ایمان کے ساٹھ یا ستر شعبے ہیں لیکن کیا یہ شعبے بے ترتیبی سے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہیں کیا ان کی حیثیت اس سودے کی ہے جسے خریدار بازار یا سپر مارکیٹ سے خرید کر اپنے جھولےو ٹرالی میں رکھ لیتا ہے جس طرح اسے سہولت ہوتی ہے؟نہیں ہرگز نہیں،یہ تمام شعبے مختلف قدر و قیمت کے حامل ہیں اور ہیئت اجتماعیہ یعنی تشکیل و تعمیر زندگی میں ان میں سے ہر ایک کا مخصوص مقام ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ایمان کے تمام شعبوں کا یہ شیرازہ اس نقشے کی مانند ہے جو کسی کمپنی یا ادارے میں کام کرنے والے نظام ترکیبی کے لئے بنایا جاتا ہے اس میں کچھ لوگ منتظم ہوتے ہیں تو کچھ اس کے نائب ،کام کرنے والوں کا عملہ ہوتا ہے تو ان کی نگرانی کرنے والے افراد کی ایک ٹولی ہوتی ہے اور ان سب لوگوں کے درمیان متعینہ روابط، ارسال و ترسیل ترغیب و استقبال ، احکام کے نفاذ اور ان کی نگرانی اور پیداوار میں اضافے کے لئے ایک طے شدہ نظم کام کرتا ہے یا پھر پھر ایمان کے ان شعبوں کی مثال، موٹر گاڑی کی ہیئت ترکیبی کی ہے جس کا ایک ڈھانچہ ہوتا ہے اس کے کل پرزے ہوتے ہیں ،آگےاور پیچھے حصے ہوتے ہیں قابو میں کرنے والے پرزے،روشنی کے آلات اور بیٹھنے کی کرسیاں وغیرہ ہوتی ہیں ان میں سے ہر ایک کی الگ اہمیت اور ڈیوٹی ہوتی ہے،
ثقافت اسلام کے آغاز سے ہی ایمان کے تمام شعبے کام کرتے رہے ہیں ارکان ہیں تو نوافل بھی ہیں، اصول ہیں تو فروع بھی ہیں اور روحانی وظائف ہیں تو جسمانی سرگرمیاں بھی ہیں،
بعض افراد کی یہاں جو صورت حال پیش آئی ہےکہ اسلام کا کوئی جزو دوسرے تمام اجزاء کو محیط ہو جاتا ہے تو اس کی مثال جسم کے اس ورم کی سی ہے جو بقیہ دوسرے اعضاء کو حرکت و عمل سے روک دیتا ہے جس کا انجام کھلے طور پر جسم کی ہلاکت ہے،،
آدمی کے اوپر ایک متعین فکر کا اس قدر غلبہ ہو جائے کہ اس کے قلب و ذہن میں دوسرے نکات، نظریہ یا مسالک کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہے یہ چیز بہت زیادہ
خوشگوار نہیں ہے ،،
ایک بزرگ نے جو اپنی پاکیزگی اور نیک نفسی میں مشہور ہے ان سے میری ملاقات ہوئی تو انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تم فلاں شیخ کے کرامات پر ایمان رکھتے ہو؟،،
میں نے جواب دیا کہ,, میں نے اس شخص کی سیرت نہیں پڑھی،انھوں نے کہا,,یہ کتاب حاضر ہے اس سے ان کی سیرت سمجھ میں آ جائے گی،پھر کچھ عرصے کے بعد مجھ سے ملے تو دریافت کیا کہ,,اب تمہاری کیا رائے ہے؟،میں نے معذورت کی کہ اس کا مطالعہ کرنا بھول گیا تھا-
انھوں نے حیرت سے کہا,,وہ کیسے؟
میں نے کہا,,یہ کوئی بہت اہم چیز نہیں ہے اگر موت آ جائے اور آپ کے اس بزرگ کے بارے میں مجھ کو کوئی واقفیت نہ ہو تو اللہ تعالیٰ مجھ سے ان کے بارے میں پوچھے گا نہ ان کی کرامتوں کے بارے میں، اس مرد بزرگ نے میرے خلاف یہ پروپیگنڈہ شروع کردیا کہ میں گمراہ ہوں اور کرامتوں پر یقین نہیں رکھتا، اسی طرح ایک دوسرے صاحب سے میری ملاقات ہوئی انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ موسیقی کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟
اگر موسیقی فوجیوں میں شجاعت اور قربانی کے جذبات ابھارنے کے لئے ہو تو کوئی ہرج نہیں اگر آدمی کے اندر نشاط اور لطافت ابھارنے کے لئے ہو تو یہ بھی جائز ہے لیکن اگر شہوانی جذبات کو بھڑکانے کے لئے استعمال کی جائے تو ہرگز درست نہیں ہے۔
میں نے جواب دیا۔ انھوں نے میرے بارے میں مشہور کردیا کہ میں اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال سمجھتا ہوں اور موسیقی سنتا ہوں۔
یہ دونوں ہی طرح کے افراد خیال کرتے ہیں کہ دین وہی کچھ ہے جو یہ سمجھتے ہیں چنانچہ اسی لحاظ سے افراد اور حالات کے بارے میں اپنا فتویٰ لگا دیتے ہیں۔
دین کے کسی پہلو پر پوری قوت صرف کرنے کی یہی بیماری ہے جس نے فقہاء کے اندر گہری سوچ اور مضبوط فکر کو تو ابھارا لیکن عبات گزاروں کے گداز دل نہ دے سکی- ارباب تصوف اور خانقاہ نشینوں کو عشق سے سوزاں احساسات و جذبات ملے لیکن فقہاء کی سمجھ بوجھ سے محروم رہے،
اور یہی راز ہے کہ محدثین نے احادیث تو حفظ کرلیں لیکن ان کی صحیح قدرو قیمت نہ کی اور ان سے بہتر استنباط نہ کرسکے،،
دوسری طرف اصحابِ الرائے تھے جنھوں نے مصلحت و مفاد وقت پر تو گہری نظر رکھی لیکن اپنے مسلک کی تائید میں کماحقہ نصوص سے استشہاد نہ کرسکے،،
اور اسی کا نتیجہ ہے کہ حکام داعیان سلطنت اپنے لگے بندھے فرائض کی انجام دہی کو کافی سمجھتے ہیں وہ اپنے آپ کو عوام الناس کا نگہبان کہتے ہیں،لیکن وہ اپنے آپ کو خوف خدا سے سر شار رکھیں انھیں اس کی چنداں پروا نہیں ہوتی ہے،،
دوسری طرف عوام الناس ہوتے ہیں جو انفرادی عبادات کی انجام دہی میں مگن ہوتے ہیں لیکن جب کوئی ایسا موقع آتا ہے جس میں ارباب حکومت کے تئیں نصحح وخیر خواہی کا فریضہ انجام دینا ہو یا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کا سوال ہو تو انھیں یکسر سانپ سونگھ جاتا ہے۔
اسی ناقص تصور کا یہ کارنامہ ہے کہ عوام دینی مراسم و عبادات کی انجام دہی میں پوری تندہی کا ثبوت دیتے ہیں اور اطاعت کی ظاہری شکلوں کو بجا لانے میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے لیکن اس کے باوجود ان کی حکمت سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں اور یہ چیز ان کی اخلاقی زندگی پر اپنا کوئی اثر نہیں دکھاتی_
تحریر محمد الغزالی۔ ترتیب، عبدالمتین اخوانزادہ