مجھے درست یا نا درست یہ لگتا ہے کہ اجمل خٹک سیاست دان، شاعر یا ادیب بعد میں تھے پہلے ایک صوفی تھے۔ مجھ سے پہلے بھی کسی نے انہیں “مارکسی صوفی” کہہ رکھا ہے۔صاحب ! اب جو میں بھی انہیں صوفی کہہ رہا ہوں تو ساتھ وضاحت بھی کیے دیتا ہوں کہ اس سے میری مراد ہے:”قوم پرست مارکسی صوفی”۔ اب آپ کہیں گے کہ یہ کیا مرکب ہوا کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا۔ انتہائی ناہموار لفظی ترکیب ۔ درست، مگر اس کا کیا کریں کہ اجمل خٹک کی شخصیت تھی ہی ناہموار ۔ اپنی فکر میں پکے مارکسی، اپنی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے قوم پرست اور جس طرح ساری آلاشیں جھاڑ کر زندگی کی چادر کاندھے پر رکھ کر چلتے بنے تو یہ ادا ایک صوفی کی نہیں تو کس کی ہے۔آفتاب اقبال شمیم کی ایک غزل کا مطلع یاد آتا ہے:
اک چادر بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں
اور دولت دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں
اپنی ہی پاپوش میں اپنے پاؤں رکھنے والے اجمل خٹک سے میری ایک ہی ملاقات رہی ہے اور وہ بھی ایسی نہیں کہ اُس میں اُن سے میرا کوئی مکالمہ ہوا ہو۔ تب وہ نیشنل عوامی پارٹی کے سیکرٹری تھے اور کارکنوں کے درمیان گھرے ہوئے۔ بس مجھے اتنا یاد رہا ہے کہ اُن کے دونوں کاندھوں پر ایک چادر تھی جس کا ایک پلو انہوں نے بائیں کاندھے کے اوپر سے گزار کر پشت پر ڈال رکھا تھا۔ سر پر وہی سواتی پٹی کی ٹوپی تھی جس کے نچلے گھیردار پلے کو بل دے کراوپر والی مدور پٹی تک اٹھالیا جاتا ہے۔ٹوپی سفید رہی ہو گی مگر تب وہ قدرے مٹیالی تھی۔ بالشت میں پوری طرح نہ آنے والی داڑھی بھی کب کی سفیدہوگئی تھی مگر پوری طرح سیاہ بال غائب نہ ہوئے تھے۔یہ ملاقات ختم ہو گئی۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ملاقات تو شروع ہونے سے پہلے ہی خم ہو چکی تھی مگر اس شخص میں میری دلچسپی بڑھتی گئی۔ مجھے قدرے بعد میں پتہ چلا تھا کہ اجمل خٹک شاعر بھی تھے۔
ایک شاعر جو شاعر ہونے کے سبب سیاست دانوں جیسا سیاست دان نہ بن پایا تھا یا پھر ایسا سیاست دان جس کی بہت سی شاعری سیاست اچک کر لے گئی تھی۔
اگر اجمل خٹک سیاست دانوں جیسے سیاست دان ہوتے تو سن دو ہزار میں نیشنل عوامی پارٹی سے اچانک یوں نکال باہر نہ کیے گئے ہوتے جیسے دودھ سے مکھی نکال باہر پھینکی جاتی ہے۔ الزام تھا کہ پرویز مشرف کے جھانسے میں آگئے تھے ۔عبداللہ جان عابد ذرا مختلف بات کہتے ہیں ۔ انہوں نے اجمل خٹک پر اکادمی ادبیات کے لیے “پاکستانی ادب کے معمار ” سلسلے کی کتاب لکھی تھی اور ان کی سب تحریروں تک رسائی کے لیے اُن سے رابطے میں رہے۔ انہوں نے اجمل خٹک کی وہ ذاتی ڈائریاں بھی پڑھ رکھی ہیں جو تعداد میں کئی تھی۔ انہوں نے بتایا ہ کہ سن دوہزار کی ڈائری میں اجمل خٹک کے ہاتھ کا یہ لکھا ہوا بھی دیکھا تھا کہ”ایسی سودے بازے سے کہیں بہتر یہ سمجھتا ہوں کہ کابل دریا کے یخ پانیوں میں چھلانگ مار کر ڈوب مرتا”۔ پارٹی سے نکالے جانے کا انہیں بہت دُکھ تھا اور اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا:”شاید مجھے پارٹی سے اس لیے نکالا گیاکہ میرا تعلق ایک خان یا جاگیردار طبقے سے نہیں تھا۔ ایک متوسط گھرانے سے تھا” ۔
متوسط گھرانے سے تعلق رکھنے والے اجمل خٹک چار آنے جیب میں لے کر سیاست کے کوچے میں نکلے تھے مگر یہ کیسے سیاست دان تھے کہ ساٹھ برس سیاست کے کوچے کی خاک چھاننے کے بعد مرتے دم ان کی جیب ویسے کی ویسےخالی تھی جب کہ سیاست کا اپنے ہاں چلن یہ ہے کہ اس میں آمروں سے بنی رہے تو خالی تجوریاں بھر جایاکرتی ہیں۔
اور شاعری کا قصہ بھی سن لیجیے۔ احمد فراز نے پشتو میں اس لیے شاعری نہ کی تھی کہ اس زبان میں اجمل خٹک جیسا شاعر موجود تھا۔ جی، یہ بات فراز نے خود کہی تھی۔ اور فراز کی اس بات سے جڑی ہوئی ایک اور شگفتہ بات۔ یہ ایک شگفتہ بات سہی مگر اس جانب اشارہ کر دیتی ہے کہ وہ کس کینڈے کے شاعر تھے اور اگر سیاست کے کوچے کی خاک چھاننے کی بجائے شاعری کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہو رہتے تو وہ اس باب میں اور کتنی عظمت پاتے۔ انتظار حسین نے اپنے ایک کالم میں یہ دلچسپ واقعہ یوں لکھ رکھا ہے۔ کہ ایک بار احمد فراز سے پوچھا گیا آپ نے اپنی مادری زبان پشتو میں شاعری کیوں نہیں کی؟ احمد فراز کا جواب تھا:”وہاں اتنے بڑے شاعر تھے کہ میں گھبرا گیا، غنی خان، امیر حمزہ شنواری اور اجمل خٹک۔” مشفق خواجہ نے اس پر ٹکڑا لگایا:”بات بڑی معقول ہے اردو میں فیض اور راشد سمیت کوئی ڈھنگ کا شاعر تھا ہی نہیں ،احمد فراز نے اچھا کیا، اِس خلا کو پُر کر دیا۔”
خیر یہ تو بڑے ہم عصر ادیبوں کی چھیڑ چھاڑ اور شوخیاں تھیں مگر کیا یہ کم اہم بات ہے کہ اردو کا بہت اہم اور محبوب شاعر احمد فراز اجمل خٹک کو پشتو کا اتنا نمایاں شاعر سمجھتے تھے کہ ان کا نام غنی خان اور امیر حمزہ شنواری کے ساتھ لے رہے تھے۔ اور واقعہ بھی یہ ہے کہ پشتون جنگجو شاعر خوشحال خان خٹک کے قبیلے کے اس شاعر کے کلام میں کچھ ایسی آگ بھری ہوئی تھی کہ اس کی آنچ انقلابی نوجوانوں کے دل تک پہنچتی اور انہیں چین سے نہ بیٹھنے دیتی تھی۔ اجمل خٹک نے نہ صرف شاعری کے موضوعات بدلے تھے، اس کا مزاج بھی بدل کر رکھ دیا تھا۔
اب اگر میں بھول نہیں رہا تو کچھ یوں ہے کہ ایک زمانے میں اکادمی ادبیات کے سہ ماہی جریدے” ادبیات” میں اجمل خٹک کا ایک گوشہ چھپا تھا جس میں ان سے کیا گیا ایک مکالمہ بھی تھا اور چکنے کاغذ پر بلیک اینڈ وہائیٹ تصویر بھی۔ ساتھ ہی ان کی پشتو شاعری کے تراجم تھے ۔ یہ شمارہ میرے پاس تھا مگر اب جو تلاش کرتا ہوں تو نہیں ملتا ۔ خیر ان کی پشتو شاعری کے تراجم “ادبیات” کے کئی اور شماروں میں بھی چھپتے رہے تھے، اس بہانے انہیں ایک بار پھر پڑھنے کا موقع مل گیا اور یہاں وہاں چھپے ہوئے کچھ اور تراجم بھی ملے ۔ افسوس کہ پشتو نہ جاننے کے سبب براہ راست اس کی تخلیقی زبان میں اُن کی شاعری نہیں پڑھ پایا ہوں ۔ میں جانتا ہوں کہ شاعری کو ترجمہ کرتے ہوئے جو کچھ دوسری زبان میں منتقل نہیں ہو پاتا ، وہ شاعری ہی ہوتی ہے۔ جی ہاں شاعری ، وہ اسلوب جو شعر کا مزاج بناتا ہے اور وہ احساس جو اسی زبان ہی میں گرفت میں آسکتاتھا جس میں شاعری کی گئی ہوتی ہے ۔اس کے باوجود اجمل خٹک کی شاعری کے جو تراجم میں نے دیکھے ان سے متاثر ہوا اور ایسے شاعر سے ملا جس کے کچھ خواب تھے۔
ان خوابوں کا ذکر ان کی اس کتاب میں بھی ہے جو انہوں نے “پاکستان میں قومی جمہوری تحریک” کے نام سے اردو میں لکھی تھی۔ ایک روشن خیال ترقی پسند فلاحی ریاست سے وابستہ بہت سارے خواب۔
یہ خواب ہی تھے جنہوں نے 1924 ء میں اکوڑہ خٹک کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے اجمل خٹک کوزندگی بھر چین سے نہ بیٹھنے دیا تھا ۔ خواب نہ دیکھتے تو معلمی کا پیشہ اپنائے رکھتے کہ یہی رزق کمانے کا پہلا وسیلہ بنا تھا۔منشی فاضل ہوئے، بی اے کی ڈگری لی اور پھر ریڈیو پاکستان پشاور میں اسکرپٹ رائٹر کی نوکری مل گئی یہاں بھی نہیں ٹکے۔روزنامہ “انجام” کے ایڈیٹر ہو گئے۔ صحافت بھی منزل نہ تھی یہاں کیسے ٹکتے ۔وہاں سے سیاست کے کوچے میں کود گئے۔
قوم پرستی اور روشنی خیالی لہو میں دوڑ رہی تھی۔ یہی ان کے اندر کے شاعر کو انگیخت کرتی تھی اور اس شخص کو بھی جس نے سیاست کی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ کہتے ہیں ان کے والد حکمت خان بھی قومی کاموں میں جتے رہتے تھے، یہ جراثیم ان ہی سے انہیں منتقل ہوئے تھے۔ ایک زمانے میں خدائی خدمات گار رہے۔تقسیم سے پہلے ہندوستان چھوڑ دو کے نعرے لگائے ۔ اجمل خٹک کی جس اردو کتاب کا میں نے اوپر حوالہ دیا ہے اس میں انگریزحکمرانوں سے شدید نفرت کرنے والے شخص کی تصویر سامنےآتی ہے۔ جی ایک ایسے شخص کی جو سمجھتا تھا کہ تقسیم کے پیچھے بھی انگریز کی چال تھی ۔ پاکستان بن گیا اجمل خٹک اس کے ہو گئے ریڈیو پشاور سے پاکستان کی عظمت کے پشتو میں ترانے لکھے ۔ وطن عزیز پاکستان کے لیے پشتو میں ملی نغمے کا بانی بھی اجمل خٹک ہی کو کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں تب وہ افغانستان کے خلاف پروپیگنڈے والا اسکرپٹ بھی لکھا کرتے تھے ۔خیر کرنا اس نگوڑی سیاست کا یہ ہوا کہ بھٹو کے دور حکومت میں افغانستان جلا وطن ہونا پڑا۔ اور وہ بھی تھوڑی مدت کے لیے نہیں کئی برسوں کے لیے۔ حتی کہ بھٹو کی بیٹی بے نظیر اقتدار میں آئی ۔ عام معافی کا اعلان ہوا تو ان پر واپسی کا دروازہ کھلا۔ اور ہاں میں نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ باچا خان کی فکر سے وابستہ اجمل خٹک پر ایک وقت آیا تھا کہ پارٹی کے دروازے کھل گئے تھے۔
شاعری کا درواز ان پر کبھی بند نہ ہوا تھا۔ تب ، جب وہ جلا وطن تھے اور تب بھی جب وہ جیل کاٹ رہے تھے۔ خواب ایسے تھے کہ سلاخیں کاٹ کر اندر آجاتے اور انہیں بے چین رکھتے ھے ۔ یہ خواب کیا تھے ان کے پشتو کلام کے ترجمے پر اپنی بات ختم کرتا ہوں کہ ان خوابوں کی صورت اس میں جھلک دے رہی ہے:
“میری ترجیح یہی ہے کہ انقلاب لا کر غریبوں پر تیری نعمتیں ارزاں کروں۔اگر انقلاب برپا نہ ہوا تو حد سے حد کیا ہوگا(یہی نا) ہماری لاشیں گِدھوں کی خوراک بن جائیں گی۔”
انقلاب نہیں آیا۔ غریبوں پر زندگی اور بھی مہنگی ہو گئی ہے ۔ عین ایسے زمانے میں کہ جب قومی یک جہتی ، صوبائی خود مختاری اور فلاحی ریاست کے خواب کی لاشیں مکروہ گدھ نوچ رہے ہیں قوم پرست مارکسی صوفی اجمل خٹک جیسا سیاست دان ایک بھی نظر نہیں آتا تو دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔ آئیے ایسے میں اس مارکسی صوفی کا کلام پڑھیں شاید یہی ہمارے اندر خواب دیکھتے رہنے کی امنگ زندہ کردے :
“بڑے لوگ تو ہمیشہ ماں کی کوکھ سے جنتی اور نیک پیدا ہوتے ہیں۔آؤ بے کسوں کے لیے جنت کمائیں جو مائیں دوزخی جنتی ہیں۔”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام اجمل خٹک کی گیارہویں برسی کی مناسبت سےاسلام آباد میں منعقدہ”قومی ادبی کانفرنس” میں پڑھی گئی سطور)