مردان سے تعلق رکھنے والے عاطف خان کے بارے میں سب متفق ہیں کہ اگر پختونخوا میں کبھی صرف ایک شخص عمران خان کے ساتھ روز اول سے رہا اور مخلص رہا وہ عاطف خان ہی ہیں۔ تحریک انصاف کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی جماعت کے ورکرز کی بجائے فینز کا تصور اس جماعت نے دیا۔ تو گویا عاطف خان کا شماردراصل عمران خان کے ابتدائی فینز میں ہوتا ہے۔ وہ عشق کی حد تک عمران خان سے محبت کرتے ہیں اور بقول بابا بلھے شاہ،
میں رانجھا رانجھا کردی نی میں اپے رانجھا ہوئی۔
شاید اسی کیفیت کو نفسیات کی زبان میں Split Personality یاMultiple Personality Disorder کہا جاتا ہے یعنی ایک فرد کے اندر جب دو یا دو سے زیادہ شخصیات سما جاتی ہیں۔ عاطف خان کے حوالہ سے شاید ایسا نہ ہو لیکن ان کا ظاہرانداز، کلام، چال ڈھال اور بسااوقات رویہ دیکھ کر اکثر اوقات ان کے بارے میں یہ کہا جاتا رہا کہ وہ بالکل عمران خان کی اوریجنل کاپی ہیں اور اپنے لیڈر کو اس حد تک چاہنے میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن سیاست میں فینز کے تصور نے برداشت اور تنقید کا خاتمہ کر دیا ہے اور جذباتیت غالب ہو گئی ہے۔ روخان یوسفزئی صاحب کے بقول یہی کیفیت انگلستان میں لارڈ بائرن کے حوالہ سے تھی۔ انگلینڈ کے عوام اس حد تک ان کی محبت میں مبتلا تھے کہ لوگوں نے ان کے چہرے پر مسہ دیکھ کر اپنے چہروں پر مصنوعی مسے لگا دیے۔ عاطف خان کی عمران خان کے ساتھ یہی قربت تھی کہ گھاگ اور کئی گھاٹوں کا پانی پینے والے پرویز خٹک ان کے پیچھے ہی پڑ گئے۔ ان کی وزارت اعلیٰ کے راستے میں یہی جذباتیت اڑے اگئی۔ جب وہ اس حوالہ سے اپنے عزیز منسٹرشہرام خان کے ہمراہ اسلام آباد یاترہ پر تھے تو پشاور میں ہمارے کئی ساتھی یہ کہتے پائے گئے کہ “محمود خان تو گئیو!” لیکن اسلام آباد میں ہمیں صاف نظر آرہا تھا کہ مراد سعید، پرویز خٹک، اسد قیصر، اعظم خان سارے عمران خان کے کان میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ اسی لیے یہ دونوں لمبا راستہ اختیار کرکے فواد چودھری کی وساطت سے وزیراعظم سے بھی بڑے صاحب تک پہنچنے کی کوشش کرتے پائے گئے اور لینے کے دینے پڑ گئے۔ شاہرام خان چونکہ اس “رانجھے” والے مقام پر ابھی نہیں پہنچے اس لیے وہ کچھ عرصہ خاموشی سے گزارنے کے بعد دوبارہ پرانی تنخواہ پر بحال ہوئے۔ پھر کچھ سینیٹ الیکشن اور کچھ “پرانے واسطے” عمران خان نے گورنر ہاوس کے ذریعہ ان کو بلایا۔ اس سے قبل ہی وہ پرویز خٹک کو اعتماد میں لے چکے تھے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک نے تو کہہ دیا کہ ان کی عاطف خان کے ساتھ کوئی ذاتی پرخاش نہیں لیکن کل کو اگر صوبہ میں پھر کوئی مسئلہ اٹھتا ہے تو وہ ذمہ دار نہیں ہوگا۔ لیکن عمران خان کو یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ اس بار کوئی “ویسی” حرکت نہیں ہوگی۔ اسلام آباد میں دو اور مطالبات رکھے گئے ایک تو فیصل سلیم سے سینیٹ ٹکٹ کی واپسی کا تھا اور دوسرا وزارت سیاحت کا تھا۔ وزیر اعلیٰ محمود خان نے حال ہی میں خالی ہونے والی وزارت قانون دینے کی افر کی جسے عاطف خان نے ٹھکرا کر کہا کہ انہیں قانون کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو خود وزیر اعظم اب یہ کہہ سکتا ہے کہ چونکہ انہیں وزارت عظمیٰ کا پہلے تجربہ نہیں تھا اس لیے ملک کو ان مسائل کا سامنا ہے اگلی بار وہ تجربہ کار ہوگا۔
عاطف خان کے ساتھ اس ملاقات کے بعد وہاں موجود بڑھتے سایوں کا کہنا ہے کہ اس کے بعد بھی ملاقات ہوئی اور کہا گیا کہ عاطف اور شہرام کے گھرانے کو پہلے سے ہی زیادہ دیا گیا ہے اب بھی اگر وہ شکوہ کرتے ہیں تو اگے ان کو گلہ کرنے کا بھی موقعہ نہ دیا جائے۔ عمران خان سے کچھ بھی بعید نہیں اتنا اندازہ تو عاطف خان کو ہو جانا چاہئیے۔ ان کے لیے تحریک انصاف ان کی فین کلب ہے اور وہ بھی سٹار کی فین کلب جہاں کسی فین کے روٹھ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسے پتا ہے کہ۔ فینز کہیں نہیں جاتے۔
عاطف خان کی سیاحت میں بے پناہ دلچسپی کی وجہ بھی عمران خان ہی ہیں کیونکہ یہ وزیراعظم کا پسندیدہ شعبہ ہے اور اس پر ہر وقت ان کی نظر ہوتی ہے۔ پھر غالباً یہی ایک شعبہ رہ گیا ہے کہ جہاں کمائی کا کہا جارہا ہے وزیراعظم تو اسے پورے ملک کی کمائی کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور یہی سوچ کر وزیر اعلیٰ نے یہ قلمدان اپنے پاس رکھا۔ چونکہ خود ان کا تعلق سیاحتی وادی سے ہے اس لیے انہوں نے خود بھی اس میں سرمایہ کاری کی ہے۔ اب ایسے میں کیا وہ یہ وزارت عاطف خان کو دے پائیں گے؟ یہ ایک سوال ہے لیکن اتنا بھی اہم نہیں کیونکہ وزارت قانون تو وہ تحریک انصاف کے “میرٹ” پر اکبر ایوب کو دے چکے ہیں۔ محمود خان ایک سلجھے ہوئے انسان ہیں اس کا بھی کوئی درمیانہ راستہ نکال ہی دیں گے۔ لیکن سوال وہی ہوگا جو اسلام آباد میں اٹھایا گیا کہ کیا عاطف کی واپسی اسی حد تک ہوگی یا کہانی وہاں سے شروع ہوگی جہاں عاطف خان نے چھوڑی تھی۔ چونکہ عمران کی قیادت میں ہر کھلاڑی کے اندر کپتان چھپا ہوتا ہے اور ظاہری بات ہے کہ کپتان کو سلیکٹرز ہی لگاتے ہیں شاید ہمارے یہ قائدین یہ بات بھول جاتے ہیں۔
جاتے جاتے ایک بات کہ ہر حکمران کی طرح عمران خان کو بھی انگلیوں پر نچانے کا شوق لاحق ہے اس میں کوئی شک نہیں اور یہی طاقت کی پہچان ہوتی ہے۔لیکن کچھ لوگوں کو ویسے ہی ناچنے کا شوق ہوتا ہے جس کا عمران خان کی انگلی سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔