سینیٹ انتخابات نے مسلم لیگ ن کو ایک اور بحران کے دروازے پر لا کھڑا کیا ہے۔ پارٹی کے چیئرمین راجہ ظفر الحق صاحب کو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔ اس واقعے پر بڑے دلچسپ تبصرے سامنے آئے ہیں۔ اقتدار کی سیاست کی بڑے رازدانوں میں سے ایک جناب نواز رضا صاحب کا کہنا ہے کہ 12 اکتوبر 1999ء کو جب جنرل مشرف نے نواز حکومت کا خاتمہ کیا تو اس موقع پر راجہ صاحب بروئے کار نہ آتے تو پارٹی تنکوں کی طرح بکھر جاتی جب کہ سیاست کی ایک اور جہت کے شناسا اور مہربان برادر بزرگ بریگیڈیئر صولت رضا ریٹائرڈ کا کہنا ہے کہ بارہ اکتوبر کے مشکل مرحلے پر راجا صاحب کو وہی کرنا چاہیے تھا جو بقول ان کے میاں صاحب نے جونیجو صاحب کے ساتھ کیا تھا۔
میاں صاحب نے جونیجو صاحب کے ساتھ جو کیا تھا، اس کے پس پشت کچھ اور بھی عوامل کار فرما تھے، بریگیڈیئر صاحب راجا صاحب کے لیے راستہ تجویز کرتے ہوئے اگر ان عوامل کو بے نقاب کر دیتے تو اس سے معاملات مزید واضح ہو جاتے اور سمجھ میں آ جاتا کہ جب سیاست اور اہل سیاست پر مشکل وقت آتا ہے تو اس وقت کیا کیا عجوبے ظہور میں آتے ہیں۔
خیر، یہ ایک مختلف اور دلچسپ موضوع ہے، سر دست راجا صاحب کی ٹکٹ سے محرومی زیر بحث ہے۔ نواز رضا صاحب کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ مسلم لیگ کے لیے راجا صاحب کی خدمات بے شمار ہیں اور انھوں نے مشکل ترین وقت میں پارٹی کا شیرازہ بکھرنے سے بچایا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم لیگ جیسی کوئی سیاسی جماعت جب یک انار و صد بیمار جیسی کیفیت سے دوچار ہو جائے یعنی نشستیں کم اور قربانیاں دینے والے قائدین زیادہ ہوں تو ایسے موقع پر کیا کرنا چاہیے؟
اس مرحلے پر راجا صاحب کے مقابلے پر جن لوگوں کو ٹکٹ ملا ہے، ان میں مشاہد اللہ خان، پرویز رشید اور پروفیسر ساجد میر شامل ہیں۔ صورت حال کو سمجھنے کے لیے ان افراد کو دو گروپوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک گروپ میں مشاہد اللہ خان اور پرویز رشید شامل ہیں اور دوسرے میں ساجد میر صاحب۔ قربانی کے معاملے میں اول الذکر دونوں سینیٹروں پر کسی حلقے سے کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا، یہ دونوں شخصیات آزمائش کے وقت سرو قد کھڑی رہیں۔ دوسرے گروپ میں ساجد میر صاحب ہیں۔ قربانی اور ثابت قدمی کے معاملے میں وہ بھی ہر معیار پر پورے اترے ہیں لیکن ہمارے اندازے کے مطابق ایک پہلو بھی ایسا ہے جس کے باعث انھیں ٹکٹ کاحقدار سمجھا گیا ہوگا۔
اہل حدیث مکتبہ فکر گزشتہ کئی دہائیوں سے روایتی طور پر مسلم لیگ ن سے وابستہ رہا ہے لیکن 2018ء کے انتخابات میں حافظ سعید کے ذریعے مسلم لیگ کو طاقت فراہم کرنے والے اس حلقے کو تقسیم کر دیا گیا۔ اس مشکل مرحلے پر ساجد میر صاحب نے بڑی جرات کے ساتھ مسلم لیگ کاساتھ دیا۔ ساجد میر صاحب کی یہ خدمت کتنی اہم ہے، سیاست کے رمزشناس اسے سمجھ سکتے ہیں۔ اہل حدیث مکتبہ فکر کو پارٹی کے ساتھ جوڑے رکھنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ ان کی کسی قد آور شخصیت کو ایوان بالا میں نمائندگی ملتی۔ اس نمائندگی کے لیے ساجد میر صاحب سے زیادہ موزوں اور کون ہو سکتا تھا۔
مسلم لیگ ن نے ایوان بالا کے لیے اس مرتبہ اعظم نذیر تارڑ کو متعارف کرایا ہے۔ انھیں ٹیکنوکریٹ کی نشست پر ٹکٹ ملا ہے۔ اس نشست پر بھی راجا صاحب کو منتخب کرایا جا سکتا تھا لیکن ان کے بجائے اعظم صاحب کو فوقیت دی گئی ہے۔ اس کاسبب موجودہ دور میں پارٹی کو دستیاب ان کی قانونی خدمات ہوسکتی ہیں۔ ویسے سیاسی جماعتوں کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ نئے چہرے سامنے لائے جائیں، اس اعتبار سے اعظم صاحب اچھا انتخاب ہیں۔
یہ تمام دلائل اپنی جگہ اور راجا صاحب کی بزرگی اور خدمات اپنی جگہ۔ راجا صاحب کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا لیکن ایسی مشکل صورتحال میں بھی راجا صاحب ہی بروئے کار آسکتے تھے ہمارا اندازہ ہے کہ پارٹی نے یہی سوچتے ہوئے راجا صاحب کو اس بار ڈراپ کیا ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ پارٹی راجا صاحب کی اس قربانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کی عزت و توقیر میں مزید اضافے کا اہتمام کرے گی۔