سندھ میں تحریک انصاف کی جانب سے سینیٹ کے متبادل امیدواروں کے کاغذات واپس لینے کا جلد بازی کا فیصلہ مشکل ترین ، بلکہ سینیٹ کی نشستوں سے محرومی کا سبب بھی بن سکتا ہے ، کیونکہ تحریک انصاف کے دونوں امیدواروں کے خلاف اپیلوں کے مراحل باقی ہیں،مخالفت میں فیصلہ آنے کا فائدہ پیپلزپارٹی اور تحریک لبیک پاکستان کو ہوگاہے اورپیپلزپارٹی کی خاتون امیدوار کے خلاف بھی اپیلوں کے دو مراحل باقی ہیں ، فیصلہ خلاف آنے کی صورت میں اس فائدہ ایم کیوایم کو ہوگا، صورتحال دلچسپ شکل اختیار کرگئی ہے۔
سندھ سے سینیٹ کی تینوں کیٹگری کی نشستوں کے لئے تحریک انصاف کے 10 امیدواروں کے کاغذات منظور ہوئے ، جن میں سے 8 امیدواروں نے کاغذات واپس لے لئے ہیں اور اب جنرل نشست پر وفاقی وزیر فیصل واوڈا اور ٹیکنوکریٹ نشست پر سیف اللہ ابڑو امیدوار رہ گئے ہیں ۔فیصل واوڈا کے کاغذات نامزدگی کے خلاف ریٹر ننگ آفیسر اور الیکشن ٹربیونل میں اپیلیں مسترد ہوگئی ہیں اور اب جمعہ کو(آج)سندھ ہائی کورٹ میں اپیل لگی ہوئی ہے۔
سیف اللہ ابڑو کے خلاف ریٹرننگ آفیسر نے اپیل مسترد کردیں ، جبکہ الیکشن ٹربیونل نے اپیلیں منظور کرتے ہوئے سیف اللہ ابڑو کے کاغذات مسترد کردئے ،تاہم جمعرات کو سندھ ہائی کورٹ نے ٹربیونل کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کاغذات بحال کردئے ۔ اب سیف اللہ ابڑو کے خلاف اپیل کا ایک مرحلہ سپریم کورٹ باقی ہے اور مخالفین کا دعویٰ ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے رجوع کریں گے ۔ فیصل واوڈا کے خلاف اپیل کے دو مراحل سندھ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ باقی ہیں ۔ ایسے میں دونوں نشستوں کے متبادل امیدواروں کے کاغذات واپس لینا خطرناک ثابت ہوسکتا ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اپیلیں کسی مرحلے میں منظور ہوئی تو تحریک انصاف سندھ سے سینیٹ کی اپنے حصے کی دونوں نشستوں سے محروم ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف کے پاس 2 مارچ کو دوپہر 12 بجے تک متبادل امیدواروں کو رکھنےکا ٹائم تھا ،مگر اس کے باجود اپیلوں کے حتمی فیصلوں سے قبل ہی دیگر امیدواروں کو دستبردار کرنا سخت اور حیران کن فیصلہ اور غیر سنجیدہ ہے۔
خواتین کی نشست کے لئے پاکستان پیپلزپارٹی کی امیدوار پلوشہ محمد زئی خان کے کاغذات بھی سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کئے گئے اور اس کیس کی سماعت بھی جمعہ کو(آج)ہے۔ پلوشہ محمد خان زئی کے خلاف ریٹرننگ آفیسر اور الیکشن ٹربیونل اپیلں مسترد کرچکے ہیں۔موجودہ صورتحال میں تحریک انصاف کے امیدواروں میں سے کسی ایک یا دونوں کے کاغذات مسترد ہونے کی صورت میں اس کا فائدہ پیپلزپارٹی اور تحریک لبیک پاکستان اور پیپلزپارٹی کی پلوشہ محمد زئی خان کے کاغذات مسترد ہونے کا فائدہ ایم کیو ایم پاکستان کی خالدہ اطیب کو ہوگا۔
سندھ سے سینیٹ کے36 میں سے 19 امیدواروں نے کا غذات واپس لئے ، جبکہ صوبے کی 11 نشستوں کے لئے 17 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں ، جن میں پیپلزپارٹی کے 11، تحریک انصاف اور ایم کیوایم پاکستان کے دو دو اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس(جی ڈی اے) اورتحریک لبیک پاکستان کا ایک ایک امیدوار ہے، آخری روز 19 امیدواروں نے کاغذات واپس لئے جن میں سے تحریک انصاف کے 8، ایم کیو ایم کے 6، پیپلزپارٹی کے 3 ، جی ڈی اے اور آزاد ایک ایک امیدوا ر ہے۔پاکستان پیپلزپارٹی واحد جماعت ہے جس نے تمام نشستوں پر امیدوار کھڑے کئے ہیں۔
کاغذات واپس لینے والے تحریک انصاف 8 امیدواروں میں جنرل نشست کے امیدوار محمود مولوی، اشرف قریشی، ٹیکنو کریٹ نشست کے امیدوار ثمر علی خان، حنید لاکھانی، حسن بخشی اور خواتین نشست کی امیدوار فضہ ذیشان، سرینا عدنان اور ارم بٹ شامل ہیں۔ ایم کیوایم پاکستان کے 6 امیدواروں میں جنرل نشست کے امیدوار ڈاکٹر ظفر کمالی، خواجہ سہیل منصور ، عامر خان اور عبدالقادر خانزادہ ، خواتین کی نشست پر سبین غوری، اور ٹیکنو کریٹ کے امیدوار شہاب امام دستبردار ہوگئے ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے 3 امیدواروں میں خواتین کی نشست پر خیرالنساء اور فرزانہ حنیف اور ٹیکنوکریٹ پر شہادت اعوان شامل ہیں ۔ جنرل نشست پر گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے سردار عبدالرحیم اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار عمید علی جونیجو نے بھی کاغذات واپس لے لئے ہیں ۔
سندھ سے سینیٹ کی 7 جنرل نشستوں کے لئے 10 امیدوار میدان میں رہ گئے ہیں، جن میں پیپلزپارٹی کے 7 امیدوار صادق علی میمن، سلیم مانڈوی والا، شیری رحمان، دوست علی جیسر، جام مہتاب حسین، تاج حیدر اور شہادت اعوان ، تحریک انصاف کے فیصل واو ڈا ، گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس کے پیر صدرالدین شاہ راشدی اور ایم کیو ایم پاکستان کے سید فیصل علی سبزواری ہیں ۔
ٹیکنو کریٹ کی 2 نشستوں کے لئے 4 امیدوار میدان میں ہیں ،جن میں پیپلزپارٹی کے فاروق ایچ نائیک ، ڈاکٹر کریم احمد خواجہ ، تحریک انصاف کے سیف اللہ ابڑو اور تحریک لبیک پاکستان کے یشاء اللہ خان ہیں ۔ خواتین کی 2 نشستوں 3 امیدوار ہیں ،جن میں پیپلزپارٹی کی پلواشہ محمد زئی خان ، رخسانہ پروین اور ایم کیوایم پاکستان کی خالدہ اطیب شامل ہیں۔