گی۔ تو میں نے سوچا، کیوں نہ میں بھی ایک عورت کی کہانی آپ کو دکھادوں۔ یہ کہانی، اُن بہت سی کہانیوں میں سے ایک ہے، جو مجھ تک پہنچ رہی ہیں مگر شاید 8 مارچ کے نعروں کی گونج میں نہ سنائی دیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ دن پہلے، میں نے ایک ویڈیو رپورٹ، اپنی فیس بک وال پر شئیر کی تھی ۔
اس رپورٹ میں ایک تقریب کی تفصیل موجود تھی جو ساہیوال کے گائوں میں ہوئی تھی۔ یہاں ہم نے اطراف کے پانچ گائوں کی معذور اور ہنرمند عورتوں کے لیے، گھر بیٹھے روزگار کا بندوبست کرنے کی خاطر، سلائی مشینیں، ان سلا کپڑا، دھاگے اور دیگر سامان بانٹا تھا۔
میں تو تقریب کے بعد واپس چلا آیا تھا۔ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس تقریب کی خبر جب اطراف میں پھیلے گی تو کیسا بھونچال آجائے گا۔
ہوا یوں کہ جب سے سامان بٹنے کے بارے میں خبر گائوں گائوں پھیلی ہے، تب سے اس گھر پر، جہاں یہ تقریب ہوئی تھی، غریب اور معذور عورتوں کا تانتا بندھ گیا ہے جو مدد چاہتی ہیں۔
میری ٹیم کی ممبر آسیہ جو اس گھر میں رہتی ہیں، ان کے لیے مشکل پیدا ہوگئی ہے کہ اب روزانہ بہت دور دور سے، معذور عورتیں گھسٹتی، رگڑتی، لڑکھڑاتی ہوئی آرہی ہیں اور حقیقتاً ہاتھ جوڑ جوڑ کر، گڑاگڑا رہی ہیں کہ انہیں کام دیا جائے اور ان کی مدد کی جائے۔ آسیہ کے دروازے پر معذور عورتوں کی قطار بندھ گئی ہے جو وہاں امیدیں لگا کر آرہی ہیں۔ آسیہ کا کہنا ہے کہ مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ ہمارے گائوں میں، اور آس پاس بھی، اتنی ساری معذور عورتیں موجود ہیں اور ان کا اتنا برا حال ہے۔ اب آسیہ مجھ سے روز پوچھتی ہیں کہ سر میں کیا کروں۔ ان سب کو کام کیسے دوں؟۔
آسیہ نے چند دن پہلے، اپنے دروازے پر آنے والی ایک لڑکی کی ویڈیو بنا کر بھیجی تھیں۔ وہ میں آپ کو بھی یہاں دکھا رہا ہوں۔
میں نے اخفا کی وجہ سے لڑکی کا چہرا چھپا دیا ہے مگر آپ اس میں موجود کرب دیکھ سکتے ہیں اگر دیدہ عبرت نگاہ ہو۔ براہ کرم اس ویڈیو کو بہت غور سے سُنیں بھی۔ اگر والیوم اونچا کرلیں تو بہتر ہے تاکہ آپ کو وہ آنسو اور سسکیاں بھی صاف سنائی دیں، جو ویڈیو میں شناخت چھپانے والے دائرے کی وجہ سے نظر نہیں آرہے ہیں۔
یہ ویڈیو ایک چودہ سالہ معذور لڑکی کی ہے جو گائوں میں رہتی ہے۔ اس کی ماں زندہ نہیں ہے اور باپ مزدور ہے۔ لڑکی کی ریڑھ کی ہڈی کے مہرے خراب ہیں۔ کمر میں خرابی کی وجہ سے یہ سیدھی نہیں کھڑی ہوسکتی اور اس سے چلا بھی نہیں جاتا۔ اس کا باپ ساہیوال کے سرکاری ہسپتال سے علاج تو کروارہا ہے لیکن اب یہ لڑکی مایوس ہے کیونکہ اُسے ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ کسی اعصابی کمزوری کی وجہ سے اس کی ایک آنکھ بھی منجمد یعنی فریز ہے اور آہستہ حرکت کرتی ہے۔ اس آنکھ کو وہ دوپٹے کے کونے میں چھپا کر رکھتی ہے اور احساسِ کمتری کے باعث چہرا اوپر نہیں اٹھاتی۔ ادھر کمر میں درد کا یہ عالم ہے کہ لڑکی مسلسل روتی ہے اور کوئی سوال پوچھیں تو جواب میں صرف ٹوٹے پھوٹے لفظ اور سسکیاں ہی منہ سے نکلتے ہیں۔
جب کسی نے اُسے کہا کہ برابر والے گائوں میں کام مل رہا ہے اور مشین بھی دی جارہی ہے تو وہ اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ میلوں میل پیدل رگڑتی، کھسکتی، آسیہ کے دروازے پر صبح ہی صبح پہنچ گئی۔ آسیہ نے مجھے بتایا کہ جب دروازے پر دستک سُن کر میں نے کواڑ کھولا تو یہ نیم بے ہوشی کی حالت میں چوکھٹ پر گری ہوئی تھی۔اس کی چھوٹی بہن ساتھ کھڑی لرز رہی تھی اور بھوک اور پیاس سے دونوں بچیوں کی آواز تک نہیں نکل رہی تھی۔ مگر کچھ کہنے سے پہلے دونوں نے اپنے ہاتھ سر سے اوپر لاکر جوڑ لیے تھے اور زاروقطار رونے لگی تھیں۔
آسیہ نے مجھے بتایا کہ میں بہت مشکل سے اِسے اٹھا کر ، گھر کےاندر لائی اور صوفے پر بٹھایا۔ پھر پانی پلایا اور ناشتہ کرایا۔ مگر تب بھی وہ روتی رہی اور ہاتھ جوڑ کر مسلسل کہتی رہی کہ باجی میری مدد کرو۔ باجی مجھے کام دے دو۔ باجی اللہ کا واسطہ ہے۔
میں نے آسیہ کو بتایا ہوا ہے کہ جب بھی آپ سے کوئی عورت مدد کی درخواست کرے تو مجھے اس کی ویڈیو بنا کر دکھائیں تاکہ میں خود بھی دیکھ سکوں کہ معذوری اور مشکل کی کیا کیفیت ہے۔ لیکن یہ ویڈیو بنانا خود آسیہ کے لیے مشکل ہوگیا کیونکہ بچی بار بار رونے لگتی تھی اور اس کی حالت دیکھ کر خود آسیہ کی آنکھوں میں آنسو آرہے تھے۔ کئی بار بچی کو چارپائی پر بٹھایا گیا تاکہ وہ دستی سلائی مشین پر اپنی مہارت دکھا سکے اور کچھ سوالوں کے جواب دے مگر ہر بار وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگتی تھی اور کچھ نہ بول پاتی تھی۔ بہت مشکل سے یہ ویڈیو ریکارڈ ہوئی۔
اب میں سوچ رہا ہوں کہ کیا کروں؟
سلائی مشین اس بچی کو مل جائے گی۔ کپڑا بھی میسر ہوجائے گا اور دھاگے، بکرم، بٹن بھی۔
لیکن اس کی زندگی کیسے گزرے گی؟۔
لڑکی کا باپ مزدور ہے مگر گائوں میں مزدوری نہیں ہے، اس لیے گھر میں حقیقتاً فاقے پڑ رہے ہیں۔
دوسری بہن بھی معذور ہے۔
گھر میں بجلی نہیں، اس لیے سلائی صرف تب ہی ہوسکتی ہے جب سورج کی روشنی میسر ہو۔ گرمیوں میں تو دن لمبا ہوتا ہے۔ سردیوں میں کیا ہوگا جب سورج بھی دیر سے نکلتا ہے اور کئی مہینے دھند سے اندھیرا چھایا رہتا ہے۔ تب اسے ایک آنکھ سے کیا نظر آئے گا۔
لڑکی اس حال میں نہیں کہ سلائی کرسکے۔ اس کے لیے، چارپائی پر کئی گھنٹے تک مشین کے سامنے بیٹھنا، پھر ایک ہاتھ سے پہیہ چلانا اور دوسرے ہاتھ سے کپڑے کو سنبھالنا ممکن نہیں کیونکہ کمر کا درد اسے سیدھا بیٹھنے نہیں دیتا۔
اُسے زیادہ اچھی سلائی بھی نہیں آتی۔ آہستہ آہستہ مشین کا پہیہ گھما کر اس نے آسیہ کو دکھایا تھا کہ باجی مجھے سلائی آتی ہے اور قائل کرنے کی کوشش کی تھی مگر آسیہ نے دیکھ لیا تھا کہ اسے سلائی نہیں آتی ہے۔ چودہ سال کی معذور بچی کو کہاں سے سلائی آئے گی۔ جس کے گھر میں مشین نہیں۔ بجلی نہیں۔ ماں نہیں۔ کوئی تعلیم نہیں اور پیٹ بھر روٹی نہیں۔ اس کو نفیس ٹانکا کہاں سے لگانا آئے گا؟۔
شاید میں ضرورت سے زیادہ تفصیل میں چلا گیا ہوں۔ تحریر لمبی ہوگئی ہے۔
لیکن یہ تفصیل تو شاید درد کی اُس ٹیس کا ایک لمحہ بھی نہیں جو ریڑھ کی ہڈی کے ٹیڑھے مہرے میں دبی ہوئی رگ سے پھوٹتی ہے اور بے بس کردیتی ہے۔
درد کی اس ٹیس کی کہانی سننے کے لیے، کون سا عالمی دن ہوگا؟
مجھے پتا نہیں ۔۔۔
https://youtu.be/geOGny-gdk8
awamnama@gmail.com