9 فروری 1983 کو طلبہ تنظیموں اور اسٹوڈنٹس یونین پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یہ دن ہر سال یو سیاہ کے طور پر منایا جاتا ہے لیکن مجلس فکر و دانش نے احتجاج کے اس دن کو مکالمے سے بدل دیا تاکہ اس اہم موضوع پر سنجیدہ گفتگو کی جاسکے۔ زیر نظر سطور میں اسی سیمینار کی رپورٹ پیش کی جا رہی ہے
09 فروری کا دن طلبہ یونین پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے طلبہ تنظیمیں یوم سیاہ کے طور پر مناتے ہیں یہ ضیائی آمریت کی برکات ہیں جس کے باعث آج کے والدین اور معاشرہ طلبہ یونین کے مثبت اثرات و نتائج سے آگاہ نہیں ہیں بلکہ طلبہ تنظیموں کے منفی اثرات اور پروپیگنڈہ سے واقف ہیں،مجلس فکر و دانش جو قومی سطح پر مکالمے و ڈائلاگ کا معتبر و توانا فورم ہے نے اس امر کا ادراک کرتے ہوئے کہ یوم سیاہ منانے کا دور گزر چکا ہے اس لئے 21 ویں صدی کے مزاج اور معیار کے مطابق طلبہ یونین اور طلبا ء تنظیموں کی مثبت اثرات و نتائج معاشرے کے سامنے پیش کرنے کے لئے مکالمے و جرگے کی راہ اختیار کی جائے یوں
مجلس فکر و دانش علمی و فکری مکالمے اور شھید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ کے زیر اہتمام آوازہ اسلام آباد کے اشتراک سے شھداء 08 اگست ڈیجیٹل لائبریری کویٹہ میں نیشنل ڈائلاگ و سیمنار کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارتی گفتگو کرتے ہوئے بلوچستان پیس فورم کے چیئرمین و بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی راہنما نواب زادہ حاجی لشکری رئیسانی نے کہا کہ آدھے سچ معاشرے ترقی نہیں کرتے پورا سچ یہ ہے کہ آئینی اختیارات کو بتدریج غصب کرنے اور معاشرتی ترقی کا راستہ روکنے والے قوتیں منہ زور ہوچکی ہیں اس لئے کتاب دوستی اور جمہوری و آئینی حقوق کے لئے بڑے پیمانے پر عوامی بیداری اور شعور کی ضرورت ہے
یہ بھی پڑھئے:
اسٹوڈنٹس یونین: ایک خواب جسے دیکھنے کی اجازت نہیں
شیخ مجیب کے چھ نکات: جو بات کہنے کی اجازت نہ ملی، وہی حقیقت بنی
تاکہ بروقت اور مفید ورکنگ ممکن ہو سکے آمریتوں نے ہمارے معاشرے میں نقب زنی کرکے طرزِ حکمرانی اور طرزِ تعمیر نو و تعمیر نسل نو کے لئے ذہنی و تہذیبی ارتقاء میں مشکلات کھڑے کرتے ہوئے سماجی انصاف و برابری اور مساوات و دانش مندی کے رحجانات کو محدود اور جامد کرکے معاشرے کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہیں اب مثبت و خیر خواہ قوتوں کی ذمےداری ہے کہ وہ حالات کا ادراک کرتے ہوئے سطحی مفادات اور پسماندہ افلاس سے نکل کر نئی جہتیں و صف بندی کے لئے شعوری ارتقاء و فکری و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعمیر نو میں کلیدی کردار ادا کریں ، بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ اور مڈل کلاس لیڈروں میں زمانہ طالب علمی سے بی ایس او اور بعد ازاں قومی و سیاسی زندگی میں سماجی انصاف و ترقی کے علمبردار ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ صاحب نے جوائن کرنے کی سعی کی مگر مکران ڈویژن اور گوادر کے ساحل سے خوبصورت نعروں اور وعدوں کے باوجود اب تک انٹرنیٹ کی سہولت اطمینان بخش نہیں ہے اس لئے جب کرونا وائرس کی ہولناکیوں میں مکران و رخشان ڈویژن کے جغرافیائی وسعت اور موسی خیل و توبہ کاکڑی کے طلباء وطالبات یا میختر و مری کاہان کی نوجوان وایلا کرتے ہیں تو اپنے ملک کے بڑے شہروں کے آسودہ حال طبقے نہیں سمجھتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے مرکزی سیکرٹری جنرل و سابق صدر سٹوڈنٹس یونین پنجاب یونیورسٹی جناب امیرالعظیم نے کہا کہ معاشرے جبر و زبردستی اور بناوٹ و آمریت سے نہیں چلتے اس وقت سخت ترین مہنگائی اور بدانتظامی کے باعث معاشرتی ترقی اور فکری قدریں زوال پزیر یورے ہیں جن میں سب سے زیادہ محروم اور پسماندہ طبقات میں طلبہ وطالبات اور نوجوانوں کے ساتھ خواتین اور عام آدمی مشکلات کا شکار ہے تعلیم و صحت کا مہنگا ترین ہو کر والدہ محترمہ بچوں و بچیوں کے لئے زیورات بیجنے اور والد محترم زمین و پراپرٹی بیجنے پر مجبور ہو گئے ہیں ان حالات میں سرکاری تعلیمی اداروں اور سیاسی ماحول کی اصلاح و دانش مندی کی علامت قرار دیتے ہوئے طلبہ یونین کی بحالی انتہائی ضروری ہے ورنہ بچہ جمہورا اور اشرافیہ سب کچھ نگلنے اور پسماندہ طبقات کو دیوار سے لگانے کے لئے آخری حد تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں اور یہ گھٹن وفکری افلاس بم دھماکہ کی طرح پھٹنے کی صورت میں تباہی و بربادی کا سامنا ہوا کرنا ہوگا ، اسلام آباد سے سنئیر دانش ور اور آوازہ ویب سائٹ کے سربراہ سابق مشیر صدر پاکستان فاروق عادل جن کے تحرک پر اس بحث کا آغاز ہوا اور اور ان کی خوبصورت گفتگو ایک بڑے قومی اخبار میں آوازہ کالم اور آوازہ ویب سائٹ میں شائع ہوئی ہے۔ انھوں نے کہا:
“بلوچستان کو پاکستان کا مستقبل سمجھا جاتا ہے، اس لیے میرا خیال تھا کہ عبد المتین اخونزاد ہ اس تاثر کی لاج رکھتے ہوئے بھی پرانی ازکار رفتہ باتوں سے صرف نظر کر کے کوئی ایسی بات کہیں گے جو اِن کی ترقی اور خوش حالی کا ذریعہ بنے گی، بیرونی ملکوں میں ان کے بچوں کے داخلوں کا راستہ کھولے گی اور کوئی دامن مراد ایسا بھرے گی جسے دیکھ کر نیب والے آہیں بھریں لیکن کچھ بگاڑ نہ پائیں۔ انھوں نے یہ سب نہیں کیا اور ایک ایسا خواب دیکھنا شروع کیا ہے جسے دیکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور جناب امیر العظیم جیسے سکہ بند طالب علم راہ نما اس حرکت پر انھیں سراہیں گے اور ان کی جرأت رندانہ پر انھیں سلام پیش کریں گے۔ یہ حضرات ایسا کریں تو یہ انھیں زیبا ہے کہ یہ لوگ اور ان کے بہت سے سینئر ناسٹلجیا کے اسیر ہیں اور اپنے ماضی کو یاد کر کر کے جیتے ہیں۔ ان لوگوں نے تو جو پانا تھا پا لیا جو لڑائیاں لڑنی تھیں، لڑ لیں یا لڑ رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اخونزادہ صاحب یا ان جیسے لوگوں کو اس سے کیا ملنا ہے جو وہ طلبہ یونین کی بحالی کے لیے یوں بے چین ہوئے جاتے ہیں؟ٍ سوال تو یہ بھی ہے کہ اس کوچے کی آبلہ پائی سے ہم قلم گھسیٹ لوگوں کو کیا مل گیا؟ کہا جاتا ہے کہ طلبہ یونین اس لیے ضروری ہیں کہ یہ قیادت کی نرسری ہے، انسان بات کرنے کا ڈھنگ سیکھ جاتا ہے، زمانے کو سمجھنا اور لوگوں کو پرکھنا آ جاتا ہے۔ اس کٹھالی سے تپ کر نکلنے والے کندن بن جاتے ہیں۔ عبد المالک بلوچ کی طرح وزیر اعلیٰ بن جائیں تو وہ کچھ ایسا کر گزرتے ہیں جوکوئی اور نہیں کرپاتا۔ روٹھے ہوئے مننے لگتے ہیں اور تپتا ہوا بولان گلزار بننے لگتا ہے۔جاوید ہاشمی جیسی قسمت پائیں تو باغی کہلاتے ہیں اور منور حسن بن جائیں تو درویش۔ ممکن ہے کہ یہ سب درست ہو، اس لیے میں ایسی بڑی بڑی باتیں سکہ بن طالب علم راہ نماؤں پر چھوڑتا ہوں اور اپنی بساط کے مطابق بات کرتا ہوں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب جاڑے گزر چکے تھے لیکن گرمی نے زور ابھی پکڑا نہیں تھا کہ فیصلہ ہوا کہ ہفتہ طلبہ منایا جائے۔ ہفتہ طلبہ کے ذکر سے دل میں لڈو پھوٹے اور کانوں میں کھنگرو کی چنچل آواز نے رس گھولے۔ اس سے پہلے کہ خوابوں کا یہ سلسلہ دراز ہوتا، استاد مکرم پروفیسر ارشاد حسین نقوی کہنے لگے کہ چلو انعامات کا کچھ طے کرتے ہیں۔ یہ زمانہ تو جانے کس مٹی کا بنا ہوا ہے، اُس زمانے میں کالج جانے سے پہلے کالج کی کشش انسان کو مقناطیس کی طرح کھینچتی تھی۔ عزیز و اقارب اور دوست رشتے داروں کے گھروں میں ٹرافیاں اور سرٹیفکیٹ دیکھنے کو ملتے تو بتایا جاتا کہ ان کے فلاں بیٹے نے اسے فلاں کارنامے پر جیتا ہے۔ایسی باتیں سن کر جی چاہتا کہ وقت کو مختصر کر کے بندہ کالج پہنچ جائے اور ٹرافیاں جیتنے لگے۔ بس، یہی کچھ اس وقت بھی یہی ذہن میں تھا، لہٰذا نوعمری کی بے پروائی اور لا تعلقی کی شان سے کہہ دیا کہ سر!چند ٹرافیاں اور کچھ شیلڈزاور کیا؟ شفیق استاد یہ سن کر مسکرائے اور کہا کہ یہ سب بھی ہو گا لیکن اس کے علاوہ بھی کچھ چاہئے۔ ’وہ کیا سر؟‘۔’ہ بھی بتاتے ہیں، تم چلو تو سہی‘انھوں نے کہا۔ یوں ہم ان کے ساتھ چل دیے۔ اس سفر کی تان اردو بازار پہنچ کر ٹوٹی۔ یوں معلوم ہوا کہ نصاب کی کتابوں کے علاوہ بھی کتابوں کی ایک دنیا ہوتی ہے۔ بہت سی کتابوں کے نام تو استاد مکرم کو ازبر تھے، انھیں نکلوایا اور ایک طرف رکھ دیا۔ نئی آنے والی کتابوں کی ورق گردانی کرتے اور جلد جلد انھیں خریدنے یا مسترد کرنے کا فیصلہ کرتے جاتے۔ مجھے بالکل کل کی طرح یاد ہے کہ اُس روز بہت سے نئے نام میرے علم میں آئے اور پھر یاداشت کا مستقل حصہ بن گئے۔ مثلاً مختار مسعود، اشفاق احمد، ممتاز مفتی، انتظار حسین، مسعود مفتی، ہاجرہ مسرور، ان کے علاوہ اور بہت سے دوسرے۔ استاد محترم کاکسی مصنف کو متعارف کرانے کا انداز بھی خوب تھا۔ اگرچہ اس واقعے کو زمانے بیت چکے ہیں لیکن اُس کتاب کا سرورق، اُس کی ہری پیلی رنگت اور وسط سے اسودی۔ دکان دار نے شیلف سے نکال کر یہ کتاب اُن کے ہاتھ میں دی تو ان کے چہرے پر چمک آگئی اور اُسے جھنڈے کی طرح لہراتے ہوئے مجھے مخاطب کیا اور کہا کہ یہ کتاب تم نے نہ پڑھی تو کچھ نہ پڑھا۔ یہ ممتاز مفتی کی ’لبیک‘ تھی پھر کہا کہ کچھ لوگوں کے نزدیک اسے سی آئی اے نے لکھوایاہے اور کچھ کے نزدیک اس کا مصنف گمراہی کی کسی عالم گیر تحریک کا گماشتہ ہے لیکن تم ایسا کرو کہ ان سب باتوں کی طرف سے کان بند کر کے اِسے پڑھو پھر خود ہی فیصلہ کرنا یہ کتاب کسی سازش کا نتیجہ ہے یا شرارت کا۔
وہ دن بھی کیا کمال کا دن تھا، ایک تو اُس روز استاد گرامی سے ایک نئے تعلق کی ابتدا ہوئی اور دوسرے کتاب زندگی کا حصہ بن گئی۔ صرف حصہ نہیں بنی بلکہ مطالعے کا گر بھی سمجھ میں آیا کہ کسی کتاب، کسی مصنف یا کسی بھی فرد یا معاملے کو قبول یا مسترد اس لیے نہیں کر دینا کہ ابا، امی اور کسی دوست یا استاد نے ایسا کیا ہے بلکہ یہ فیصلہ خود کرنا ہے اور کتاب کے صفحے پر صرف روشنائی سے چھپے ہوئے حروف کو پڑھ کر فیصلہ نہیں کرنا بلکہ دو سطروں کے درمیان وہ جو سفید جگہ ہوتی ہے جس میں بظاہر کچھ لکھا نہیں ہوتا، اسے پڑھنا ہے، اگر اس اَن لکھی تحریر کو پڑھنے کا ہنر آ گیا تو سمجھو دنیا کو جاننے کا سلیقہ بھی آگیا۔ یوں ہم نے جانا کہ ایک تحریر سطور میں ہوتی ہے اور ایک بین السطور۔ بس، اسی قسم کی تحریروں کو پڑھتے پڑھتے لکھنا بھی آ گیا، گویا سر پر کوئی کلغی سج گئی۔ تو خواتین و حضرات، ہم لکھنے والوں کے سروں پر کلغی بھی سجی ہوئی ہے اور یہاں،وہاں کچھ لوگ جانتے بھی ہیں لیکن حقیقت میں ہم ہیں کیا؟ ایک روز اس کا اندازہ بڑے ہول ناک طریقے سے ہوا۔
کچھ برس ہوتے ہیں، شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی نے کہ یہ میری مادر علمی بھی ہے، کہا کہ تم نے جو اتنے برس سے دشت صحافت کی خاک چھانی ہے تو ایسا کرو کہ جو کچھ اِدھر اُدھر سے سیکھا ہے، یہاں آکر بچوں کو بھی بتا جایا کرو۔ شعبے میں اُن دنوں ایک اینکر بھی ڈگری کے حصول کے لیے آتے تھے۔ ان صاحب سے ہماری کچھ یاد اللہ تھی۔ ایک روز پوچھنے لگے کہ سر! آپ ان دنوں کرتے کیا ہیں، عرض کیا کہ کالم لکھتا ہوں، مسکرائے اور کہا کہ وہ تو لکھتے ہی ہوں گے لیکن کرتے کیا ہیں؟
تو بات یہ ہے کہ اسٹوڈنٹس یونین نے کچھ لوگوں کو لیڈر بنایا، ہم جیسوں کے ہاتھ میں قلم دیا،شعر و نغمہ کا شعور دیااور تہذیب و ثقافت کی اہمیت بتائی، کچھ لوگوں کو کوئی اور ہنر بھی سکھایا ہو گا مگر سوال پھر وہی ہے، اینکر صاحب والا کہ یہ بھی کوئی کرنے کے کام ہیں؟ اس لیے طلبہ یونین کی بحالی وغیرہ کی باتیں چھوڑئیے ایسی بات کیجئے جس میں چار پیسے کا کوئی فایدہ ہو۔ ویسے بھی اس دیس میں اسٹوڈنٹس یونین راس کسے آتی ہے کہ اس کی بحالی کے خواب دیکھے جائیں اور پھر وہ خواب حقیقت بھی بن جائیں۔اس لیے یہ چمن یوں ہی کانٹوں سے الجھتا رہے گااور ہم سب اپنی اپنی بولیاں بولی کے اڑ جائیں گے”۔
سابق وفاقی وزیر و سماجی شخصیت روشن خورشید بروچہ صاحبہ نے بھرپور و جاندار گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب معاشرہ طلبہ و طالبات کو آئینی و دستوری اداروں کی اجازت نہیں دیتا ہے تو خرابیاں پیدا ہونا یقینی ہیں اس لئے جمہوری پارٹیوں اور سول و ملٹری اسٹبلشمنٹ کو فی الفور یونین کے انتخابات کے لئے راستہ ہموار کرنا چاہیے ،کراچی سے وزیر اعظم کے سابق مشیر و ماہر تعلیم زاہد جان مندوخیل نے کہا کہ تعلیمی اداروں میں آئینی حقوق کی فراہمی وقت اور حالات کی ضرورت بن چکی ہے پرائیویٹ سیکٹر میں تعلیمی اداروں کو اس پر پیش رفت کرنا چاہیے،چیئرمین شھید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ پروفیسر ڈاکٹر لعل خان کاکڑ نے کہا کہ معاشرے کو سنوارنے اور نکھارنے کے لئے ضروری ہے کہ ریاست و سوسائٹی دونوں اپنے فرائض و اختیارات کے ادراک و استعمال پر 21 ویں صدی کے حالات اور سماجی ترقی و خوشحالی کے پیشِ نظر قوانین مرتب کرنے پر آمادہ ہو جائے شھید باز محمد کاکڑ فاؤنڈیشن رجسٹرڈ سانحہ 08 اگست 2016 کے لئے انصاف و عوامی احتساب کا مطالبہ کرتی ہیں مجلس فکر و دانش کے سربراہ عبدالمتین اخونزادہ نے کہا کہ قومی مکالمے و جرگے کے ذریعے نوجوانوں اور خواتین سمیت مظلوم انسانوں کے حقوق و ترجیحات پر مسلسل ورکنگ اور غور وفکر کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور ممکنات کے سارے محاذوں پر خدمات کی افادیت برقرار و مستحکم اثرات مرتب نہیں کرتے مجلس فکر و دانش نئے عمرانی و سماجی شعور اور فکری و سائنسی بیانیے کی تشکیل و تعمیر نو کے لئے کوشاں ہیں،ایڈیشنل سیکرٹری حکومت بلوچستان محمد فاروق کاکڑ نے کہا کہ طلبہ یونین آئینی اختیار ہے طلبہ وطالبات اور پورے سوسائٹی کا مشکل گھڑی معاشرے میں حقوق و فرائض کی ترجیحات میں ناقض تصورات کا ہیں اس لئے اس اہم ترین مقدمے کو ری ڈیزائننگ کی ضرورت ہے تاکہ مفید اور تعمیری مباحث کے نتیجے میں روایتی تصور اور بگڑے ہوئے مسائل حیات سے نجات حاصل ہوسکیں، نیشنل پارٹی کے صوبائی ترجمان علی احمد لانگو نے کہا کہ طلبہ معاشرے کی ترقی و خوشحالی میں اضافے کے باعث بن سکتے ہیں اگر سیاسی جماعتوں و تحریکوں میں سرگرم حصہ لینے کے ساتھ انھیں تعلیمی و تربیتی ماحول بھی فراہم کیا جائے،
بلوچستان یونیورسٹی کے جینڈر اسٹڈیز کے فوکل پرسن پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ حبیب علیزئی اور،پروفیسر ڈاکٹر ندیم ملک نے کہا کہ طلبہ وطالبات کی آراء و تجاویز کی روشنی میں معاشرتی ترقی اور سائنسی و تعلیمی سرگرمیوں کے لئے یونین کی بحالی اور آئینی حقوق کی فراہمی لازمی امر بن چکا ہے ورنہ تعلیمی اداروں میں حبث و گھٹن اور تعلیمی و سماجی گھٹن محسوس کرتے ہوئے معاشرے خرابیاں ہضم کرنے اور نئے نسلوں کی راہنمائی و تربیت کے مواقع کھو دیں گے، ممتاز ادیب و مصنف عبدالقیوم بیدار نے کہا کہ جمہوری معاشروں کے قیام کے لئے سیاستدانوں اور پارٹیوں کی اصلاح و دانش مندی میں اضافے کی ضرورت ہے، بلوچستان رورل سپورٹ پروگرام کے یوتھ افیزز کے فوکل پرسن غلام محمد محمدی نے کہا کہ بی آر ایس پی نوجوانوں اور طلباء وطالبات کے لئے ہمہ پہلو اور جامع ترقیاتی اپروچ اور حکمت عملی پر عمل درآمد کررہی ہیں
بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل منیر جالب بلوچ، جماعت اسلامی یوتھ ونگ کے صدر نورالدین غلزئی پی ایس ایف کے رہنما عالمگیر مندوخیل، بلوچستان عوامی سٹوڈنٹس کے راہنما فرید بگٹی،پرائیوٹ اسکولز کے صدر ملک عبدالرشید کاکڑ
حکمت اللہ اور دیگر مقررین نے مقالات جات، آن لائن اور مکالمے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جمہوری معاشروں میں رائے عامہ ہموار کرنے کے لئے طلبہ وطالبات اور نوجوانوں و خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے آئینی حقوق کی بحالی لازمی امر ہے ورنہ جمہوری تماشا سے معاشرے صرف اشرافیہ کے ڈرائنگ رومز کی خدمت کرتے ہوئے گھٹن محسوس کرتے ہوئے بلاآخر بم کی طرح پھٹنے کے لئے لاوا اگلنا شروع ہوا ہے اس لئے حکمرانی کی طرز اور نئے علمی و فکری مکالمے پر ورکنگ کی اشد ضرورت ہے طلبہ وطالبات کی ضروریات پوری کرنے اور آواز و دانش کو مثبت رخ دینے کے لئے سٹوڈنٹس یونین کے میکنزم 21 ویں صدی کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دینے کی ضرورت ہے غربت و آمریت نے ملکر سماجی انصاف و ترقی کو بریک لگایا ہے جس کے باعث جمہوری نشوونما اور ارتقاء نہیں ہوپاتا ہیں انقلابات اور تبدیلیاں رونما ہوتے رہتے ہیں مگر بدقسمتی سے ہم نے سطحی مفادات کی خاطر اپنے معاشرے کو بانجھ پن میں تبدیل کردیا گیا ہے اب علمی و فکری مکالموں اور ادبی و ثقافتی اہمیت کے حامل کوششوں سے اس خلاء کو پر کرنے کی ضرورت ہے ورنہ تبدیلی اور اصلاح معاشرہ کی تمام اجزاء و کوششیں ناپائیدار متصور ہوگے ڈائیلاگ و سیمنار میں مشترکہ قرارداد کے ذریعے کہا گیا کہ ان تینوں علمی و فکری اداروں نے سوسائٹی کے اندر اعتماد و اعتبار پیدا کرنے اور سیاسی جماعتوں و طلبہ وطالبات کی بڑی فوج کو جگانے کے ساتھ حکومتوں اور تعلیمی اداروں کے انتظامی سربراہان کو متوجہ کرنے کے لئے اس ڈائلاگ و سیمنار کا انعقاد کیا گیا ہے اور ہم میڈیا و وکلاء سمیت دیگر متعلقہ حساس اداروں و اہل دانش سے کہا گیا کہ وہ طلبہ سیاست اور عملی زندگی میں کارآمد شہریوں کی لشکر تشکیل و تعمیر نو کے لئے اپنے جمہوری و آئینی حقوق پر سمجھوتے نہ کریں بلکہ آئینی حقوق اور جمہوری آزادیوں کے لئے ملکر کام کریں ورنہ بچہ جمہورا اور اشرافیہ کے ھاتھوں معاشرے کی ترقی اور خوشحالی ناپید ہونے اور آزادیاں خطرے سے دوچار رہیں گے قراداد میں کہا گیا کہ 09 فروری کو طلبہ یونین کی پابندی کو آمرانہ یوم سیاہ منانے کے بجائے تعمیری اور مثبت اثرات مرتب کرنے کے ساتھ طلبہ تنظیموں کی 21 ویں صدی کے ضروریات اور سائنسی و تعلیمی تشکیل و تعمیر نو کے لئے توانائی و دانش مندی کی علامت کے طور پر منایا جائے،