سینٹ کے انتخابات یعنی 03 مارچ میں ابھی کچھ دن باقی ہیں مگر تھیلیوں سے بلیاں باہر آچکی ہیں پنجاب جو ملک کے بڑے بھائی کے طور پر نصف سے زائد آبادی کے مالک ہیں نے روایتی انداز میں مفادات اور مفاہمت کا معجزہ کر دکھایا جسے جمہوری حسن اور خوبصورت تعبیر کے بجائے پاکستان مسلم لیگ نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے مفاداتی سیاست کا کھیل کہہ سکتے ہیں۔ اسے کیا کہیے کہ آرزو مندی اور عوامی مفادات سے بالاتر سیاست کی ریت پر معاشرے پر غالب آجاتی ہیں عوامی مفادات مہنگائی کم کرنے،عوام کے لئے ستے انصاف کی فراہمی اور نوجوانوں و خواتین کے حقوق کے لئے تو نواز شریف اور جناب عمران خان کبھی اکھٹے نہیں ہوئے ہیں اگرچہ مفاہمت کی سیاست اور آئینی فریم ورک کے حدود کار میں ڈائیلاگ و مباحثے اس وقت اہم ترین ضرورت ہے حیرت ہے کہ گرے لسٹ کے اربوں روپے قرض و نقصانات،ریکوڈک کے معدنی و سونا چاندی کے ذخائر اور گوادر،سی پیک،کراچی کے مسائل پر غور وفکر کبھی مل کر نہیں دیکھا گیا سینٹ کے انتخابات سے عوام کی دادرسی اور عوام کے اعتماد و آرزو مندی کے لئے کچھ برآمد نہیں ہوسکتا ہے اس لئے عوام و خواص دونوں بشمول سوشل سیکٹر و خواتین اور طلباء وطالبات سمیت تمام طبقات یہ تصور حق بجانب ہیں کہ عوام کے دھوکوں اور غربت و سماجی شعور کی بیداری اور شعور نبوت ورسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی میں عوام الناس کی تقدیر کب بدل پائی گئی،، سینٹ انتخابات میں سب سے زیادہ محروم اور پسماندہ صوبہ بلوچستان سے وفاقی پارٹیاں نمایاں نمائندگی کی محتاج نہیں ہیں بلکہ پولیٹیکل سائنس و ٹیکنالوجی بیس ٹریڈ کے فروغ کے لئے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے جسے علمی و سائنسی بیانیے میں صوبائی پارٹیاں تبدیل نہیں کرسکتے ہیں پاکستان تحریک انصاف کے صوبائی سربراہ جناب سردار یار محمد رند صاحب سے ناراض ہیں کہ ممبر صوبائی اسمبلی و وزیراعظم کے مشیر ہونے کے باوجود انھیں جناب وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کا شرف حاصل نہیں ہوسکتا بالکل یہی گلہ و شکوہ جناب مولانا محمد خان شیرانی صاحب کا جناب نواز شریف صاحب سے بطور وزیر اعظم تھا سیاست دانوں اور منصب داروں کے گلے شکوے عوام کی تقریر بدلنے کے لئے کارمد نہیں ہوسکتےہیں سیاسی پختگی اور وسعت کے ساتھ فیصلہ سازی تک رسائی حاصل کرنے کے لئے عوام کی بڑی اکثریت کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے۔